اس وقت پوری دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں (Climate Change)کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خطرناک صورت حال سے خوفزدہ ہے اوردنیا بھر میں ماحولیاتی مسائل کے ماہرین اس مسئلے کے بارے میں مسلسل غور وفکر کر رہے ہیں۔گزشتہ برس دسمبر میںپیرس میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس میں دنیا بھر کے رہنماؤں نے شرکت کی تھی۔
دنیا کے ماحول میں تیزی کے ساتھ ہونے والی یہ تبدیلیاں درجہ حرارت میںغیر معمولی اضافے کا باعث بن رہی ہیں جس کے نتیجے میں موسموں میں بڑے پیمانے پر منفی تغیرات آرہے ہیں۔فضاء میں موجود تہہ جو سورج کی تپش اور زمین کے درمیان ایک فلٹر کا کام کرتی ہے، وہ دنیا بھرمیں موجود کارخانوں اور گاڑیوں وغیرہ میں جلنے والے ایندھن سے خارج ہونے والی مہلک گیسوں کی بھاری مقدار سے شدید متاثر ہورہی ہے۔
ان گرین ہاوس گیسوں کا اخراج ان ممالک میں زیادہ ہو رہا ہے جو صنعتی ترقی کے اعتبار سے سب سے برتر شمار ہوتے ہیں۔ گزشتہ ایک صدی کے دوران پوری دنیا میں کوئلے اور تیل کے جلائے جانے کے نتیجے میں خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس دنیا کے ماحول کوتیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے جس کے نتیجے میں ہونے والی تیز رفتار موسمی تبدیلیاں بعض خطوں میں درجہ حرارت میں نقصان دہ حد تک اضافے کا باعث بن رہی ہیں جبکہ کچھ علاقوں میں سردی ناقابل برداشت حد تک بڑھ رہی ہے۔
انہی ماحولیاتی تبدیلیوں کے زیر اثر دنیابھر میں پانی کے ذخائر میں شدید عدم توازن پیدا ہوچکا ہے۔ اگر اس اہم اور حساس مسئلے کی جانب سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی تو گرین ہاؤس کے شدید اثر کے تحت دنیا بھر کے گلیشیئرز تیزی سے پگھلنا شروع ہو جائیں گے جس سے سمندر کی سطح میں غیر معمولی اضافہ ہوجائے گا ،جو انسانی آبادیوں کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اگر صورت حال میں بہتری نہ آئی تو 2100ء تک سمندروں کی سطح میں 52 سے 98 فیصد تک اضافہ ہو جائے گا جس کے نتیجے میں ساحلی شہروں، جزیروں پر موجود آبادیوں اور نشیبی ڈیلٹاؤں کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں فصلوں اور پودوں کی قدرتی نشونما بھی شدید متاثر ہو سکتی ہے۔
زیادہ نقصان ان زرعی زمینوں کو پہنچے گا جو سمندروں اور دریاؤں کے قریب واقع ہیں۔ پانی کی غیر متوازن موجودگی کے باعث بعض خطوں میں تو اچھی فصلیں اور درخت ہوں گے جبکہ دوسرے بہت سے علاقے بنجر رہ جائیں گے۔عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں پر تیار کی جانی والی ایک جائزہ رپورٹ میں دنیا بھر کے 13سو غیر جانب دار ماہرین اور سائنس دانوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ گزشتہ اڑھائی سو برسوں میں ہونے والی انسانی سرگرمیوں نے ہمارے اس سیارے کی حرارت میںبے پناہ اضافہ کیا ہے۔
جدید تمدنی زندگی کے لیے لازمی تصور کی جانے والی صنعتی سرگرمیوں نے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کو دوگنا سے زیادہ بڑھا دیا ہے ۔یہ درست ہے کہ گرین ہاوس گیسوں میں صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ ہی نہیں بلکہ میتھین ، اور نیٹروس آکسائیڈ بھی شامل ہیں لیکن کرّہ ارض کے درجہ حرارت کو متاثر کرنے میں سب سے زیادہ کردار کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ہے کیونکہ مقدار کے اعتبار سے یہ باقی دو گیسوں کی نسبت کئی گنا زیادہ پائی جاتی ہے ۔
