“ملک کے پسماندہ اور مضافاتی علاقوں کی یونیورسٹیوں کو صرف لوگوں کو خواندہ کرنے کی اجازت ہے، آزادی دینے کی نہیں۔ طلبہ کو کتابیں رٹنے کی اجازت ہے مگر اپنے جذبات کے اظہار کی نہیں۔ لڑکیوں کو کیمپس میں داخل تو ہونے دیا جاتا ہے مگر پدر شاہی نگرانی اور شرمندگی کے مستقل حصار میں۔
مالاکنڈ یونیورسٹی میں رقصی پرٹی کے خلاف حالیہ تنازع صرف چند منٹ کی موسیقی اور رقص کا معاملہ نہیں۔ یہ درحقیقت نوجوانوں، خوشی، جسم، جنس اور سماجی کنٹرول کے بارے میں ایک گہرا تصادم بے نقاب کرتا ہے۔ ایک ایسے خطے میں جو پہلے ہی انتہاپسندی اور اخلاقی پولیسنگ کی بھاری قیمت ادا کر چکا ہے۔
بات محض اتنی تھی کہ ایک سرکاری یونیورسٹی کے چند طلبہ، دنیا کی ہر یونیورسٹی کی طرح، موسیقی اور رقص کے ساتھ جشن منانے کے لیے جمع ہوئے۔ مالاکنڈ ڈویژن کے نوجوانوں کے لیے اس نوعیت کی تقریبات نایاب لمحے ہوتے ہیں۔ یہ کچھ دیر کے لیے آزادی محسوس کرنے کا، خوف کے بغیر جوان ہونے کا، اور یونیورسٹی کو صرف امتحانی مرکز نہیں بلکہ سماجی و ثقافتی جگہ کے طور پر برتنے کا موقع ہوتا ہے۔ کسی صحت مند نارمل تعلیمی ماحول میں یہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہوتا۔
مگر ردِعمل غیر معمولی تھا اور ہے۔ جوں ہی اس تقریب کی ویڈیوز اور تصاویر سامنے آئیں انتہاپسندوں اور خودساختہ اخلاقی نگہبانوں نے اسے نشانہ بنا لیا۔ طلبہ کی بے ضرر خوشی دیکھنے کے بجائے اس تقریب کو ”فحاشی“، ”عریانی“ اور ”اسلامی و پشتون اقدار پر حملہ“ قرار دیا گیا۔ سوشل میڈیا مہمات، خطبات اور بیانات میں سزاؤں، معافیوں اور انکوائریز کا مطالبہ ہونے لگا اور وہ بھی تشدد اور بدعنوانی کے خلاف نہیں، بلکہ رقص کے خلاف۔
یہ پہلا واقعہ نہیں۔ مالاکنڈ ڈیویژن نے طالبانائزیشن، ٹی این ایس ایم کی عسکریت اور اخلاقی پولیسنگ کے ایسے کئی ادوار دیکھے ہیں جن میں موسیقی، رقص، خواتین کی عوامی موجودگی اور مخلوط اجتماعات کو نشانہ بنایا گیا۔ عوامی ثقافت جرم بنا دی گئی، فنکار خاموش کر دیے گئے، پورے پورے معاشرے ”شریعت“ کے نام پر خوفزدہ کیے گئے۔ فوجی کارروائیوں کے بعد بھی نوجوانوں کی خوشی کو خطرہ اور خواتین کی موجودگی کو خطرہ سمجھنے کی سوچ ختم نہیں ہوئی۔ بس جامعات کی سیاست، سوشل میڈیا اور انتظامیہ میں منتقل ہوگئی۔
مالاکنڈ یونیورسٹی کی ڈانس پارٹی کے خلاف ردعمل کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ یہ کوئی الگ تھلگ مذہبی ردعمل نہیں بلکہ سماج کو دوبارہ قابو میں لانے کے ایک وسیع منصوبے کا حصہ ہے جس کا آغاز نوجوانوں سے ہوتا ہے۔ ایسے حملے یہ پیغام دیتے ہیں کہ حاشیائی peripheral یونیورسٹیاں مطالعہ پاکستان پڑھا تو سکتی ہیں، مگر آزاد نہیں کر سکتیں! طلبہ کتابیں تو یاد کر سکتے ہیں مگر اپنے وجود کا اظہار نہیں کرسکتے؛ لڑکیاں کیمپس میں تو داخل ہو سکتی ہیں مگر شرم اور نگرانی کے دائروں میں رہ کر اور ہمیشہ زچ ہوکر۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس انتہاپسندانہ ردعمل سے سب سے زیادہ خطرہ کم مایہ اور کمزور آبائی ثقافتوں کو بھی ہے۔یہی مالاکنڈ، سوات، دیر اور کوہستان کی وادیاں موسیقی، رقص، شاعری، حجرے اور موسمی تہواروں کی بھرپور روایات رکھتی ہیں۔ توروالی، کھوار، گاوری، کوہستانی، کالاشا اور دیگر مقامی اقوام کی درخشاں جمالیاتی دنیائیں ہیں ۔ مگر آج کے ماحول میں انہی زندہ ثقافتوں کو ”غیر اسلامی“ کہا جاتا ہے جبکہ درآمد شدہ سخت نظریات کو ”اصل“ قرار دیا جاتا ہے۔
