پرویز مشرف کا نامہ اعمال زلفِ یار کی طرح سیاہ ہے۔اپنے اس نامہ اعمال کی ساری تیرگی کے ساتھ وقت نے انہیں کٹہرے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔یہ دن ہیں جنہیں اللہ لوگوں کے درمیان پھیرتا رہتا ہے۔کہاں ان کی وہ ساری رعونتیں اورکروفر کہ خلق خدا کو حشرات الارض سمجھتے تھے اور اٹھتے بیٹھتے ایک ہی مالا چبتے تھے:میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں اور کہاں یہ عالم کہ بات ابھی فردِ جرم تک ہی پہنچی کہ اعصاب یوں چٹخے کہ اعلی حضرت سوشل میڈیا کا سب سے بڑا ’ لافنگ سٹاک‘ بن چکے ہیں۔گاہے منیر نیازی یاد آتے ہیں اور بڑی شدت کے ساتھ:
’’ ہن ملیں تے روک کے پُچھاں کی ایہہ تیرا حال
کتھے گئی اوہ رنگت تیری سپاں ورگی چال‘‘
تا ہم سوال دوسرا ہے: کیا یہ آئین و قانون سے محروم اور اپنی نا تراشیدہ جبلتوں کا اسیر ایک قبائلی معاشرہ ہے جو پرویز مشرف سے انتقام لینے پر تلاہے یا ایک جمہوری ریاست میں آئین و قانون کے تحت دستور کی سر بلندی کے لیے ایک خودسر ملزم کا ٹرائل ہو رہا ہے؟جن احباب کے پیش نظر نفرت اور انتقام ہے وہ ان سطور کے مخاطب نہیں ۔ان سطور کے مخاطب وہ ہیں جن کے نزدیک یہ معاملہ نفرت اور انتقام کا نہیں دستور کی حرمت، تقدس اور آرٹیکل چھ کے درست اطلاق کا معاملہ ہے۔
جب معاملہ آئین کی سربلندی کا ہے تو اولین ترجیح انتقام نہیں انصاف ہونا چاہیے۔اور انصاف کے لیے لازم ہے کہ ایک نیا نظریہ ضرورت ایجاد نہ کیا جائے بلکہ آئین و قانون کا مکمل اطلاق کیا جائے۔اب آئین و قانون کے مکمل اطلاق کے لئے یہ جان لینا ضروری ہے کہ اس کیس میں آئین کیا کہہ رہا ہے۔اس ضمن میں تین بنیادی باتیں پیشِ خدمت ہیں۔
1۔آرٹیکل چھ کے تحت صرف ایک آدمی مجرم نہیں ہوتا بلکہ وہ سب برابر کے مجرم ہوتے ہیں جنہوں نے اس جرم میں مجرم کی معاونت کی ہو، ساتھ دیا ہو،اسے مشورے دے دے کر اکسایا ہویا کسی بھی طریقے سے اسے اس جرم کے ارتکاب کی ترغیب دی ہو۔اب سوال یہ ہے کہ اگر مقصد واقعی ایک مشرف سے انتقام لینا نہیں ہے تو آرٹیکل چھ پر پورا عمل کیوں نہیں کیا جا رہا؟اکیلے تو مرغی انڈہ نہیں دے سکتی اسے مرغے کی مدد درکار ہوتی ہے تو اکیلے مشرف نے یہ سارا کام کیسے کر لیا؟اگر ہمت ہے تو آئین پر پورا عمل درآمد ہونا چاہیے۔یہ انصاف نہیں کہ آدھے آرٹیکل چھ پر عمل کر لیا جائے اور آدھے آرٹیکل چھ کو نظر انداز کیا جائے۔ایمرجنسی کی زلفِ طرحدار سنوارنے والے مشرف کے وزیر قانون زاہد حامد کو تو آپ بھی وزیر قانون بنا لیں اور اپنی بغل میں جگہ دیں ،مشرف کے پستول بدل بھائی امیر مقام کو آپ اپنے دل میں مقام دے لیں،مشرف کے گورنر بلوچستان جنرل عبد القادر کو آپ وفاقی وزیر بنا لیں اور آرٹیکل چھ کا کوڑاآپ صرف مشرف کی پشت پر برسانا شروع کر دیں تو یہ ایک نیا نظریہ ضرورت ہو گا جسے انصاف نہیں کہا جا سکتا۔
2۔دوسرا سوال یہ ہے کہ کارروائی کا آغاز تین نومبر سے کیوں کیا جا رہا ہے؟کیا آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ حکومت جب اور جہاں سے چاہے کارروائی کا آ غاز کر لے یا اس نے اس حوالے سے کوئی واضح ہدایت دے رکھی ہے؟اس کا جواب آرٹیکل بارہ کی دفعہ دو میں موجود ہے کہ ہائی ٹریزن کے کسی بھی جرم پر سزا کا اطلاق 23مارچ 1956سے ہوگا۔اگر کسی کو یہ شرط نامناسب لگتی ہے تو آئین میں تبدیلی کر کے وہ اسے مناسب بنا لے۔لیکن جب تک یہ شرط آئین میں موجود ہے آپ یہ نہیں کر سکتے کہ پانچ جولائی اور بارہ اکتوبر کو بھلا دیں اور تین نومبر سے شروع کر لیں۔یہ ایک نیا نظریہ ضرورت ہو گا۔کر سکتے ہو تو وہ کرو جو آئین کہہ رہا ہے۔