یہ حقیقت اپنی جگہ کہ انہی گرین ہاوس گیسوں کے ایک کمبل نے سطح ز مین پر بسنے والے جانداروں کو شدید ترین سردی سے بچایا ہوا ہے مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کمبل کی موٹائی میں ہونے والا غیر معمولی اضافہ بھی زمین پر بسنے والے جانداروں کیلیے اچھا نہیں۔ کچھ ماہرین ناسا کی تحقیق کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ گزشتہ کچھ دہائیوں سے سورج سے نکلنے والی گرمائش میں بھی اضافہ ہوا ہے جو براہ راست زمین کے ماحول پر اثر انداز ہو رہا ہے۔
ناسا کے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ 2007ء سے سورج کے مشرقی حصے پر ایک مقناطیسی قطب پیدا ہو گیا ہے جو پہلے سے زیادہ گرمی کا باعث بن رہا ہے لیکن دوسرے بہت سے ماہرین جو سورج کی توانائی میں کمی یا بیشی کے قائل نہیں ہیں ،اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے ۔ وہ کرہ ارض کی گرمائش کابڑا ذمہ دار گرین ہاوس گیسوں کو ہی قرار دیتے ہیں۔
دنیا کے درجہ حرارت کا براہ راست تعلق اس کے توانائی وصول کرنے اور چھوڑنے کے ساتھ ہے۔ جب سورج سے آنے والی توانائی کو زمین اپنے اندر جذب کرتی ہے تو کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور جب زمین یہ توانائی واپس خلاء میں بھیجتی ہے تو زمین ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ اس وقت ماحولیاتی تبدیلیاں انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
اٹھارھویں صدی میں صنعتی انقلاب آنے سے قبل تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ دنیا کے ماحول میں تبدیلی کا باعث صرف قدرتی اسباب ہیں لیکن اس کے بعد کئی نئے اسباب بھی سامنے آ چکے ہیں۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں توانائی پیدا کرنے کے نتیجے میں فضاء میں ہر سال قریب23 بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر سیکنڈ میں 700 سو ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فضاء میں شامل ہو کر اس ماحول کے لیے درجہ حرارت میں انتہائی اضافے کی صورت میں خطرہ بن رہی ہے ۔
پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں عالمی ماحولیاتی تبدیلیاں بڑے پیمانے پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ ایک ایسا ملک جہاںسا ل کے چار موسموں کا دورانیہ مخصوص ہوتا تھا۔ سال کے دوران بارشوں کے اوقات میں شاذ ونادر ہی کوئی فرق آتا تھا لیکن گزشتہ ایک دہائی سے ان تمام معمولات میں کافی تبدیلی دیکھی جا رہی ہے ۔موسمی سیلاب اب یہاں کا معمول بن چکے ہیں جن میں بڑی تعداد میں لوگ اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں۔
سال 2010ء میں ملکی تاریخ کا بدترین سیلاب آیا جس نے 18 سو افرادنگل لیے جبکہ جولائی 2015ء میں آنے والے سیلاب میں 169لوگوں کی ہلاکت کی سرکاری اطلاعات ہیں۔
انہی حقائق کے پیش نظر سال گزشتہ میں عالمی سطح پر سرگرم ایک تھنک ٹینک ’’جرمن واچ‘‘ نے اپنے گلوبل کلائیمیٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث دس سب سے زیادہ غیر محفوظ ممالک کی فہرست میں شامل کیا جبکہ ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ اگلے پندرہ برسوں میں پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد 27لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔دوسری جانب پاکستان میں اس قسم کے حادثات سے بچنے کے لیے سال 2013ء میں نیشنل ڈیزاسٹررسک ریڈکشن پالیسی کی منظوری دی تھی جس کے تحت قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی شرح کو کم سے کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جانے تھے ۔اسی پالیسی کے تحت نیشنل ڈیزاسٹر اتھارٹی کے بجٹ میں ماضی کی نسبت دوگنا اضافہ کیا گیا لیکن 2015ء میں ہونےوالی سیلابی تباہی نے یہ ثابت کر دیا کہ حکومتی ادارے تاحال بہت سست روی کا شکار ہیں۔