ریاست اور یونیورسٹی انتظامیہ کا ردِعمل نہایت اہم ہے۔ جب حکام خوفزدہ ہو کر خود کو طلبہ سے دور کر لیتے ہیں یا انتہاپسندوں کی آوازوں کے سامنے جھک جاتے ہیں تو وہ دراصل یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہجوم کا غصہ ہی اخلاقیات کا تعین کرتا ہے۔ لیکن جب وہ طلبہ کے محفوظ اور باوقار جشن کے حق کا دفاع کرتے ہیں اور خوشی کو جرم قرار دینے سے انکار کرتے ہیں تو وہ نہ صرف اپنے کیمپس بلکہ ایک روادار اور کثیرالثقافتی پاکستان کے تصور کی حفاظت کرتے ہیں۔
اصل بحث رقص پر پابندی کی نہیں بلکہ اس سوال کی ہے کہ عوامی اور تعلیمی مقامات میں کیا ہونا چاہیے؟ یہ طے کون کرے؟ منتخب نمائندے، یونیورسٹی قوانین اور حقوق پر مبنی قانون؟ یا پھر سڑکوں کا دباؤ اور آن لائن دھمکیاں؟ مالاکنڈ یونیورسٹی کا واقعہ یاد دہانی ہے کہ انتہاپسندی کے خلاف جدوجہد صرف میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ کلاس رومز، ہوسٹلز، آڈیٹوریمز کھیلوں کے میدانوں پر بھی ہوتی ہے
۔
بعض لوگوں کو ایک چھوٹی سی ڈانس پارٹی کا دفاع معمولی یا بے معنی لگ سکتا ہے مگر ایک ایسے خطے میں جہاں کبھی لڑکیوں کے اسکول جلائے گئے اور موسیقی پر پابندی لگائی گئی، وہاں بغیر خوف کے رقص کرنے کا حق انتہا درجے کا سیاسی مسئلہ ہے۔ یہ اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ مالاکنڈ کا مستقبل خوفزدہ، گھٹن ذدہ ہوگا یا پراعتما اور تخلیقی نوجوانوں کا ہوگا جو خوشی کو جرم نہیں بننے دیتے!
مذہب اور ثقافت کس طرح نظریات میں بدل دیے جاتے ہیں؟
زبیر توروالی
اپنی اصل میں مذہب اور ثقافت نظریات نہیں ہوتے۔ یہ انسانوں کی روزمرہ زندگی، تجربے، تلاشِ معنی، ایک دوسرے کے ساتھ جڑنے، خوبصورتی تخلیق کرنے اور مقدس کی تلاش سے جنم لیتے ہیں۔ یہ لوگوں کو قابو کرنے یا سیاسی طاقت منظم کرنے کے نظام کے طور پر پیدا نہیں ہوئے تھے۔ مگر وقت کے ساتھ مذہب اور ثقافت، دونوں کو بدلا، تراشا اور استعمال کیا گیا تاکہ وہ طاقت کے مختلف نظریاتی مقاصد پورے کر سکیں۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ مذہب اور ثقافت اصل میں کیا تھے اور بعد میں انہیں طاقت کے حصول کے آلات میں کیسے بدلا گیا۔
ثقافت اپنی بنیادی روح میں لوگوں کی روزمرہ زندگی ہے۔ ان کی عادات، علامات، اشارے، موسیقی، کہانیاں، ذوق، خوف، مزاح، اور جشن و سوگ کے طریقے وغیرہ سب ثقافت میں آتے ہیں۔ یہ روایات آہستہ آہستہ اور بے شعوری طور پر بنتی ہیں۔ لوگ ثقافت کو سوچ سمجھ کر نہیں بلکہ جیتے ہوئے وراثت میں حاصل کرتے ہیں۔ یہ جغرافیہ، موسم، تاریخ اور تجربات کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔ ثقافت بذات خود اختیار یا حکمرانی کا نظام نہیں۔ یہ محض انسانوں کے جینے کا طریقہ ہے۔