3۔کہا جاتا ہے کہ پچھلے مارشل لاز کی پارلیمنٹ نے توثیق کر دی ہے اس لیے وہ جرم نہیں رہے اور تین نومبر کے اقدامات کی توثیق نہیں ہوئی اس لیے تین نومبر سے کارروائی کی جا رہی ہے۔یہ موقف درست نہیں ہے۔مارشل لاز کی توثیق پارلیمنٹس نے آرٹیکل 270کے تحت کی اور آرٹیکل 270 کا عنوان ہے’عارضی تو ثیق‘۔تاکہ نظام ریاست چلتا رہا۔آرٹیکل 12(2)میں صاف لکھا ہے کہ ایسی توثیق کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ ہائی ٹریزن کے مجرم کو سزا نہ دی جائے،اس توثیق کے باوجود سزا دی جائے گی۔مصیبت یہ ہے کہ میڈیانے دانشوروں کی ایک ایسی قسم متعارف کرا دی ہے جو مطالعہ کا بھاری پتھر اٹھائے بغیر دانش کے نام پر اپنی عصبیتوں کی جگا لی کرتی رہتی ہے۔چنانچہ آئین پر قوم کی رہنمائی کرنے والے احباب نے کبھی آئین کی کتاب کھول کر دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔اب اگر آپ آرٹیکل 6پر عمل کرتے ہوئے آرٹیکل 12(2)کو نظر انداز کر دیتے ہیں تو یہ ایک نیا نظریہ ضرورت ہو گا۔
4۔پی پی پی کی حکومت آرٹیکل چھ میں ایک ترمیم کر چکی ہے۔اب اس میں ایک نئی بات یہ لکھی ہے کہ کوئی جج مارشل لاء کی توثیق نہیں کرے گا۔بظاہر یوں لگتا ہے کہ اس کا تعلق مستقبل سے ہے تا کہ آئندہ عدالتیں ایسا نہ کریں۔لیکن حقیقت میں ایسا نہیں۔قانون کی دنیا میں یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ قانون جب بنتا ہے تو اس کا اطلاق بننے کے بعد سے شروع ہوتا ہے۔یعنی قانون اگر یکم جنوری کو بنتا ہے تو اس کا اطلاق دسمبر کے واقعات پر نہیں ہوگا۔لیکن اس اصول میں ایک استثنی ہے۔ آرٹیکل 12(2)کہتا ہے کہ ہائی ٹریزن کے حوالے سے جب بھی کوئی قانون بنے گا اس کا اطلاق 23مارچ 1956سے ہوگا۔گویا آرٹیکل چھ میں جو بھی ترمیم ہو گی اور جب بھی ہو گی اس کا اطلاق 23مارچ1956سے ہوگا۔اسے (Retrospective effect)کہتے ہیں۔آپ اس پر عمل کریں گے تو وہ سارے ججز بھی کٹہرے میں لانے ہوں گے جنہوں نے کبھی بھی کسی بھی مارشل لاء کی توثیق کی ہو۔اور اس میں بارہ اکتوبر اور سے متصل واقعات بھی قانون کی گرفت میں آئیں گے۔آپ زرداری حکومت کا کمال دیکھیے عدلیہ کے بارے میں تو یہ لکھ دیا کہ وہ کسی مارشل لا کی تو ثیق نہیں کرے گی لیکن یہی بات پارلیمنٹ کے بارے میں نہیں لکھی۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ ترمیم دراصل مشرف کو این آر او کے بدلے میں دیا جانے والا تحفہ ہے تا کہ کبھی مشرف کے خلاف کارروائی ہو تو عدلیہ خود بھی قانون کی زد میں آ جائے۔اب اگر آئین ہائی ٹریزن کے جرم کی سزا کو (Retrospective effect)دے کر ایک خاص قانون بنا رہا ہے تو ہم اس کی نفی کیسے کر سکتے ہیں۔کریں گے تو یہ بھی ایک نیا نظریہ ضرورت ہو گا۔
5۔یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ تین نومبر کی ایمر جنسی مشرف نے بطور آرمی چیف کیوں لگائی؟بطور صدر پاکستان کیوں نہ لگائی؟ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ نے مشرف کو تین سال حق حکومت دیا تھا اور کہا تھا کہ آرمی چیف حسب ضرورت آئین میں ترمیم کر سکتے ہیں۔حق حکومت میں تین سال کی شرط تھی لیکن جس جگہ آئین میں ترمیم کا حق دیا گیا وہاں ایسی کوئی شرط نہ تھی کہ یہ حق کتنے سال کے لئے دیا جا رہا ہے۔اب اگر ایمرجنسی ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا سہارا لے کر لگائی گئی تو کیسے ممکن ہے ظفر علی شاہ کیس کا فیصلہ زیر بحث نہ آئے اور بات بارہ اکتوبر تک نہ جائے؟بات اگر وہاں نہیں پہنچ پاتی تو یہ بھی ایک نیا نظریہ ضرورت ہی کہلائے گا۔
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے۔