ہمارے ہاں حکومت اس قسم کے ماحولیاتی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے موثر اور دیر پا پالیسیوں کی تیاری اور ان پر عمل درآمد کی بجائے متاثرین کووقتی طور پر معاوضہ ادا کر کے خاموش ہو جاتی ہے۔کچھ عرصہ قبل لیڈ (LEAD)پاکستان اور ڈبلیو ڈبلیو ایف برطانیہ کی ایک مشترکہ رپورٹ ’’نیچر پاکستان پروجیکٹ‘‘ سامنے آئی تھی جس کے مطابق پاکستان میں سمندر کی سطح میں سالانہ 6 ملی میٹر اضافہ ہو رہا ہے جس کے نتیجے می ساحلی علاقوں کی زمین آہستہ آہستہ سمندر برد ہو رہی ہے۔
رپورٹ میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر سمندر کی سطح اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو قریبی علاقوں میںزیر زمین پانی کھارا ہو جائے گا جس سے مجموعی طور پر پورا ایکو سسٹم متاثر ہو جائے گا۔ پاکستان میں قائم ماحولیاتی تحفظ کونسل کے ادارے کی ابھی تک کی کارکردگی بہت مایوس کن ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماحول کے تحفظ سے متعلق محکموں کو متحرک کیا جائے تاکہ انسانی آبادی کو مستقبل میں کسی بڑے خطرے سے بچایا جا سکے۔
کچھ برسوں سے پاکستان کے زرعی علاقوں میں کسان زمین کی زرخیری اور پیداواری صلاحیت میں کمی کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔وہ علاقے جو دریاؤں کے کناروں پر واقع ہیں وہاں پانی کی سطح میں غیر معمولی اضافے کے باعث سیم اور تھور جیسے مسائل پیداوار کی شرح میں اس کمی کا باعث بن رہے ہیں ۔اس حوالے سے چند سال قبل کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ غیر معمولی موسمیاتی تغیرات کے نتیجے میں آئندہ چند برسوں میں پاکستان میں چاول ،کپاس اور گندم کی فصلوں کی پیداوار میں کافی کمی آ سکتی ہے جو ابتداء میں بعض علاقوں میں غذائی کمی کے حالات بھی پیدا کر سکتی ہے۔
ہمارے ملک کی زرعی پیداوار کا دارومدار دریاؤں کے پانی پر ہے اور ان دریاؤں کا انحصار کوہ ہمالیہ پر موجود پانی کے بڑے ذخیروں(گلیشیئرز) پر ہے ۔ کچھ سالوں سے گلوبل وارمنگ نے ان گلیشیئرز کے پگھلاؤ کی قدرتی رفتار کو شدید متاثر کر کے اس میں تیزی لائی ہے۔ ماہرین پاکستان میں آنے والے تباہ کن موسمی سیلابوں کی ایک بڑی وجہ ان گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کو بھی قرار دے رہے ہیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ ملک کے بالائی پہاڑی علاقوں میں زمینی کٹاؤاور لینڈ سلائڈنگ کے واقعات میں بھی نمایاںاضافہ دیکھا جا رہاہے۔ پہلے صرف بارشوں کے موسم میں پہاڑی تودے گرتے تھے لیکن کچھ عرصہ سے خشک لینڈ سلائڈنگ شروع ہو چکی ہے جس کا واضح مطلب ہے کہ اب زمین میں وہ پہلے والی جُڑت اور مضبوطی نہیں رہی ۔ماضی قریب میں 2005ء کے زلزلے میں بڑے پیمانے پر لینڈ سلائڈنگ دیکھی گئی ۔ اس تباہ کن زلزلے نے مظفرآباد، بالا کوٹ ،مانسہرہ اور آس پا س کے علاقوں میں موجودپہاڑوں کی ساخت کوسخت نقصان پہنچایا ہے۔
اس کے بعد جاپان کے بین الاقوامی تعاون کے ایک ادارے جائیکا(JICA) نے اپنی ایک مفصل رپورٹ میں صرف مظفرآباد کے 18 مقامات کے بارے میں مستقبل میں لینڈ سلائڈنگ کے خطرے کا اظہار کیا ہے۔
