خواتین کا جسم،،،ایک اجتماعی ملکیت

آج کل حنا کا دمکتا چہرہ دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے خوشگوارترین لمحات گزار رہی ہے اور اس کے وجود میں یہ رونق کیوں نہ ہو،جب اس کا رشتہ من چاہی جگہ ہوا ہے۔رشتہ طے ہونے سے حنا کے چہرے پر دمکتے رنگ اس کی خوشیوں اور آنے والے مستقبل کے سنہرے خوابوں کی عکاسی کر رہے تھے ۔ اس لحاظ سے وہ خود کو خوش قسمت لڑکیوں میں شمار کر رہی تھی جو غلط بھی نہ تھا۔ لیکن ان سارے دھنک رنگوں میں بھنگ اس وقت پڑی جب کچھ عرصے بعد حنا کے سسرال اور منگیتر کی طرف سے یہ فرمائش کی جانے لگی کےشادی سے پہلے جلد از جلد وہ اپنی ناک چھیدوا لے کیونکہ یہ اس کےسسرال کی ریت ہے۔خاندانی رسم و رواج کی اقدار پر سختی سے عمل حنا کے سسرال کی پائدار روایت ٹہری ۔ جسے حنا نے نبھانا تھا ۔ لیکن حنا کو ناک چھیدوانا اور اس میں کچھ پہننا سخت ناپسند ہے ۔اس کی آہ و زاری، احتجاج ، یہاں تک کہ آنسو بھی رائگاں گئے جب اپنے منگیتر اور ساس کی دھمکی آمیز ناراضگی سے اسکا سامنا ہوا۔اور یوں نہ چاہتے ہوئے بھی حنا نے ہونے والے شوہر کی ضدپر اپنی ناک میں ایک لامعنی اور ناپسندیدہ چھید کروا لیا۔

حنا کا جسم ، اسکی باڈی پر اسکا اختیار اسکے رشتے کے ساتھ ہی ختم ہو گیا تھا اب اس کے جسم میں اس کی ساس ۔۔اس کے خاوند ۔۔۔اس کے سانجھی اور شراکت دار تھے ۔ گویا ایک خاتون کا جسم اب ایک اجتماعی ملکیت تھا ۔

اب ایک ڈاکٹر کی زبانی بھی ایک واقعہ پر غور کیجیے۔۔۔۔زچہ بچہ وارڈکی ہر صبح یکساں ہوتی ہیں،بستروں کو درست کرنا، خواتین کو نومولود کی دیکھ بھال کی تربیت دینا اور اس وارڈ کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ وارڈ پر امید ماؤں اور ان کے نومولود بچوں سے بھرا ہوتا ہے۔جہاں زندگی ہنستی مسکراتی ملتی ہے۔ایک ایسی ہی صبح جو دوسرے عام دنوں کی طرح تھی ۔۔۔۔،میری نظر ایک عورت پر پڑی جو واضح طور پر پریشان نظر آرہی تھی۔وہ مجھے اپنے پاس بلانے کے اشارے کر رہی تھی اور جب میں اس کے پاس گئی وہ مجھے اپنی بچی تھماتے ہوئے کہنے لگی ” لو،اس بچی کو کھڑکی سے باہر پھینک دو۔” میں نے سوچا کہ شاید میں اس کی بات صحیح سمجھ نہیں پائی۔ "کیا؟”
"باہر پھینک دو اسے کھڑکی سے ،یہ میری زندگی تباہ کر رہی ہے۔”

مزید معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ہماری مریضہ کنول ،جسکی پہلے ہی ایک سال کی بیٹی ہے،اسکے شوہر نے اسے اپنی ماں کے گھر چلے جانے کا کہہ دیا ہے کیونکہ اس نے ایک اوربچی کو جنم دیا ہے۔ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود کنول کی صحت بہت خراب تھی اس میں خون کی شدید کمی تھی اور دونوں بیٹیوں کی پیدائش میں وقفہ نا ہونے کی وجہ سے وہ بہت کمزور ہو رہی تھی۔ اس نے مجھ سے منصوبہ بندی کے وہ طریقے بھی پوچھے جو باآسانی چھپائے جا سکتے ہوں کیونکہ غصہ اترنے کے بعد اسکا شوہر پہلے ہی خبردار کر چکا تھا کہ اسکو اس وقت تک بار بار بچوں کو جنم دینا ہے جب تک کہ وہ اپنے شوہر کو ایک بیٹا نہیں دے دیتی۔ کنول کی بیٹی اپنی خواہش اور مرضی سے نہ پیدا ہوئی نہ اس خاندان کا حصہ بنی ۔۔۔مگر ماں باپ کے پیچیدہ اور کشیدہ تعلقات کی بنا پر یہ پہلے ہی غیر مطلوب اور منحوس سمجھ لی گئی ہے۔ کنول کو اپنے جسم پر یہ بھی اختیار نہ رہا کہ اسے اس لاغر اور کمزور جسم سے کتنے بچے پیدا کرنے ہیں ۔ یہ اختیار گویا اب اسکے خاوند کو منتقل ہو گیا تھا ۔

