ممتاز قادری کیس

ممتاز قادری اورسلمان تاثیر دونوں کا معاملہ حاکموں کے حاکم کی عدالت میں جا پُہنچا _ دونوں فریقین کے متعلقین بضد تھے اور ہیں کہ انہی کا فریق حق پر تھا _

اس کیس کی ابتداء سے انتہاء تک دو طبقوں کا امتحان تھا _ ایک طبقے نے ثابت کیا کہ قانون کسی بھی حالت میں نافذ العمل کیا جا سکتا ہے _ ٹرائل کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک ، کسی درجے کی عدالت نے قانون پر سمجھوتہ نہ کیا _ کرنا بھی نہی چاہے تھا _

دوسرا اور اصل امتحان اہل مذہب کا تھا اور ہے _ اہل مذہب کا سنجیدہ طبقہ تو ماشاءاللہ تمام ایشوز پر خاموسشی کو ہی نجات سمجھتا ہے _ نتجتاً دوسرے اور تیسرے درجے کے لوگ اب اس طبقے کے نمائندگی کر رہے ہیں _جو کسی بھی لحاظ سے اچھا نہیں _ اس طبقے کی اکثریت علم سے عاری ،جذبات سے سرشار ہے _ نتیجہ مذہب کے موجودہ حال کے طور پر سب کے سامنے ہے _

اہل مذہب کی سنجیدہ قیادت پر یہ بھاری بھر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سامنے آئے اور آئین اور قانون کی بالادستی کو سر تسلیم خم کرتے ہوۓ اس فیصلے کی تائید کرے _اور ساتھ ساتھ مذہب پر مہربانی کرتے ہوۓ اپنے نچلے درجے کو امامت و قیادت سے دور رکھے _

حقیقت یہ ہے جن لوگوں نے ممتاز قادری کو آگے کیا تھا _اول تو وہ یہ تصور بھی نہیں کر رہے تھے کہ یہ بھی ہو سکتا ہے _ دوم ان میں سے بہتوں کے کچھ مقاصد تھے _جو کچھ دوران اسیری حاصل کیے گے اور باقی تاحیات کیے جاتے رہے گے _

سپریم کورٹ نے ممتاز قادری کیس میں تفصیلی فیصلے میں درحقیقت قانون توہین رسالت کو ناصرف موثر بنا دیا _بلکے اس فیصلے کے نفاز سے بہت سی غیر ضروری بحث کا راستہ بھی بندکر دیا ہے _

میری راۓ میں اس کیس کا فیصلہ بادی النظر میں اہل مذہب کے حق میں ہوا ہے _ اس فیصلے سے قانون توہین رسالت کو تحفظ مل گیا ہے _ ورنہ اہل مذہب نے اس قانون کے ساتھ اسی نوعیت کا کھلواڑ کرنا اور کروانا تھا _نتجتاً موجودہ قانون دوبارہ زیر بحث آتا _ حقیقت یہ ہے اہل مذہب اب نہ تو قانون بنوانے کی پوزیشن رکھتے ہیں اور نہ دفاع کرنے کی اہلیت _

بہرحال کچھ بھی ہو قانون کی بالادستی ہی میں سماج کی عافیت کا راز مضمر ہے _

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے