سپیریئر یونی ورسٹی ایک سال بعد بھی ایم فل کے طلبا کو امتحانی نتائج نہ بتا سکی

سپیریئر یونی ورسٹی کا ایک اور سکینڈل منظر عام پر آ گیا ۔ذرائع کے مطابق یونی ورسٹی کا نام تو سپیرئر ہے لیکن انتظامی حالت یہ ہے کہ ماس کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ میں ایم فل کے طلبا و طالبات کو ایک سال سے زیادہ مدت گزر جانے کے بعد بھی یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انہوں نے سال قبل جس سمیسٹر کا امتحان دیا تھا اس مین وہ پاس ہیں یا فیل ؟ تفصیلی مارکس شیٹ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

ذرائع کے مطابق ایم فل کے بعض طلبا تیسرے سمیسٹر کے بعد شروع ہونے والے تھیسسز بھی مکمل کر چکے ہیں اور ان کا وائیوا بھی ہو چکا ہے ۔ دیگر الفاط میں اصولی طور پر طلبا و طالبات کی ایم فل کی ڈگری مکمل ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود انہیں اب تک یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کورس ورک میں پاس ہو چکے ہیں یا نہیں ۔

یہاں یونی ورسٹی انتظامیہ کی غفلت اور نااہلی کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ اب اس مرحلے پر اگر یونی ورسٹی کسی طالب علم کو کورس ورک میں فیل کرتی ہے تو اس کے بعد کے ایک سال کی مدت ضائع ہونے کی ذمہ داری کون قبول کرے گا؟ اسی طرح اگر کوئی طالب علم فیل ہوتا ہے تو تکنیکی بنیادوں پر سوال اٹھے گا کہ اسے کورس ورک مکمل کرنے سے پہلے ہی ریسرچ ورک میں کیسے بھیج دیا گیا؟ یاد رہے کہ تمام طلبا ریسرچ ورک میں مصروف ہیں اور ان کے تحقیقی مقالہ کے نگران بھی فائنل ہیں ۔

ان میں سے کچھ طلبا و طالبات تو تھیسسز مکمل کر کے وائیوا بھی دے چکے ہیں جبکہ کچھ کے تھیسسز آخری مراحل میں ہیں ۔ اس سے طاہر ہوتا ہے کہ اب ان تمام طلبا کو پاس ہی کیا جائے گا ورنہ ایک نیا پنڈورا باکس کھل جائے گا۔ بعض زرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ مبینہ طور پر امتحانی و انتظامی عملہ سے طلبا و طالبات کی کچھ اسائنمنٹ اور پیپرز گم ہو گئے تھے جس کی وجہ سے نتائج کا اعلان ایک سال بعد بھی نہ کیا جا سکتا اوراب جو رزلٹ تیار کیا گیا وہ گذشتہ دو سمسٹر کے نتائج کی بنیاد پر تیار کیا گیاہے۔ دیگر الفاظ میں اگر کسی طالب علم نے پہلے اچھے نمبر لئے تھے اور تیسرے سمسٹر میں محنت نہیں کی تو اب اسے تیسرے سمیسٹر میں بھی اچھی گریڈنگ مل جائے گی جبکہ جنہوں نے پہلے سے زیادہ محنت کی ان کی گریڈنگ پر اس محنت کا اثر نظر نہیں آئے گا ۔

اس سلسلے میں طلبا و طالبات کا کہنا تھا کہ انہین یہی معلوم نہیں کہ وہ اپنا رزلٹ کس سے طلب کریں ۔ انتظامیہ کی جانب سے ایم فل کے جو کوآرڈینیٹر مقرر کئے گئے تھے وہ بھی اس سلسلے میں بے بس نظر آتے ہیں اور ایک سال بعد بھی وعدوں پر ٹال رہے ہیں ۔ طلبا و طالبات امتحانی عملہ کے عتیق اور شکیل کے درمیان شٹل کاک بن چکے ہیں ۔

طلبا کا کہنا تھا کہ کوارڈینیٹر کا کہنا ہے رزلٹ بھیجا جا چکا ہے اور اس سلسلے میں عتیق صاحب سے رابطہ کیا جائے ۔ دوسری جانب عتیق کا کہنا ہے کہ سسٹم میں رزلٹ ہی موجود نہیں لہذا امتحانی عملہ کے ہیڈ شکیل صاحب سے بات کی جائے جبکہ شکیل صاحب طلبا کے منہ سے رزلٹ کا سنتے ہی فورا کہہ دیتے ہیں کہ میں بہت مصروف ہوں ۔ یا تو کوآرڈینیٹر سے زبانی رزلٹ معلوم کر کے تسلی کر لیں یا عتیق صاحب سے ہی معاملات طے کریں ۔ میرے پاس اس مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔

جب تک رزلٹ یونی ورسٹی میں آویزاں نہیں ہو گا تب تک پرنٹ میں نہیں دیا جا سکتا ۔ طلبا کی جانب سے اس بات پر احتجاج کیا جا رہا ہے کہ یونی ورسٹی کی فیس اگر ایک دن بھی لیٹ ہو جائے تو انتظامیہ ہر روز کے حساب سے جرمانے کے ساتھ فیس وصول کرتی رہی ہے ۔ اسی طرح ہزاروں روپے ایسی فیس کی مد میں بھی وصول کی جاتی رہی ہے جس کا ذکر پراسپیکٹس اور فیس شیڈول میں نہیں تھا ۔

امتحانات کی مد میں بھی ہزاروں روپے الگ سے وصول کئے جاتے رہے ہیں لیکن ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود طلبا کو نتائج سے آگاہ نہ کرنے کی ذمہ داری کوئی بھی قبول کرنے پر آمادہ نہیں ۔ طلبا کا کہنا ہے انہیں یہ بھی علم نہیں کہ ان مسائل کے حل کے لئے کس سے رابطہ کریں کیونکہ کوآرڈینیٹر سے لے کر امتحانی عملہ کے انچارج شکیل تک کوئی بھی یہ مسئلہ حل کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہا ۔ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ فیس میں ایک دن کی بھی تاخیر برداشت نہ کرنے والی انتظامیہ کیا ایک سال تک نتائج جاری نہ ہونے سے طلبا کے نقصانات کا ازالہ کرنے اور ذمہ داران کے خلاف ایکشن لینے میں دلچسپی لے گی ؟

یاد رہے کہ رزلٹ کو علم نہ ہونے کی وجہ سے طلبا و طالبات نہ تو اسکالر شپس کے لئے اپلائی کر پا رہے ہیں اور نہ ہی ملازمت کے لئے ان کا یہ دعوی قبول کیا جا رہا ہے کہ وہ کورس ورک مکمل کر چکے ہیں ۔ طلبا کو’’بی سپیریئر ‘‘ کا نعرہ لگا کر اشتہارات سے متاثر کروانے والی سپیریئر یونی ورسٹی کے ماس کمونی کیشن ڈیپارٹمنٹ کے بارے میں یہ بھی علم ہوا ہے کہ وہاں ایم فل کے لئے یونی ورسٹی کا اپنا پی ایچ ڈی ماس کمیونی کیشن ڈگری کا حامل سٹاف ہی نہیں ہے ۔

ایم فل کو پڑھانے کے لیے حال ہی میں ایم فل کی ڈگری لینے والے دو تین افراد پر مشتمل سٹاف ہے جبکہ کام چلانے کے لئے دیگر تعلیمی اداروں کے ٹیچنگ سٹاف کو عارضی طور پر بلایا جاتا ہے، ان میں بھی زیادہ تر ایم فل ہی ہوتے ہیں ۔ اس طرح ایچ ای سی کے متعین قوائد کی بھی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور طلبا کے مستقبل کو داؤ پر لگایا جا رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے