گلگت بلتستان کی نئی حکومت سے خدشات اور توقعات

11017849_912162165490196_7298535694758877681_n

8 جون 2015 کو گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے دوسرے الیکشن کے موقع پر یہاں کے عوام ، مر و خواتین ووٹرز نے جوش و خروش کے ساتھ اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ۔ اس الیکشن میں سترہ سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بھرپور حصہ لیا۔ کل 24 نشستوں کے لیے 248 امیدوار میدان میں اترے۔ رائے دہی کے دوران امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے پورے علاقے میں پاک فوج سمیت دیگر پیرا ملٹری اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔ مسلم لیگ نون کے بلتستان کے سابق عہدیدار جناب جسٹس ریٹائرڈ سید طاہر علی شاہ صاحب کے بطور چیف الیکشن کمشنر اور اسی علاقے پر براجمان وفاقی وزیر اور مسلم لیگ ن کے رہنما جناب چوہدری برجیس طاہر صاحب کے بطور غیر مقامی گورنر اور 21 رکنی کابینہ پر مشتمل نگراں عبوری حکومت کی نگرانی میں یہ الیکشن منعقد ہو اہے۔

آٹھ جون کی رات تک پورے خطے میں الیکشن شفاف اور پر امن رہا تھا۔ لیکن الیکشن کے نتائج کے اعلانات پر جشنِ فتح میں جنونی جذبات کے بے قابو ہونے کی وجہ سے مختلف حلقوں میں سیاسی و مذہبی تنظیموں کے مابین تصادم ہوا ہے اور چند افراد کی گرفتاری اور زخمی ہونے جبکہ سکردو حلقہ چار سے ایک مذہبی جماعت کا کارکن قتل ہوا ۔

اس الیکشن میں گلگت بلتستان کے عوام نے کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کو محروم نہیں رکھا اور اپنے سیاسی شعور کے تحت ہر ایک کو اس کی اوقات کے مطابق حصہ دیا۔

الیکشن سے پہلے مختلف سیاسی ومذہبی قائدین نے علاقے میں اپنے ڈیرے جمالیے اور کئی مہینے اور ہفتے وہ عوام کے نہایت مخلص، ہمدرد اور ان کے تمام مسائل کے حل اور حقوق کی فراہمی کے نعرے لے کے قصبہ قصبہ، وادی وادی ،نالہ نالہ اور گاؤں گاؤں کے تفصیلی دورے کیے۔

حقوق سے محرومی،مسائل کے انبھار پر نہایت ہمدردری کے ساتھ علاقے کی تعمیر و ترقی، حقوق کی فراہمی اور مسائل کے حل کے نعروں کے ساتھ وزیر اعظم نواز شریف،عمران خان، خوشید شاہ، قمر الزمان کائرہ سمیت دیگر متعدد قومی سیاسی رہنماؤں نے عوام کو اپنے سیاسی منشور بتا کر انہیں قائل کرنے پہنچ گئے۔ ریحام خان، ماروی میمن، شہلا رضا جیسی خواتین سیاسی رہنما ؤں نے بھی اپنے جلوے دکھائے

۔ علامہ سید ساجد نقوی،علامہ راجہ ناصر عباس ، علامہ امین شہیدی، علامہ عارف واحدی، علامہ شبیر میثمی ،علامہ محمد احمد لدھیانوی اور علامہ اورنگزیب فاروقی سمیت دیگر مذہبی رہنماؤں نے علاقے کے سیاسی دنگل کو مذہبی جنونی نعروں سے مزید گرمایا۔

