زارا قاضی
اسلام آباد
کسی دور میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ برصغیر پاک و ہند کے لوگوں میں روایات کی پاسداری اور احترام ترقی یافتہ اقوام کی نسبت زیادہ ہے. مروت، شائستگی، رکھ رکھاؤ اور اپنی روایات سے محبت جیسے اوصاف برصغیر کے لوگوں کا خاصہ تھے لیکن نئی نسل اب ان روایات کو پرانے لوگوں کے قصے سمجھ کر ان سے جان چھڑانا چاہتی ہے ۔
کوئی بھی معاشرہ اپنی روایات اپنی اقدار پر کھڑا ہو تا ہے جو اس کی پہچان ہو تی ہے وقت گزرنے کے ساتھ ہماری معاشرت تبدیل ہو رہی ہے اور وہ اوصاف دم توڑ رہے ہیں جو ایک دور میں اس خطے کے باسیوں کا خاصہ تھے ۔ رکھ رکھاؤ کی جگہ مینرز نے لے لی ہے کیونکہ رکھ رکھاؤ فرد کی اس بنیادی قدر کا نام تھا جس میں امیر ،غریب کی تفریق کے بغیر ہر شخص سے تمیز اور تہذیب کے ساتھ پیش آنے کا سبق پڑھایا جاتا تھا ۔
مینرز کا مظاہرہ صرف اپنے معیار کے لوگوں کے لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کے اصول ہیں. بچوں سے ان کی معصومیت اور شرارتیں چھین کر مشینی زندگی گزارنے پر لگا دیا ہے. ایک دسترخوان کے گرد اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھانے کا رواج بھی دم توڑ چکا ہے. مل کر کھانا کھانے میں برکت کا تصور شاید دقیانوسیت بن کر رہ گیا ہے. ہاتھ سے کھانا کھانے کو باعث ندامت اور چھری کانٹے کے استعمال کو باعث فخر سمجھا جانے لگا ہے.
معاملہ صرف یہاں تک محدود نہیں ،اپنی قومی زبان بولنے میں ہچکچاہٹ اور علاقائی زبان بولنے میں شرمندگی محسوس ہونے لگی ہے. روانی سے انگریزی بولنا باعث فخر بنتا جا رہا ہے. جسے انگریزی نہ آتی ہو ،اسے ان پڑھ سمجھا جاتا ہے ۔
تبدیلیوں کی اس سونامی نے اپنی تباہی کا دائرہ مزید وسیع کیا اور نئے زمانوں کے رنگوں میں رنگی نئی نسل گھر کے بڑے بوڑھوں کو گھر کا فالتو سامان سمجھنے لگی ہے. جو اپنی مدت اور ہماری ضرورت پوری کرنے کے بعد ناکارہ ہو گیا ہے. وہی بزرگ جو پہلے اثاثہ سمجھے جاتے تھے اب ان کے لیے اولڈ ہاوس کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے.
اپنی روایات سے دوری ہمیں شرمندگی میں مبتلا کرنے کے بجائے احساس فخر میں مبتلا کرنے لگی ہے. کیونکہ ہماری ناقص عقل کہتی ہے کہ روایات پر عمل کرنے ،اپنی علاقائی زبان بولنے سے ہم پر کہیں پینڈو پن کا ٹھپہ ہی نہ لگ جائے.
دوسروں کی روایات اپنا کر ہم ماڑرن بننے کی کوشش میں آدھا تیتر آدھا بٹیر بنتے جا رہے ہیں.. اپنی روایات سے دوری ہمیں ترقی نہیں بلکہ تنزلی کی جانب لے کر جا رہی ہے.
میں یہ نہیں کہتی کہ نئے زمانے کے ساتھ نہ چلو ،مگر اپنے اصل کو فراموش کرنا حماقت پر مبنی فیصلہ ہے. ترقی کا مزہ تو تب ہے جب انسان اپنی روایات کو ساتھ لے کر چلے. اپنی ثقافت جو پورے فخر سے اگلی نسل میں منتقل کرے.
دوسروں کی اچھی باتوں کی تقلید کرنے چاہیے مگر اپنی روایات ، اقدار اور ثقافت کی ترویج بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے. ترقی وہ ہوتی ہے جو اقدار پر مبنی ہو ، جس ترقی میں اقدار نہیں ، وہ خاک ترقی ہے ۔
اپنی مٹی پر چلنے کا سلیقہ سیکھو، سنگ مر مر پر چلو گے تو پھسل جاؤ گے