آزادکشمیر کے ضلع نیلم میں عام آبادی پر بھارتی فورسز کی گولہ باری جاری ہے ۔ ابھی آفس پہنچتے ہی یہ افسوس ناک اطلاع ملی کہ بھارتی فوج نے آج صبح وادی نیلم کے علاقے لوات کناری بالا کے مقام پر ایک مسافر بس کو مارٹر گولوں کا نشانہ بنایا ۔
یہ بس (MDAJK-3866) مسافروں کو لے کر کیل سے مظفرآباد جارہی تھی ۔ فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حملے میں کم ازکم 10افراد جان سے چلے گئے ہیں اور بہت سے زخمی ہیں جبکہ لاشوں اور زخمیوں کو اٹھانے کے لیے آنے والی ایمبولینس کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔
اطلاعات کے مطابق اس حملے میں جاںبحق ہونے والوں میں سے مختار شاہ ولد دلاور شاہ ، محمد یونس ولد محمد یوسف ،منظور احمد والد خواجہ بشیر، احمدولد سائیں ، محمد زبیر ولد یونس ، محمد اشرف ولد داود، محمد رفیق ولد عبدالاحد، اقبال ولد عبدالرشید اور طہور شاہ ولد گلاب شاہ، کی شناخت کر لی گئی ہے ۔
زخمی ہونے والوں میںراجہ غلام ڈرائیور، پولیس اہلکار بشیر احمد ولد لعل دین ، شفیع ولد غلام مصطفیٰ ، سلطان ولد غلام رسول ،گلفام ولد غلام سرور، عمران ولد حنیف، فضل حسین ، خواجہ جواد ولد محمد سلطان ، بشیر شاہ ولد غلام شاہ ، اور شرافت شاہ ولد سید حسین شاہ شامل ہیں ۔
اسی طرح کی ایک واقعے میں چند دن قبل وادی نیلم کے کیرن سیکٹر میںایک موٹر سائیکل سوار نوجوان بھی بھارتی فوج کی جاب سے داغے گئے مارٹر گولے کی زد میں آ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا ۔
اس کے علاوہ شاہ کوٹ ، جُورا، بٹل ، باغ ، باغسر اور دیگر اہم سیکٹرز میں بھی گولہ باری کا سلسلہ جاری رہا۔ اس سے قبل پیر کے روز بھارتی فائرنگ سے 4 افراد جاں بحق جبکہ 10 سے زائد زخمی ہوئے تھے ۔
کشمیریوں کے دُکھ نہیں معلوم کب ختم ہوں گے ۔ یہ کب تک پاکستان اور بھارت کی کراس بارڈر فائرنگ کا رزق بنتے رہیں گے ۔ کب تک اس جملے کی سہارے پر خود کو دھوکا دیتے رہیں کہ ”بھرپور جواب دے کر دشمن کی توپیں خاموش کر دیں”۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ وادی نیلم میں بسنے والے لاکھوں باشندوں کا ہے ۔ ان کی زندگیاں ، مکانات اور مویشی سب کچھ داو پر لگے ہوئے ہیں ۔
نوے کے اوائل اور پھر کارگل ایڈونچر کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے بھی وادی نیلم میں زندگی ایک بار پھر مسکرائی تھی مگر اب دوبارہ اس خوبصورت خطے میں موت اور خوف کا سایہ ہے ۔ حکومتیں اور عسکری اطلاعاتی ذرائع روایتی لولی پاپ قسم کے بیانات دے رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نیلم کی ان تمام آبادیوں کو جو بھارتی مورچوں اور پوسٹوں کے نشانے پر ہیں ، کسی محفوظ متبادل مقام پر منتقل کیا جائے ۔
مجھے وادی نیلم کے ان معصوم بچوں کا سوچ کر شدید رنج ہوتا ہے جو اس وار زون میں نفسیاتی طور پر ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں ۔ ان کا زندگی سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے ۔ دھماکوں کی مسلسل آوازوں اور ارد گرد گرتے لاشوں اور چیخ پکار کی وجہ سے وہ اپنا بچپن کھو چکے ہیں۔
کیا کوئی مسیحا آئے گا جو دو ملکوں کی اس لڑائی کا رزق بننے والے کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھ سکے ۔ کشمیری نہیں چاہتے کہ بھارت اور پاکستان دشمن بنے رہیں وہ صرف اپنی آزادی اور سکون سے زندگی جینے کا حق چاہتے ہیں ۔