اس الیکشن نے ایک طرف تو سابق حکمران جماعت کو اپنی کارکردگی کا آئینہ دکھا کر اس سے عوام پر حکمرانی کا حق چھین لیاہے۔ سابق حکمران پارٹی کا ایک بھی امیدوار جیت کا ہار نہیں پہن سکا۔ تو دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کو بھی یہ سمجھایا ہے کہ صرف خود ستائشی ترانے عوام کو ایسی پارٹی پر سیاسی اعتماد کرنے پر قائل نہیں کر سکتے۔ اور ساتھ ہی مذہبی جماعتوں کو بھی اپنی اوقات بتا دی ہے، ان کو عوام نے مسترد کر کے واضح کر دیا ہے کہ بلند و بانگ نعرے اور زمینی حقائق کے برخلاف خلائی انقلاب پر مشتمل مسلک پرستی، شخصیت پرستی اور تنظیم پرستی کی سیاست شاید دلوں کو گرما سکے لیکن سنجیدہ اور با شعور ذہنوں کو خلفشار، انتشار، تذبذب جبکہ اجتماعی طور پر سماجی منافرت اور مزید پھلنے پھولنے کے بعد قتل و غارت اور خانہ جنگی کے سوا کچھ نہیں دیتی۔

وفاق میں نون لیگ کی حکومت، وفاقی وزیر کی گورنرشپ اور الیکشن کے قریب وزیر اعظم سمیت حکمران جماعت کے وزرا کے دورے اور اعلانات نے کام کر دکھایا اور عوام نے طوعاً اور کرھاً اسی پارٹی کو اپنے ووٹوں کا سب سے زیادہ مستحق ٹھہرایا اور عوام نے مسائل اور حقوق کے لیے آئندہ پانچ سال کے لیے ان پر حکمرانی کا مینڈیٹ اور حق حکمران جماعت کو سونپ دیا ۔

عوام نے اپنے ووٹ سے مسلکی شناخت پر مبنی مذہبی جماعتوں کو مسترد کر کے اس جماعت کو ووٹ دیا ہے جس میں مذہبی لحاظ سے علاقے کی ساری شناختوں کی نمائندگی موجود ہے یعنی اس میں اہل تشیع، اہل سنت، اہل حدیث، شیعہ امامیہ اسماعیلی اور نوربخشی مسالک سے تعلق رکھنے والے نمائندے موجود ہیں، دوسری طرف بلتستان، گلگت، ہنزہ، غذر ، استور اور دیامر کے نمائندوں کی وجہ سے علاقائی اور لسانی لحاظ سے سارے علاقوں کی نمائندگی سامنے آئی ہے۔ اس طرح بھاری اکثریت سے مسلم لیگ نو ن پہلی بار گلگت بلتستان میں حکومت کرنے کی اہل قرار پائے گی۔

گلگت بلتستان انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں نے اپنے سیاسی جلسوں، ریلیوں اور اجتماعات میں جس قسم کے جنونی نعرے لگوائے ہیں اور جس انداز میں دینی و سماجی اخلاقیات کے اصولوں کو پامال کیا ہے۔

انتخابی تناؤکے سماجی باقیات اور اس کے پھل معاشرتی شکست و ریخت اور سماجی منافرت ، قطع رحمی بد اعتمادی کی صورت میں سامنے آرہے ہیں ۔ان قائدین کی زیارت اب شاید مہینوں اور برسوں میں ہی وہاں کے لوگوں کو نصیب ہو لیکن تقسیم در تقسیم اور سماجی تناؤ کا ورثہ ہی ان کے پاس رہ گیا ہے جو ان کی آئندہ سماجی زندگی کو بھی بری طرح متاثر کیے بغیر نہیں چھوڑے گا۔

گلگت بلتستان کے حوالے سے کئی اہم معاملات میں حکمران جماعت کا رویہ بہت زیادہ قابل تشویش ہے مثلاً گلگت بلتستان کے حسن اور پہاڑی سلسلے کو چیر کر ہی پاک چین اقتصادی راہداری کا دروازہ کھلتا ہے اور 800 کلومیٹر کا راستہ اسی علاقے سے گزرتا ہے لیکن ابھی تک ہونے والے اس کے کسی سٹریٹجک اجلاس میں یہاں کے عوام اور نمائندوں کو مسلسل نظر انداز کیا گیا ہے اور اس بڑے منصوبے سے اس علاقے کو کیا فائدہ ہونا ہے اس کا تعین بھی نہیں کیا گیا ہے۔

