تحریر: طارق حبیب
کراچی پریس کلب میں رات گئے داخل ہوا تو انتہائی قابل احترام سینئر کرائم رپورٹر کلب سے نکل رہے تھے, قریب سے گزرنے لگے تو گاڑی روک لی اور پوچھا۔ ۔ ۔
ایک مریض کو خون دینا ہے، چلو گے؟
میں نے کہا….جی بالکل،
اپنی بائیک کھڑی کی اور ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا…لیاقت نیشنل اسپتال پہنچ کر معلوم ہوا کہ ایک بزرگ خاتون شدید علیل تھیں، جو ان کے محلے میں رہتی تھیں۔ . ہم نے خون دیا، میں وارڈ سے باہر آگیا اور وہ کافی دیر تک ڈاکٹر سے مریضہ کے حوالے سے بات چیت کرتے رہے اس کے کئی دن بعد پھر ان کا فون آیا، میں ان کے دفتر گیا۔ انھوں نے کہا لیاقت نیشنل جانا ہے۔ اور ہم وہاں سے اسپتال آگئے. آج ان خاتون کو صحت یابی کے بعد اسپتال سے ڈسچارج کیا جارہا تھا۔ انھوں نے اسپتال کے بل ادا کئے اور مجھے اسپتال سے ان خاتون کے ساتھ ایمبولینس میں ان کے گھر بھیجا۔ اس دن اندازہ ہوا کہ علاج کے اخراجات وہی دے رہے تھے
خاتون کے گھر پہنچا تو گھر خالی تھا ۔ میں پریشان ہورہا تھا کہ ان خاتون کو کس کے حوالے کرنا ہے۔ اتنی دیر میں وہ بھی آگئے ۔ ان خاتون کی ادویات اور ضروری سامان کے شاپرز ان کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھے جو خاتون کے گھر پر رکھ دئے….پتا چلا وہ بزرگ خاتون اکیلی رہتی تھیں…انکی ایک بیٹی تھی جو امریکہ سیٹل تھی…
واپس کلب کی جانب آتے ہوئے کہنے لگے…. کرائم رپورٹنگ شروع کردی ہے… میں نے کہا جی… یہ آسان نہیں ہے….پاکستان میں کرائم رپورٹنگ پتھر دل افراد ہی کرسکتے ہیں…ایسے حقائق بھی پتا چلتے ہیں جو خون جلاتے ہیں, مگر تحریر نہیں کئے جاسکتے….. یاد رکھنا اگر کرائم رپورٹر ایماندار اور حساس ہوگا تو وہ ہارٹ اٹیک سے مرے گا یا برین ہیمرج سے…. میں نے سوچا یہ شخص پتھر دل تو نہیں ہوسکتا…. پھر ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگی…
وقت گزرتا گیا, جب کبھی کسی بھی حوالے سے ان کی ضرورت پڑی, وہ پہنچ گئے….کچھ رپورٹس پر دفتر بلا لیااور مشورہ دیا احتیاط کرو…پھر کچھ رپورٹس پر کام کرنے کو کہا کہ ان کا منظر عام پر آنا ضروری ہے اور یہ صرف جسارت ہی شائع کرسکتا ہے…
ایسا بھی ہوا کہ رات کو دیر گئے بھی کسی مسئلہ کے لئے انھیں کال کی تو فون پر بات کرنے کے بجائے خود پہنچ گئے۔ اس سینئر رپورٹر کو اس دن غصے میں بھی دیکھا جب ایک صحافی ساتھی کہ فلیٹ پر اس کی غیر موجودگی میں نامعلوم افراد نے حملہ کیا اور سامان کی توڑ پھوڑ کی۔ جب آئی جی سندھ پاس درخواست جمع کرانے گئے تو درخواست دیتے ہوئے آئی جی سندھ سے کہنے لگے کہ حملہ آوروں کو گرفتار کیجئے ورنہ ہم اپنے گھروں کا تحفظ کرنا جانتے ہیں۔
پھر وہ دن دیکھے ، میڈیا پر قدغن لگائے جانے کے خلاف احتجاج ہو یا مشرف کی سیاہ کاریوں کے خلاف بغاوت، وہ تحریکوں کے روح رواں رہے۔ جنگ گروپ کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوا اور جیو کی نشریات بند کردی گئی تو احتجاج کا آغاز کیا۔ صحافت کے شعبے میں نئے آنے والے ہمارے ٹولے کو بچہ پارٹی کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ چھوٹے بڑے سارے ہی گرویدہ نظر آئے۔ ان کے سخت مخالف بھی ان سے اختلاف رائے رکھتے لیکن کردار کی گواہی دیتے۔
دن اسی طرح گزرتے گئے اور پھر پھر 10 دسمبر 2009 کو خبر آئی کہ ان کا انتقال ہوگیا… اور موت کی وجہ تھی…… "ہارٹ اٹیک” یہ سنتے ہی میرے زہن میں ان کے الفاظ گونجے اگر کرائم رپورٹر ایماندار اور حساس ہوگا تو وہ ہارٹ اٹیک سے مرے گا یا برین ہیمرج سے
نجیب احمد بھائی, آپ ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گے، صیح کہا تھا آپ نے۔ مگر ایک بات اور بھی ثابت ہوگئی کہ لوگوں کی والہانہ محبت بھی صرف حساس اور ایماندار رپورٹر کے لئے ہوتی ہے۔ جنازے میں ہزاروں کی تعداد میں شریک افراد اس بات کے گواہ تھے۔
وزراء، پولیس افسران، صحافی، عوام، سب گواہ تھے کہ یہ محبت کسی عام رپورٹر کے لئے ہو ہی نہیں سکتی۔ جنازے کے بعد بھی تمام لوگ قبرستان تک جنازے کے ساتھ ساتھ گئے اور تدفین کے عمل میں پیش پیش رہے۔ شرکاء کی تعداد میں کوئی کمی نہ ہوئی۔