مذہب بھی اسی طرح معنی اور مقصد کی تلاش سے آغاز لیتا ہے۔ یہ رسومات، اخلاقی تعلیمات، کہانیوں اور روحانی طریقوں کے ذریعے انسان کو زندگی اور موت، آخرت، امید اور مایوسی کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ اکثر مذہبی عمل بے ساختہ اور غیر شعوری ہوتے ہیں۔ عادت سے پڑھی جانے والی دعائیں، سکون دینے والی رسومات، اور وہ اخلاقی اصول جنہیں لوگ دل سے درست سمجھتے ہیں اور غیر ارادی طور پر بھی کرتے ہیں۔ تاریخ میں مذہب کا مقصد اخلاق، ہمدردی، عاجزی اور برادری پیدا کرنا تھا نہ کہ سیاسی حکم چلانا۔
نظریہ اس کے برعکس کچھ اور ہی نوعیت کی چیز ہے۔ نظریہ ایک سوچا سمجھ نظامِ خیالات اور ضابطہ ہے جو طاقت کو جائز ثابت کرنے، معاشرے کو منظم کرنے اور یہ طے کرنے کہ کون حکمرانی کرے اور کس کی آواز سنی جائے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نظریہ ہمیں بتاتا ہے کہ کیا ”معمول“ ہے، کیا ”اخلاقی“ ہے، کیا ”ضروری“ ہے اور اسی بنیاد پر سماجی و سیاسی درجہ بندیاں قائم کرتا ہے۔ یہ ارادی، حکمتِ عملی پر مبنی اور طاقت کے ساتھ گہرا جڑا ہوتا ہے۔
مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب مذہب اور ثقافت کو ان کی قدرتی، زندہ فضا سے نکال کر نظریاتی ہتھیار بنا دیا جاتا ہے۔ یہ اس لیے نہیں کہ مذہب یا ثقافت اپنی اصل میں جابرانہ ہیں بلکہ اس لیے کہ بااختیار طبقات عوام میں ان کی جذباتی اور علامتی قوت کو پہچان لیتے ہیں۔ جب کوئی مذہبی سیاسی گروہ اپنے مخصوص فہمِ دین کو سب کے لیے واحد معیار قرار دیتا ہے تو مذہب روحانیت نہیں رہتا نظریہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح جب ریاستیں یا طاقتور گروہ لباس، اخلاق یا جنسیت کے مخصوص قواعد مذہب کے نام پر مسلط کرتے ہیں تو مذہب ایک سیاسی منصوبہ بن جاتا ہے۔
ثقافت بھی اسی طرح نظریہ بنائی جاتی ہے۔ جب کوئی طاقتور قوم اپنی اقدار اور روایات کو ”عالمگیر“ یا ”اعلیٰ“ قرار دے کر دوسروں سے انہی پر چلنے کی توقع رکھتی ہے تو ثقافت مشترکہ انسانی اظہار نہیں رہتی بلکہ وہ کنٹرول کا آلہ بن جاتی ہے۔ نوآبادیاتی استعمار نے یہ کھلم کھلا کیا اور ریاستی قوم پرستی آج بھی اسے خاموش طریقے سے جاری رکھے ہوئے ہے۔
مذہب اور ثقافت اپنی اصل میں نظریات نہیں لیکن انہیں بار بار نظریات میں بدلا جاتا ہے خاص کر ان لوگوں کے ہاتھوں جو سماج کو قابو میں لانا، یکساں بنانا یا اپنے سیاسی ایجنڈے کو جواز دینا چاہتے ہیں۔ یہ تبدیلی یعنی روزمرہ زندگی سے ایک مسلط کردہ ضابطے تک، یہ دکھاتی ہے کہ خوبصورتی، روحانیت اور انسانی تجربہ کس آسانی سے طاقت کے نام پر استعمال ہو سکتا ہے۔
ہم اپنے معاشرے میں جب بھی کسی مذہبی یا ثقافتی عمل پر تنازع دیکھتے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی ریاست نے مذہب کو نظریہ بنا دیا ہے اور اپنی پیدائش سے اب تک تمام ثقافتی اظہار کو اسی نظریے کے تابع کرنے کی کوشش کرتی آئی ہے۔