جائیکا نے اپنی رپورٹ میں حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ فالٹ لائنز پر واقع اور ایسی جگہوں پر مقیم آبادیوں کو نئی جگہ پر آباد کریں جن کے سلائیڈنگ میں تباہ ہو جانے کا خطرہ ہے۔پاکستان اور چین کے درمیا ن بننے والی طویل ترین اقتصادی راہداری بھی ہمارے ماحول کو بڑے پیمانے پر متاثر کرے گی جس کے لیے پیش بندی کے طور پر ماحولیاتی پالیسیاں ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ ملک کے شمالی علاقہ جات ،آزادکشمیر، فاٹا اور سوات وغیرہ جو پھلوں اور سبزیوں کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں ان علاقوں کی آب و ہوا میں آنے والی منفی تبدیلیوں کا براہ راست اثر وہاں کے باغوں اور فصلوں کے اجڑنے کی صورت میں سامنے آرہا ہے جو ماحولیاتی تحفظ کے ذمہ دار اداروں کی خصوصی توجہ چاہتا ہے۔
غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والی آبی،فضائی اور زمینی آلودگی بھی پاکستان میں کچھ کم نہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے شہروں لاہور ، کوئٹہ اور پشاور کا شمار دنیا کے دس آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے۔کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے جہاں ہر روز کارخانوں سے ہزاروں ٹن زہریلا پانی نکل کر ندی نالوں کی صورت میں سمندر میں شامل ہو کر آبی حیات کے لیے سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
یہی حال باقی شہروں کا ہے ۔ پاکستان میں بدقسمتی سے صنعتی فضلے کو محفوظ اور ماحول دوست انداز میں تلف کرنے یا ٹھکانے لگانے کی جانب توجہ نہیں دی جارہی ۔ یہی وجہ ہے کہ دن بدن ہمارے زیر زمین پانی کے ذخائر بھی آلودہ ہوتے جا رہے ہیں ۔ زیر زمین موجود یہی آلودہ پانی ہماری خوراک کا حصہ بن کر طرح طرح کی بیماریوں کا باعث بن رہا ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ہسپتالوں میں علاج کی غرض سے موجود ہر دوسرا شخص آلودہ پانی سے متاثر ہے۔
لاہور کی حالت تو یہ ہے کہ یہاں کے محکمہ ماحولیات کے پاس ہوا کا معیار ماپنے کے آلات بھی خاطر خواہ تعداد میں موجود نہیں ہیں اور جو موجود ہیں وہ طویل عرصے سے خراب پڑے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ ماحولیات کے نام پر قائم یہ محکمے عوام کے ٹیکسوں پر ایک اضافی اور غیر ضروری بوجھ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔
پاکستان میںغیر معمولی موسمیاتی تبدیلیوں کی ایک بڑی وجہ جنگلات کی مسلسل کٹائی ہے۔ جنگلات کی کثرت فضائی آلودگی کو کنٹرول میں رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے جبکہ ان کی کمی زمینی کٹاؤ اور لینڈ سلائڈنگ جیسے تباہ کن حالات کا سبب بنتی ہے۔ پاکستان کی سابق حکومت نے 2009ء میں ایک متنازع حکم نامے کے تحت شمالی علاقوں سے لکڑی کی نقل وحمل اور کٹائی کی اجازت دی تھی حالانکہ 1993ء سے ان علاقوں میں جنگلات کی کٹائی پر پابندی تھی ۔
یہ پابندی اٹھتے ہی تھوڑے سے عرصہ میں لاکھوں درخت کاٹ دیے گئے اور اس موقع سے لکڑی کے سمگلروں نے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ۔گو کہ نئی حکومت نے دوبارہ جنگلات کی کٹائی پر پابندی لگا دی ہے مگر جو درخت کاٹے جا چکے ان ؎کی جگہ پر نئی شجر کاری کا تاحال کوئی خاطر خوا ہ انتظام نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ شہروں میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی تعمیر بھی زوروں پر ہے جس کے نتیجے میں گرین بیلٹس میں برابر کمی آ رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ موٹر گاڑیوں اور کارخانوں سے نکلنے والا دھواں براہ راست شہریوں کی صحت پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعمیرات کی منصوبہ بندی میں قدرتی ماحول سے موافقت رکھنے والے امور کو مدنظر رکھا جائے۔ دوسری جانب پنجاب میں سال میں دو مرتبہ(موسم برسات اور بہار میں) شجر کاری مہم چلائی جاتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ صرف بعض شہری علاقوں میں فوٹوسیشن کی غرض سے پودے لگائے جاتے ہیں اور دیہاتی علاقوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ سالانہ بنیادوں پر کچھ اہداف مقرر کر کے ان کے حصول کو یقینی بنایا جائے۔
گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے معاملے میں پاکستان کا تقابل دیگر ممالک سے کیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان پوری دنیا میں موجود گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے محض ایک فی صد کا باعث بن رہا ہے جبکہ چین ، امریکا اور دوسرے یورپی ممالک دنیا میں موجود گرین ہاؤس گیسوں کے نصف کے ذمہ دار قرار دیے گئے ہیں۔
انٹر نیشنل انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر ’’نوبوٹاناکا‘‘ کا کہنا ہے کہ دنیا میں 2030ء تک توانائی کی مانگ میں مزید اضافہ ہو گا اور اگر اس مانگ کو بدستور قدرتی ایندھن(کوئلہ،گیس وغیرہ) سے پورا کیا جانے کا سلسلہ جاری رہا توماحولیاتی تبدیلیوں میں تیزی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ ایک امریکی ادارے ورلڈ واچ انسٹی ٹیوٹ نے چین اور بھارت میں ہونے والی صنعتی ترقی کو عالمی ماحول کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
پاکستان گزشتہ برس ہونے والے عالمی ماحولیاتی معاہدے کے علاوہ بھی کئی ایک ایسے معاہدوں کا حصہ ہے جن کا تعلق ماحولیاتی تبدیلیوں کے اسباب سے نمٹنے سے متعلق ہے۔ 2014ء میں پاکستان نے یورپی یونین کے ساتھ جو جی ایس پی پلس معاہدہ کیا۔ا س کی رو سے پاکستان 27بین الاقوامی معاہدوں پر عمل درآمد کرنے کا پابند ہے۔ ان میں سات معاہدوں کا تعلق ماحولیات سے ہے۔ پاکستان اگرمستقبل میں ان ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی سے اقدامات نہیں کرے گا تو اس کے یورپی یونین کے ساتھ تعلقات پر منفی اثر پڑ سکتا ہے جو کہ ظاہر ہے ملک کی معاشی ترقی کے لیے خطرے کی علامت ہے۔
سب سے بڑا موسمیاتی عجوبہ
کرہ ارض کے وسیع حصے پر بحر الکاہل پھیلا ہوا ہے۔ یہی عظیم سمندردنیا کے سب سے بڑے موسمیاتی عجوبے ’’ ال نینو‘‘ (EL NINO)کو بھی جنم دیتا ہے۔ جب بحرالکاہل کا پانی طویل عرصہ تک گرم رہے تو’’ ال نینو‘‘ پیدا ہوتا ہے اور پانی کے معمول سے زیادہ سرد ہوجانے کی صورت میں موسمیاتی اعجوبہ’’لانینا‘‘ سامنے آتا ہے۔
ال نینو انڈونیشیا سے کر امریکا تک ’’شمالی نصف کرّے‘‘ (Northern Hemisphere) کے کئی ممالک کو متاثر کرتا ہے جن میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں ۔ ان دونوں ممالک میں بارشیں برسانے والا نظام ’’مون سون‘‘ اس سے خاص طور پر متاثر ہوتا ہے۔ جب چھ یا آٹھ سال کے وقفے سے ال نینو جنم لے تو پاک بھارت میں معمول سے کم مون سونی بارشیں ہوتی ہیں۔ ال نینو اس اعتبار سے حیرت انگیز موسمیاتی عجوبہ ہے کہ یہ مختلف ممالک پر مختلف اثرات مرتب کرتا ہے۔
اس کی وجہ سے کہیں کم بارشیں ہوتی ہیں تو دوسرے ممالک میں زوردار بارش سیلاب لے آتی ہے۔ کہیں اس کی وجہ سے گرمی زیادہ پڑتی ہے تو کہیں سردی!اسی کے باعث قحط پیدا ہوتا ہے اور سمندری طوفان بھی!غرض ’’ال نینو‘‘ عارضی طور پر کئی ملکوں کا موسم درہم برہم کر دیتا ہے۔
خوش قسمتی سے’’ ال نینو‘‘طویل عرصے تک نہیں رہتا بلکہ ایک سال میں ختم ہو جاتا ہے لیکن جولائی 2014ء سے شروع ہونے ولا ال نینو فی الحال ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اس کی وجہ سے پچھلے ڈیڑھ برس میں کئی عجیب موسمیاتی مظاہر دیکھنے کو ملے۔ ماہرین موسمیات نے پچھلے پچاس برس کے اس طویل ترین ال نینو کو ’’گاڈزیلا‘‘(دیو ہیکل چھپکلی) کا نام دیا ہے۔
جنوبی ایشیا خصوصاً بھارت میں اسی ’’گاڈزیلا‘‘ کی وجہ سے پچھلے ڈیڑھ سال میں بہت کم بارشیں ہوئی ہیں اور وہاں کئی ریاستوں میں قحط کا عالم ہے۔ دیگر ممالک کو بھی طوفانوں ۔ شدید گرمی اور خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا اور برسوں پرانے موسمیاتی ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ کہا جا رہا ہے کہ ’’گاڈزیلا ‘‘ اس سال کے وسط تک ختم ہو جائے گا۔ گویا جاری برس میں بھارت اور پاکستان میں زیادہ بارشیں ہونے کا امکان ہے۔ جب بحر الکاہل میں ’’لا نینا‘‘ جنم لے ،تب بھی جنوبی ایشیا میں زیادہ مون سونی بارشیں ہوتی ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے نقصانات سے بچنے کے لئے ایکشن پلان پر کام کیا جا رہا ہے: منسٹری آف کلائمیٹ چینج
پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق وزارت(منسٹری آف کلائمیٹ چینج) کی جانب سے موصول ہونے والی معلومات میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے 22.8فی صد رقبے اور 49.6فی صد آبادی کے ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ماضی میں انہی ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ملک کو سیلابوں کی صورت میں بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔
2010ء میں 10.06بلین ،2011ء میں 3.07بلین جبکہ 2012ء میں 1.87بلین کا مجموعی خسارہ ملک نے اٹھایا۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وزارت کے ڈپٹی سیکرٹری سجاد یلدرم نے بتایا کہ انہوں نے پاکستان میں کلائمیٹ چینج کا سبب بننے والی گیسوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک پالیسی ترتیب دی ہے۔اس سلسلے میں اپریل 2015ء میں اس پالیسی پر عملدرآمد کے سلسلے میں ایک میٹنگ بھی بلائی گئی تھی جس کے فیصلوں کے تحت صوبائی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو روکنے کی پالیسی پر عمل درآمد کی کمیٹیاں اور پلاننگ اور ڈیویلپمنٹ کے محکموں کے تحت کلائمیٹ چینج یونٹس بنائے گئے ہیں۔ ڈپٹی سیکرٹری کا کہنا ہے صوبے مختلف دورانیوں پر مشتمل پراجیکٹس کے لیے ایکشن پلان پر کام کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان میں توانائی کے متبادل ذرائع اپنانے کے سلسلے میں بھی غیرملکی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کیا جارہا ہے۔ پاکستان نے سیکنڈ نیشنل کمیونیکیشن (SNC) پراسس بھی شروع کیا ہے جس کے تحت ان معاشی و تکنیکی امکانات کے بارے میں ضروری معلومات اکھٹی کی جائیںگی جن کے تحت ماحول کو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے پاک کرنے کے لیے مرتب کیے گئے ماسٹر پلان پر عمل درآمد ممکن ہو سکے گا۔
پاکستان کو 10 سالوں میں گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں 30فی صد کمی لانا ہوگی
فروری 2005 ء میں چین میں 160سے زائد ممالک کے مابین طے پانے والے ’’کیوٹو پروٹوکول‘‘ کے تحت 2012ء تک صنعتی ملکوں کو گرین ہاوس گیسوں کااخراج 5.2 فی صد کم کرنا تھا۔ بدقسمتی سے یہ ہدف پورا نہ ہو سکا ۔