ایک اور دن ، ایمرجنسی وارڈ میں ایک عورت داخل ہوئی اور اپنے معائنے اور الٹرا ساؤنڈ کے متعلق معلومات لیں۔وہ روہانسی اور گھبرائی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔جب اس سے مسئلہ پوچھا گیا تواس پر نجمہ نے بتایا "کل رات میرے شوہر نےزبردستی اسقاطِ حمل کی گولی کھلا دی ہے، یہ میرا تیسرا حمل ہے اور میرے شوہر کا کہنا ہے کہ ہم اس بچے کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ میں بس یہ تسلی کرنا چاہتی ہوں کہ اس دوا کا اثر نہ ہوا ہو اور میرا بچہ بخیریت ہے کہ نہیں۔”

نجمہ کے مادر رحم میں حمل ٹہرے گا یا اس کے جسم کو اسقاط حمل کرانا ہوگا ۔ اسکا اختیار اب نجمہ کے ھاتھ سے نکل کر اسکے شراکت دار خاوند کے کے ہاتھ میں چلا گیا تھا ۔ اور میں سوچنے لگی کہ حنا ، کنول اور نجمہ نے شادی کچھ فطری تقاضوں کو پوار کرنے کیلئے کی تھی ۔ لیکن نکاح کے بعد اسکے جسم کی ملکیت میں دوسروں کو شراکت داری کا نکاح سے تو کوئی تعلق نہیں تھا ۔ اور اپنے جسم سے اس کا اختیار ختم ہونے کی تو کوئی شق نکاح نامے میں شامل نہ تھی ۔ نہ کبھی دین اور اسلام میں جسم کی شراکت داری کبھی بتائی گئی تھی ۔

حنا، کنول اور نجمہ تو بس کچھ مثالیں ہیں، ہمارا معاشرہ اس طرح کی ان گنت مثالوں سے بھرا ہوا ہے ۔ پاکستان اور دنیا اس طرح کی عورتیں سے بھری پڑی ہے ۔جنھیں گو یا ایک بے جان برتن کی مانند برتا جاتا ہےکہ اس برتن میں کیا رکھنا ہے، اس کو کیسے استعمال کرنا ہے اور اس کو ضرورت کے حساب سے برتنا ہے۔ان کے جسم سے متعلق اکثر فیصلے ان کی مرضی کے خلاف لیے جاتے ہیں ۔کنول کی کہانی میں قدرت نے جو بھی فیصلہ لیا۔۔۔ کیا اسے ویسے ہی خوش دلی کے ساتھ قبول نہیں کرنا چاہیے تھا؟؟ کیا ان والدین میں احساسِ تشکر پیدا نہیں ہونا چاہئے تھا بے اولاد افراد کو دیکھ کر؟؟اس طرزِ عمل سے ان جیسی خواتین ذہنی اور جسمانی اذیتوں سے گزرتی ہیں۔وہ عورتیں جنھیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اب ایک اور بچہ ان کی اپنی زندگی کے لیے خطرہ ہے،مگر بیٹے کو پانے کی آرزو اور شوہر کوخوش رکھنے کی خواہش میں وہ اس خطرے کو مول لیتی ہیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ تولیدی صحت میں یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔پاکستان کے زیادہ تر ہسپتالوں میں اگر کسی عورت کے لیے ایمرجنسی میں سیزر کا فیصلہ لینا ہو تو ایسی صورت میں اس عورت کے بجائے اسکے خاوند کی مرضی معلوم کی جاتی ہے۔ پڑھے لکھے ڈاکٹر خاتون مریض کے بجائے اس کے خاوند کو یہ حق دیتے ہیں کہ اس خاتون کے جسم کو کاٹا جائے یا نہیں ؟ ۔۔۔۔ لیکن افسوس کہ جس کا جسم ہے اسے اپنے جسم پہ اتنا بھی حق نہیں دیا جاتا ۔۔ اور اس سے اپنے جسم پر حاصل اختیارات تک چھین لئے جاتے ہیں ۔ یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ اگر خاوند کی مرضی معلوم نہ کی جائے تو اس کے برے نتائج بھی عورت کو ہی بھگتنا پڑتے ہیں۔ہم نے کئی بار ایسا بھی دیکھا ہے کہ جب زچہ وبچہ دونوں کی جان کو خطرے سے بچانے کے لیے سیزر ضروری ہو ،اس وقت بھی خاوند سرجری کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اس صورت میں اسکی بیوی جلد کام کاج کے لائق نہیں ہو سکے گی یا یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ جب ہر عورت نارمل ڈلیوری کر سکتی ہے تو یہ کیوں نہیں کر سکتی۔” اکثر عورتیں خون بہنے کی زیادتی کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتی ہیں لیکن ان کا خاوند یا ساس آپریشن کی اجازت یہ سوچ کر نہیں دیتے ہیں کہ عورت محض ڈرامہ کر رہی ہے۔ انہیں اپنے ان خیالات پر اس قدر یقین ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کی واضح ہدایات بھی ان کے لئے قابلِ قبول نہیں ہوتیں ۔

