نجی ٹی وی چینل ’اب تک نیوز‘ کا پروگرام ’’خُفیہ‘‘ کچھ دن سے سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بناہواہے۔سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں اس پروگرام کی ٹیم ایک شہری کے گھر میں چھاپہ مارتے ہوئے دیکھی جا سکتی ہے۔ اس ٹیم کے افراد مختلف حربوں سے شہری کوبلیک میل کرتے ہیں۔ اپنے ساتھ لائی ہوئی چَرس اور پستول کی گولیاں وہ بڑی چالاکی سے اس شخص کے گھر سے ’’برآمد ‘‘ کرتے ہیں ۔ وہ شخص حیرت اور بوکھلاہٹ کے ساتھ چیختا پکارتا ہے لیکن اس کی ایک بھی نہیں سنی جاتی ۔اس کے بچے بھی یہ منظر دیکھ کر خوف وحیرت کی تصویر بن جاتے ہیں۔ دو دن قبل یہ ویڈیوسوشل میڈیا پر دیکھی تو دہل کر رہ گیا۔
غصے کے عالم میں اسی وقت مذکورہ پروگرام کے چھاپہ مار اینکرطاہر نیاز کو (03212460789) پرفون کیا ۔ پہلے اس نے احتیاطاًتعارف نہ کرایا۔ میرے لہجے کی ہمواری کو محسوس کرتے ہوئے ایک منٹ کے مکالمے کے بعد اس نے اپنی شناخت کی تصدیق کی۔ استفسارکیا کہ بتائیے آپ کو لوگوں کے گھروں میں یوں دھاوا بولنے کا اختیار کس نے دیا ہے؟ اس کا کہنا تھا کہ یہ آدمی ’’غیر اخلاقی سرگرمیوں‘‘ کا سہولت کار تھا،اس لیے ہم نے یہ چھاپہ مارا۔ میں نے کہا چھوڑئیے ،وہ جو بھی کرتا تھا، سوال مگر یہ ہے کہ کسی میڈیائی ادارے کو کس قانون کے تحت اس طرح کسی کی چادر و چار دیواری کا تقدس مجروح کرنے کی اجازت ہے؟ روایتی جواب ملا کہ کیا ہم معاشرتی برائیوں پر خاموش رہیں؟ عرض کیا بھائی آپ میں سے کوئی بھی اینکر اپنے مالک کی کسی کاروباری جگہ یا کمپنی میں اس طرغح چھاپہ مار سکتا ہے؟ جواب ندارد ۔ ۔۔ پھربطور صحافی اپنا تعارف کرایا تو اس نے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ ویڈیو جعلی ہے ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ دیگر دو خواتین اینکرز(ثناء فیصل اور سندھیلا اعجاز) بھی اس کے ساتھ ہوتی ہیں تو اس نے اثبات میں جواب دیا ، اس طرح یہ مکالمہ ختم ہوا لیکن میرا دماغ دیر تک اُبلتا رہا۔ فوری کتھارسس کے لیے سوشل میڈیا پر مختصر اظہاریہ چھوڑا ۔ بات البتہ ذہن میں کسی پھانس کی طرح اٹک سی گئی تھی۔
آج پتہ چلا کہ یہ ویڈیو اسی پروگرام ’’خفیہ‘‘کے ایک کیمرا مین ساجد علی نے سوشل میڈیا پر جاری کی تھی ۔ ویڈیو کے ریلیز ہونے کے بعد ساجد علی پر بہت دباؤ تھا۔ساجد نے مجبور ہو کر اپنی ایک مختصر بھی ویڈیوفیس بک پر پوسٹ کر دی۔ جس میں ساجد علی کا کہنا ہے کہ وہ کئی دن سے گھرنہیں جا سکا۔ اسے فون پر بتایا جا رہا ہے کہ اس کی گلی میں نامعلوم لوگ چکر لگاتے ہیں ۔ اس کی جان کو خطرہ ہے۔قدرے سانولی رنگت اور معمولی جسامت کا حامل ساجد علی کہتا ہے کہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے جس کی خاطر ہمارے ساتھیوں نے خون بہایا ہے۔ وہ کچھ دن قبل کراچی میں فائرنگ کا نشانہ بننے والے سماء ٹی وی کے کیمرا مین تیمور کا نام بھی لیتا ہے۔
ساجد علی کا کہنا ہے کہ اس طرح کسی کے گھر میں جاگھسنا اور اس کی پرائیویسی کو متاثر کرنا درست نہیں ہے ۔ یہ مختصر ویڈیو ساجد علی کے اس پیغام پر ختم ہوتی ہے کہ ’’میرا ’اب تک ٹی وی‘ سے کوئی اختلاف نہیں ، میرا اختلاف صرف پروگرام ’’خفیہ‘‘ کی ٹیم سے ہے۔اگر مجھے کوئی نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ دار پروگرام’’خفیہ‘‘ کی ٹیم اور اینکر طاہر نیاز ہوگا‘‘۔تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ کیمرا مین ساجد علی اس ویڈیو کے بعد منظر سے ٖغائب ہے ۔ کراچی کے ایک صحافی عبدالجبار ناصر نے لکھا کہ ’’خفیہ پروگرام کی بلیک میلنگ کو بے نقاب کرنے والے صحافی ساجد علی کو نامعلوم افرادلے گئے‘‘۔یہ تشویش ناک خبر ہے۔
پاکستان میں چھاپہ مار صحافت کی ابتداء تو پرنٹ میڈیا نے کی لیکن نجی ٹی وی چینلز نے جرائم کی تمثیل پر مبنی پروگراموں کے ذریعے اسے باقاعدہ دھندہ بنا لیا ہے ۔ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اکثر ٹی وی چینلز پر اس قسم کے پروگرام چل رہے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ ان پروگراموں کے اسکرپٹ کے مطابق پولیس بھی اداکاری کرتی دکھائی دیتی ہے۔کسی بھی جگہ چھاپہ مار کر اس کی مکمل فوٹیج بنائی جاتی ہے ۔ کیمراشاٹس لیے جاتے ہیں۔ پھر پروڈکشن کے دوران اس ویڈیو کو مہارت سے جوڑ کر مکمل چٹپٹی فلم بنائی جاتی ہے ، جس کے پس منظر میں تیز قسم کا میوزک چلایا جاتا ہے ۔ ’’کام کے‘‘ مناظر جوڑ کر باقی کاٹ دیے جاتے ہیں ۔ پروگرام کا اینکر قدرے بلند اور ڈرامائی لہجے میں مناظر کے ساتھ ساتھ کہانی بیان کرتا ہے ۔کچھ ایسے شاٹس بھی شامل ہوتے ہیں جن میں اینکر کسی مبینہ ملزم سے دھاڑتے ہوئے پوچھتا ہے ’’تمہیں شرم نہیں آتی یہ کام کرتے ہوئے وغیرہ وغیرہ‘‘ ۔
ان پروگراموں میں اینکر اکثر یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ جرائم کے خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں جبکہ یہ نہ تو ان کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اور نہ ہی پروگرام کا مقصد ہوتا ہے ۔ ایسے مصالحہ مارکہ پروگراموں کا مقصد صرف اور صرف ریٹنگ کا حصول ہے ۔دوسری جانب اس نوع کے پروگراموں سے معاشرے میں جرائم سے متعلق حساسیت میں کمی واقع ہوتی ہے ۔ ری انیکٹمنٹ (جرائم کی تمثیل کاری)سے آگاہی کی بجائے جرائم کے طریقوں کی تعلیم ہوتی ہے ، جو اچھی علامت نہیں ہے۔
پاکستان کا آئین عام آدمی کی ذاتی زندگی (چادر وچار دیواری)کے مکمل تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 9’فردکی سلامتی‘ سے متعلق ہے جس کے مطابق ’’کسی شخص کو اس کی زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گاسوائے جبکہ قانون اس کی اجازت دے ‘‘ اور آئین کا آرٹیکل 14’شرف انسانی اور گھر کی خلوت‘ کے تحفظ کی بات کرتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ’’شرف انسانی اور قانون کے تابع ، گھر کی خلوت قابل حرمت ہوگی‘‘۔ آئین کا آرٹیکل 34معاشرتی برائیو ں کے خاتمے کی بات کرتا ہے لیکن یہاںیہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ میڈیا میں کام کرنے والے افراد کے اختیارات قانون نافذ کرنے والے اداروں سے قطعی مماثل یاان کے مساوی نہیں ہیں ۔ اس لیے انہیں ازخود کسی بھی شخص کی ذاتی زندگی میں مداخلت کاحق نہیں ہے۔
پاکستان میں برقی صحافت کی نگرانی کے لیے پیمرا کے نام سے ایک نگران ادارہ قائم ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ یہ ادارہ صرف ان ’’بے اعتدالیوں‘‘ اور ’’گستاخیوں‘‘ کی نگرانی تک محدود ہے جن کا تعلق محض سیاست اور ’’وقار‘‘ کے امور سے ہے ۔ پیمرا نے حالیہ کچھ عرصے میں کئی اینکروں کو نوٹس جاری کیے اور بعض پرجرمانوں کے علاوہ محدود دورانیے کے لیے پابندی بھی لگائی ،لیکن حیرت ہے اس ادارے کو یہ چھاپہ مار پروگرام نظر نہیں آتے جہاں صرف ایسے شہریوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جن کے کسی طاقتور کے ساتھ تعلقات نہیں ہیں۔ ان اینکرز کا زور کسی جعلی عامل یا نشے کے عادی پرتو چلتا ہے لیکن کسی بڑے نام والے ہوٹل ، گیسٹ ہاؤس یا کارخانے پریوں چڑھ دوڑنے کا یہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ان کی آزاد بلکہ آوارہ صحافت صرف معمولی سماجی حیثیت کے حامل بظاہر کمزور افراد کو نشانہ بناتی ہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کراچی کے ایک چینل کی ایسی ہی منہ پھٹ قسم کی اینکر کو ایک سیکورٹی گارڈ سے بدتمیزی کے بعد زور دار تمانچہ پڑا تھا۔خیال تھا کہ نجی ابلاغی ادارے اس تمانچے کو سنجیدہ لیں گے مگر یہ امید بھی سراب ثابت ہوئی ۔
سمجھنا چاہیے کہ حقِ اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی ایک چیز ہے اورکیمرے کے زور پر شہریوں کی ذاتی زندگی میں مداخلت بالکل الگ معاملہ ہے۔ ایسے اینکرز کا جب کسی سر پِھرے سے واسطہ پڑ جاتا ہے تو صحافت کی نام نہاد آزادی خطرے میں پڑ جاتی ہے اور احتجاج شروع ہوجاتے ہیں ۔ یہ اخلاقی اعتبار سے ہمارے دہرے معیارات کی بڑی علامت ہے۔ اگر اس منفی رجحان کو کسی باقاعدہ ضابطۂ کار کے تحت نہ لایا گیا تو جرائم اور بلیک میلنگ کا نیا دھندہ شروع ہو سکتا ہے۔
اہم ہے کہ نجی ٹی وی چینلز میں چلنے والے جرائم سے متعلق پروگراموں کا سنجیدہ تجزیہ کیا جائے اورسماج پر ان کے منفی نفسیاتی اثرات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے لیے مؤثر ضوابط طے کیے جائیں۔ پولیس یا دیگر سیکیورٹی ادارے عوام سے وصول کیے گئے ٹیکس سے تنخواہ پاتے ہیں ۔ان کا کسی نجی کاروباری ادارے کے لیے کام کرنا یا ان چینلز کی چھاپہ مار پارٹیوں کے ساتھ مناظر فلمانا کسی طور بھی درست نہیں ہے۔ حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو اس بارے میں واضح احکامات جاری کرنے چاہییں۔ایک اور کنفیوژن یہ ہے کہ بہت سے لوگ اینکر اور صحافی میں فرق نہیں جانتے۔ ہر اینکر کا صحافی ہونا ضروری نہیں ۔خاص طور پر چھاپہ مار صحافت کرنے والے اکثر اینکرز صحافی نہیں ہیں۔وہ اسکرپٹ کے مطابق اداکاری کرتے ہیں۔ان اینکروں کو اپنے کام کی اخلاقی حدود سے آگاہ کیا جانا ضروری ہے۔ اگریہ سلسلہ نہ رکا تو وہ دن دور نہیں کہ جب کیمروں کے جُھرمٹ میں لوگوں کے گھروں اور کام کی جگہوں پر چھاپے مارنے والوں کاسڑکوں پر نقد احتساب شروع ہو جائے گا۔
جہاں تک تعلق کیمرا مین سجاد علی کا ہے تو اس وقت اس کے حق میں بھرپور آواز بلند کرنی چاہیے ۔ اس نے جو کیا وہ کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں کئی ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر آئیں اور مُہان سمجھے جانے والے اینکرز بے نقاب ہوئے۔ یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ صحافی کا ایک تعلق ادارے کے مالک کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ ایک رشتہ بطور شہری ریاست کے ساتھ ہوتا ہے۔ سجاد علی نے یہ ویڈیو منظر عام پر لاکر اپنی سماجی ذمہ داری ادا کی ہے ۔ وہ اپنے کام کی نوعیت کے اعتبار سے معمولی ملازم سہی مگر وہ صحافی ہے ۔ صحافی برادری کو چاہیے کہ وہ سجاد علی کی باحفاظت بازیابی اور چھاپہ مار بلیک میلر اینکروں سے لاتعلقی کا اعلان کریں تاکہ ایک لکیر کِھنچ جائے اور منظر واضح ہو سکے۔