اس کے بعد دسمبر2015ء میں پیرس میں عالمی ماحولیاتی مسائل پر ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک نے شرکت کی اور آئندہ برسوں میں عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والی گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں کمی پر اتفاق کیا۔ پاکستان نے اس موقع پر عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ 2025ء تک گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں 30فی صد تک کمی لانے کے لیے اقدامات کرے گا۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں دنیا کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہوگا: تحقیق
’’دی لینسیٹ ‘‘نامی ریسرچ جرنل میں شائع ہونے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق تیزی سے ہوتی ان ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والی شدید غذائی کمی کے سبب 2050ء میں 5 لاکھ لوگ موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔
تحقیق کے مطابق ان میں سے تین چوتھائی افراد کا تعلق چین اور بھارت سے ہو گاجبکہ کوریا،ماڈاگاسکر،یونان،ویت نام ،اٹلی ،رومانیہ ،البانیہ اور میانمار بھی اس فہرست کا حصہ ہیں ۔ تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر مسلسل بڑھتی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کنٹرول نہ کیا گیا تو سن 2050ء تک فی شخص خوراک میں3.2فیصد کمی آ سکتی ہے جس کا مطلب ایک دن میں 99کیلوریز کی کمی ہے۔
ماحولیاتی آلودگی سے مجموعی طور پر انسانی صلاحیتیں متاثر ہو رہی ہیں: پروفیسر ڈاکٹر رضوان مسعود
معروف ماہر طب پروفیسر ڈاکٹر رضوان مسعود بٹ نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اسباب اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کے حوالے سے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ ماحولیاتی تبدیلی کی بڑی وجہ تیزی سے سبزے کا خاتمہ اور پختہ تعمیرات ہیں۔ پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی ایک سنگین صورت اختیار کرتی جا رہی ہے، لیکن ہم اس پر وہ توجہ دینے کو تیار نہیں، جس کی یہ متقاضی ہے۔ اور یہ صورت حال اسی طرح جاری رہی تو مستقبل میں درجہ حرارت مزید بڑھے گا، سمندروں کے پانی میں اضافہ ہو گا، جو شہروں میں تباہی لا سکتا ہے۔ آپ ابھی بھی دیکھ لیں جن علاقوں میں درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، وہاں ہلاکتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔
ماحولیاتی آلودگی انسان کی صحت کو ہر اعتبار سے متاثر کر رہی ہے، اس کی وجہ سے سانس، جلد، پیٹ کی بیماریوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے باعث بیماریوں میں سب سے خطرناک اضافہ دماغی امراض ہیں، آکسیجن کی کمی کے باعث انسانی دماغ سکڑتا ہے اور آکسیجن کی کمی آلودگی میں اضافہ کے باعث پیدا ہوتی ہے۔
ماحولیاتی آلودگی انسانی صحت کے لئے اس قدر زہریلی ہے کہ اس کی وجہ سے جسم کا کوئی ایسا عضو نہیں جو متاثر نہ ہو رہا ہے، حتی کہ انسانی گردے، پھیپھڑے اور بینائی تک متاثر ہو رہی ہے، انسانی صلاحیتیں مجموعی طور پر متاثر ہو رہی ہیں۔ ڈاکٹر رضوان مسعود بٹ کا مزید کہنا تھا کہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ سے جہاں انسانی صحت کو سنگین خطرات لاحق ہیں وہاں اس کی وجہ سے خوراک کی کمی کا مسئلہ بھی سر اٹھا رہا ہے۔
آلودگی کے باعث نہ صرف اجناس کی پیدوار میں کمی واقع ہو رہی ہے بلکہ ان کی غذائیت بھی کم ہو رہی ہے۔ لہذا ہمیں اس مسئلہ کو اہمیت دینا ہوگی، ہمیں غیر ضروری پختہ تعمیرات کو روکنے کے ساتھ سبزے میں اضافہ کرنا ہے اور جہاں کہیں عمارت بنانا ناگزیر ہو وہاں عمارت کے اندر اور باہر سبزے کا خصوصی طور پر اہتمام کیا جائے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں آگاہی مہمات کا آغاز کیا جائے، جو تسلسل کے ساتھ جاری رہنی چاہئیں۔
بشکریہ ایکسپریس سنڈے میگزین