ماں باپ کی گھنی چھاؤں میں رہتے ہوئے بھی ایک صنفِ نازک کو اکثر اسی قسم کے حالات سے گزرنا پڑتا ہے، جہاں ہر رشتہ دیکھنے آنے والوں کے سامنے اسے ایک شو پیس کی طرح پیش کر دیا جاتا ہے چاہے اس کے لیے لڑکی ذہنی طور پر راضی و مطمئن ہو یا نہ ہو۔یہ ایک رسم ہے جو اسے اپنے وجود کو اذیت دے کرپوری کرنی پڑتی ہے۔

عورت کے جسم کی ملکیت میں شراکت داری ہر جگہ ، ہر گھر اور روز مرہ کا معمول ہے ۔۔۔جیسے مرد یہ بتاتا ہے کہ اسے کیا پہننا ہے اور کیا نہیں، کیا جاہل گنوار اور کیا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ۔۔۔ہر جگہ لڑکیوں سے کہا جاتا ہے کہ "ابھی اپنی پسند کے کپڑے پہنو ، شادی کے بعد تو شوہر ہی کی پسند کے کپڑے پہننے ہیں”۔اسی طرح اگر کسی مرد کو مہندی یا میک اپ ناپسند ہو تو عورت کےلاکھ چاہنے کے باوجود پابندی لگا دی جاتی ہے،کبھی سختی سے تو کبھی پیار محبت کے بہلاوے دے کر۔

اس کے علاوہ جنسی تشدد، زبردستی کی ہم بستری، زبردستی کے اسقاطِ حمل اور اعضاء کا عطیہ کرنا ، جیسے خوفناک عمل بھی مرد کی خواہش پر معمول ہوتے ہیں۔ہاں یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ جب عورت آپے سے باہر ہو رہی ہو اور خود پر قابو نہ رکھ پا رہی ہو تو ایسے میں ماں باپ،بھائی،خاوند پر فرض ہے کہ وہ لباس اور دوسرے معاملات میں روک ٹوک کریں مگرعورت کے جسم و جاں کو اپنی ملکیت شمار نہ کر لیں۔اسکو اپنی بے جا اور نقصان دہ خواہشوں کی زنجیروں میں جکڑنا کہاں کا انصاف ہے؟

اسی سال ایک نو سالہ پاکستانی بچی ایک موسیقی کے مقابلے کے شو میں شریک ہوئی جہاں اس کے مداح کی خواہش پر اسکی مرضی کے بغیر اسکا وزن کیا گیا۔ اور اسے باقاعدہ مائک پر نشر بھی کیا گیا، اس کے بعد مرد جج نے اس کے وزن کا مذاق بھی اڑایا کہ شاید اس وزن میں ایک صفر کم ہے۔۔۔۔۔۔جس پرہر کوئی ایسے ہنسا اور مطمئن دکھائی دیا جیسے یہ قابلِ قبول عمل ہو۔

یہ بات بہت ہی عجیب سی لگتی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو سکھائیں کہ انکا جسم صرف ان کا ہے۔ چھوٹے بچوں اور نوجوان لڑکوں کے سامنے محتا ط الفاظ میں پرسنل اسپیس کے متعلق سمجھائیں ، اپنی بچیوں سے نکاح نامے پر ان کے دستخط لینے سے پہلے ان کی رضا مندی لیں،کسی کے وزن پر اور کسی کی خاندانی منصوبہ بندی پر رائے زنی سے خود کو روکے رکھیں۔۔مگر یہ سارےوہ امور ہیں جن پر ہمیں ضرور سوچنا اور عمل کرنا چاہیےتاکہ خواتین کنول، حنا اور نجمہ کی طرح اپنی شخصیتیں نہ کھو دیں اور ادھوری شخصیت کی حامل نسلیں نہ تیار ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے