سن 2009 یا دس کی بات ہے کہ میں لاہور کے فیکٹری ایریا میں ایک پرکشش عہدے پر جاب کرتا تھا جمعے کے لیے میری خواہش ہوتی تھی کہ اہلحدیث کی کوئی مسجد مل جائے پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ قریبی مسجد نشتر کالونی میں واقع ہے میں وہاں پر گیا تو معلوم ہوا ایک نابینا عالم خطبہ جمعہ دیتے ہیں اور انکی اچھی بات یہ تھی کہ وہ گا کر نہیں پڑھتے لاہور کے اکثر نواحی علاقوں میں ایک عجیب سی طرز پر خطبہ جمعہ پڑھا جاتا ہے جو کے ہم شہر میں رہنے والوں کے لیے خاص طور پر جو زرا علمی ماحول میں بیٹھ گئے ہوں انکے لیے کافی الجھن آمیز ہوتا ہے لیکن دیہاتی لوگ اس پر جھومتے پائے گئے ہیں ، بہرحال قصہ مختصر میں نے جمعے کے لیے وہاں پر جانا شروع کردیا اور بعد میں انکی صحبت سے بھی فیض یاب ہوتا شیخ بہت اچھی طرح عقیدہ و سلوک کو بیان کرتے ، ایکدن مسجد میں ہڑبونگ مچ گئی نماز جمعہ تک فوت ہوگئی نمازی خوفزدہ ہوکر باہر نکل آئے میں وہاں پہنچا ہی تھا کہ یہ سب کچھ دیکھا دریافت کرنے پر علم ہوا کہ لشکر طیبہ والے مسجد پر قبضہ کرنے آگئے ہیں اور اسلحہ ساتھ لائے ہیں اور ان نابینا عالم کو خطاب سے روک دیا ہے
میں رنجیدہ و کبیدہ خاظر ہوکر واپس چلا آیا ، شائد توحید کا علم تبھی بلند ہوتا ہو جب کے ہر مسجد پر ایک ہی جماعت کا قبضہ ہوجائے ، وہ جو اسلام کو سب سے بڑا حریت والا مذہب سمجھتے ہیں خود کسی بھی قسم کی حریت پسندی کی اجازت دینے کو تیار نہیں یا تو لال مسجد بنا دی جاتی ہے یا قبضہ کرلیا جاتا ہے
فیض اللہ خان کی اس مسئلے سے متعلقہ ایک پوسٹ پڑھنے کے بعد یہ واقع ذہن میں آگیا ایک گواہی کے طور پر شئیر کرنا مناسب سمجھا