2008 کی ایک صبحِ بہار کو 9 بج کر 22 منٹ پر مجھے لاہور سے محبت ہوگئی۔ مجھے یہ لمحہ اس لیے یاد ہے کیونکہ اسی وقت شہرِ لاہور کے مرکز میں ہونے والے خودکش حملے نے ہاسٹل میں میرے کمرے کی کھڑکیاں ہلا کر رکھ دی تھیں۔
مجھے نہ لاہور کی خوبصورتی سے محبت ہوئی، نہ اس کے سحر سے۔ بلکہ ایک خوف کی وجہ سے، اسے کھو دینے کے خوف کی وجہ سے، ایک ایسا انسانی خوف، جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
ایک بھیانک چیز آہستہ آہستہ وقوع پذیر ہو رہی تھی، جس سے میرا ساتھ نبھانے والے شہر کو خطرہ تھا۔
مجھے اس چیز سے کافی بے چینی محسوس ہوئی۔ میں سوچا کرتا تھا کہ "یہ وقت بھی گزر جائے گا۔” میں غلط تھا۔ تب سے لے کر اب تک کچھ بھی نہیں گزرا ہے؛ نہ ہی کشت و خون، اور نہ ہی لاہور کے لیے میرا عشق۔ یہ دونوں چیزیں مل کر آج ایک سانحے کا روپ دھار چکی ہیں۔
لاہور کے گلشنِ اقبال پارک میں ہونے والے دھماکے نے میرے سامنے ایک ایسا چبھتا ہوا سوال رکھا ہے، جس کا جواب میری سمجھ سے باہر ہے: آخر میرا ردِعمل کیا ہونا چاہیے؟ کیا مجھے نوحہ لکھنا چاہیے؟
اس سوال نے مجھے تھیوڈور اڈورنو کے روبرو لا کھڑا کیا، جنہوں نے جنگِ عظیم دوئم کے کچھ ہی عرصے بعد لکھا تھا:
آشویٹز کے بعد اشعار لکھنا بربریت ہے
پر پاکستان میں لافانی ہوجانے والے اداسی کے اظہار کے لیے اگر الفاظ کا سہارا نہ لیا جائے، تو کیا کیا جائے؟
اگر اب کسی چیز سے تسلی محسوس نہیں ہوتی، تو کیا ہم صرف یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم اداس ہیں؟ کیا کبھی کبھی اداسی بذاتِ خود سب سے اہم اور باوزن چیز نہیں ہوتی؟ کیا ہم لاہور کے لوگ اس چیز کے عادی نہیں ہوگئے؟
ہر شہر کا دل ہوتا ہے۔ ہر شہر کی اپنی یادیں ہوتی ہیں۔ یہ یادیں ہی ہوتی ہیں جو شہر کی پہچان بنتی ہیں، یہ شہر کا دل ہوتا ہے جو اسے زندہ رکھتا ہے۔
لاہور کی تاریخ سانحات سے بھرپور ہے۔ کس شہر نے خونی تقسیم کے زخم اور بدنما داغ لاہور سے زیادہ جھیلے ہیں؟
یہ لاہور ہی ہے جہاں سعادت حسن منٹو نے تقسیم میں بہنے والے خون میں ڈبو کر الفاظ لکھے تھے۔
یہ لاہور ہی ہے جہاں انتظار حسین نے متحدہ ہندوستان سے وابستہ پچھلی نسلوں کی یادوں کو آواز فراہم کی تھی۔
یہ لاہور ہی ہے جہاں مصنفین و شعراء نے اس انسانی المیے کا نوحہ لکھا، جس نے ایک پوری نسل کو زخمی کر کے رکھ دیا تھا۔
لاہور کی یادیں تکلیف اور کرب سے لکھی گئی تھیں، اور شہر نے اسے لاثانی برداشت سے قبول کیا، مگر لاہور کا دل ہمیشہ زندگی اور امید سے بھرپور رہا ہے۔
یہ لاہور ہی ہے جہاں بھگت سنگھ ایک آزاد مستقبل کے لیے مسکراتے ہوئے پھانسی کو اپنے گلے لگایا۔
یہ لاہور ہی ہے جہاں حسن ناصر نے ایک منصفانہ معاشرے کی امید میں بدترین تشدد برداشت کیا۔
یہ لاہور ہی ہے جہاں نوجوانوں نے انقلاب کا خواب دیکھا اور سوشلزم کے تصورات کو اپنایا۔
یہ لاہور ہی ہے جہاں حبیب جالب نے ضیاء کی ظالمانہ آمریت میں جاری ہونے والے حدود آرڈیننس کے خلاف خواتین کے شانہ بشانہ مارچ کیا۔
لاہور کا دل ہمیشہ امید اور سیاسی مزاحمت کا مرکز رہا ہے، مگر اب لاہور میں بالخصوص اور پاکستان میں بالعموم ایک نئے قسم کی یادیں جنم لے رہی ہیں۔
تقسیم کے بعد اب پاکستان میں جو تیسری نسل بڑی ہو رہی ہے، اس کی بھی یادوں میں اتنا ہی کشت و خون ہے — ایسا کشت و خون جسے اب ایک نظریاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
اور جب تشدد یہ روپ اختیار کر لے، تو یہ تب سب سے زیادہ ہلاکت خیز ہوتا ہے۔ یہ بچوں کو کلاس رومز میں اور جھولوں میں ذرہ برابر افسوس کے بغیر بھی مار ڈالتا ہے۔
لاہور کا دل اب بھی اس کشت و خون کے خلاف مزاحم ہے؛ لوگوں کو خون عطیہ کرنے کے لیے ہسپتالوں کی جانب بھاگتے دیکھنا اس چیز کا ثبوت ہے۔
اور اس بزدلانہ حملے کو اس سے زیادہ سخت جواب کوئی نہیں ہو سکتا کہ کئی مسلمانوں کا خون ان مسیحیوں کی رگوں میں دوڑے گا، جو کہ لاہور میں ہونے والے خود کش حملے کا بنیادی ہدف تھے۔
مگر دل کو اس وقت وہ جنگ لڑنی ہے، جو اس نے پہلے کبھی نہیں لڑی — یہ وہ جنگ ہے جسے مذہبی انتہاپسندی کے خلاف لڑا جانا ہے کیونکہ کشت و خون کی ایک نئی لہر اب جڑ پکڑ رہی ہے، اور ہمارا دشمن ایک تصور بھی ہے اور اس تصور پر عمل کرنے والے انسان بھی۔
یہ وہ جنگ ہے جو یا صرف جیتی جا سکتی ہے، یا ہاری جا سکتی ہے۔ جب تک پشاور میں اسکول محفوظ نہیں ہوں گے، تب تک لاہور کے پارک محفوظ نہیں ہو سکتے۔
اور اگر لاہور کے لیے دعاؤں اور نوحے کی بات آئے، تو شعیب بن عزیز نے اسے اپنے ایک لازوال شعر میں کہہ ڈالا ہے
میرے لاہور پر بھی اک نظر ہو
تیرا مکہ رہے آباد مولا
[pullquote]لکھاری سوئیڈن میں انجینیئرنگ پڑھ رہے ہیں، اور معاشرے، کلچر، اور سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔[/pullquote]