اسی علاقے سے پورے پاکستان کو روشن اور سیراب کرنے کے لیے دیامر بھاشا ڈیم سمیت متعدد ڈیمز بنائے جا رہے ہیں تاہم ان ترقیاتی منصوبوں میں گلگت بلتستان کے مفادات کو وقاق کے مفادات پر قربان کیا جا رہا ہے ۔

یہ وہی گلگت بلتستان ہے جو اپنے دامن میں ایک طرف دنیا کی دوسری بلند چوٹی کے ٹو، دنیا کی بلند ترین برفانی گلیشیر سیاچن، دنیا کا بلند ترین ہموار میدان دیوسائی ، ہمالیہ اور قراقرم کے عظیم پہاڑی سلسلے، جھیلوں، آبشاروں، چشموں، ندیوں، دریاوؤں، جنگلات، سرسبز و شاداب میدانوں، خوبصوت وادیوں اور فلک پوش برفانی پہاڑوں، جنگلی حیات، معدنیات سمیت قدرت کا بے پناہ حسن اور سیاحت کے بے شمار مواقع سمویا ہوا ہے اور دوسری طرف ہزاروں سالوں پر مبنی تاریخ، تہذیب ، روایات، و ثقافت اور متنوع مگر پْرامن بقائے باہمی کے دلنشین آثار سے مالا مال ہے لیکن یہاں کی سیاحت، قدرتی حسن زرخیز وسیراب وادیاں اور معدنی وسائل پر سرمایہ کاری کرنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔ وفاق کا ابھی تک گلگت بلتستان کے ساتھ یہ رویہ رہا ہے کہ اس علاقے سے وہی پاکستانی بن سکتا ہے جو یا تو بے جان ہو جیسے کے ٹو، دریا ئے سندھ ، سیاچن گلیشیر اور دیوسائی وغیرہ یا پاکستان کو جان ہی دیدے جیسے لالک جان اور دیگر ہیروز۔ باقی زندہ لوگوں کو ان کے آئینی و سیاسی حقوق سے محروم رکھ کر ان پر اپنا تسلط جمایا ہوا ہے۔ یہاں کے لوگوں کو آئینی، سیاسی اور معاشی حقوق سے ابھی تک محروم رکھا گیا ہے۔ یہاں بنیادی تعلیمی سٹرکچر اور ادارے نہیں ہیں، یہاں گورنینس رشوت و بد عنوانی سے بدبودار ہو چکی ہے اور آنے والی نسلوں کو بہتر تعلیم، صحت اور ترقی کے مواقع سے محروم رکھا گیا ہے۔

گزشتہ سا ت دہائیوں سے پاکستان اس خطے کے ساتھ دوغلی پالیسی کے ساتھ پیش آرہا ہے اور اس خطے کے پانی، بجلی، معدنیات، اور سیاحت کے وسائل تو برابر لوٹتا رہا ہے۔اسی طرح جب بھی الیکشن کا وقت آتا ہے تو مختلف نعروں اور جھوٹے وعدے لے کر پاکستان کی ساری سیاسی و مذہبی پارٹیوں کی مرکزی قیادتیں اس علاقے میں بلند و بانگ نعروں سے اس کے قصبہ قصبہ اور وادی وادی کا دورہ کرتی ہیں۔ لیکن جب بھی اس کے آئینی اور سیاسی حقوق کی بات ہوتی ہے تو یہ علاقہ پھر متنازع قرار پاتا رہا ہے۔ حتی ٰ کہ حکمران جماعت کے وزرا میڈیا پر آ کر اس علاقے کو متنازع قرار دیتے رہے ہیں۔

سات دھائیوں سے لاتعلقی کے اظہار اور تمام تر آئینی حقوق سے محرومی کے باوجود گلگت بلتستان کے عوام پاکستان کے ساتھ پاکستان کے کسی بھی دیگر صوبے اور علاقے سے زیادہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ پاکستان کا یوم آزادی ہو یا یوم پاکستان، یوم دفاع ہو یا یوم تکبیر، پاکستان بنانے والے قائد اعظم کا دن ہو یا اس کا خواب دیکھنے والے علامہ اقبال کا، جتنا عوامی سطح پر جوش و خروش، جذبہ اور ولولہ گلگت بلتستان میں دکھائی دیتا ہے پاکستان کسی آئینی صوبے یا علاقے میں نہیں دکھائی دیتا۔

پاکستان کے طول و عرض میں جاری امن کے قیام کی جنگ ہو یا سرحد پر لڑی جانے والی جنگ سب میں سب سے بڑھ کر قربانی دینے والے گلگت بلتستان کے جوان اگر پاکستان کی محبت میں اپنی جان گنوا کر لالک جان یا شیر خان بنیں تو وہ بھی ایسے پاکستانی ٹھہریں جنہیں سب سے بڑے پاکستانی قومی اعزاز نشان حیدر سے نوازا جائے، گلگت بلتستان کا کوئی محلہ ،وادی اور قصبہ ایسا نہیں جہاں آپ کو ایسی قبریں نہ ملیں جن پر پاکستانی جھنڈا نہ لہرا رہا ہو۔ یہ سارے جان دینے والے پاکستانی ہیروز، مطلب یہ ہو ا کہ اس علاقے سے وہی پاکستانی بن سکتا ہے جو یا تو بے جان ہو یا پاکستان کو جان ہی دیدے۔ گلگت بلتستان کے عوام کی پاکستان کے لیے بے پناہ قربانیاں اور خدمات پاکستان سے غیر متزلزل محبت کا واضح و بیّن ثبوت ہے۔ یہاں کے عوام اپنی امن پسندی، دیانت و امانت اور اعتدال پسندی کے اعتبار سے دنیا بھر میں پاکستان کی نیک نامی کا باعث بنتے ہیں۔

اللہ کرے حالیہ الیکشن کے دوران گلگت بلتستان میں لگا ئے گئے فلک شگاف نعروں کی میعاد (Expiry Date) الیکشن کے بعد ختم نہ ہو، الیکشن کے بعد یہ نعرے فضا میں منحل ہونے کے بجائے زمین پر اتریں، قومی سیاسی پارٹیوں کے رہنما موسمی پرندوں کی طرح اگلے الیکشن تک مکمل غائب نہ ہوں۔ الیکشن جیت کر منتخب ہونے والے ارکان اقتدار کا نشہ اور عوامی فنڈز کا چسکا لینے میں مصروف نہ ہوں اور عوام کی مخلصانہ، شفاف اور مساویانہ خدمت کریں نیز علاقے کے حقوق کے لیے جو نعرے عوام میں بیٹھ کر لگائے ہیں ان کو پورا کرنے کے لیے اپنی پوری صلاحیت بروئے کار لائیں اور ایوان میں بھی عوام کی نمائندگی کا حق ادا کریں ،

الیکشن ہار جانے والے امیدواران دل چھوٹا کرنے اور انتقامی جذبات پر اتر آنے کے بجائے جمہوری طرز عمل اختیارکرتے ہوئے عوامی مینڈیٹ اور اپنی شکست کو تسلیم کر لیں اور آئندہ الیکشن کے لیے عوامی خدمت اور قیادت کے جذبہ کو تازہ رکھیں۔ عوام منتخب ارکان کو اپنے آقا سمجھنے کے بجائے اپنا خادم سمجھیں اور عوام کی فلاح کے لیے ان کا احتساب کرتے رہیں۔

ایک بار پھر امید کی جاتی ہے کہ قومی سیاست اور وفاق میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی پارٹیاں گلگت بلتستان کے عوام سے اپنے کیے گئے وعدوں اور نعروں کو عملی جامہ پہنائیں گی۔ وہ گلگت بلتستا ن کے عوام کو صرف نعرے یاد رکھوانے پر اکتفا نہ کریں بلکہ ان کے آئینی و سیاسی حقوق یعنی گلگت بلتستان کو باقاعدہ طور پر پاکستان کا پانچواں آئینی صوبہ بنانے کے لیے بھرپور اور کامیاب تحریک چلائیں۔ وہ یہاں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کی سیاست کو فروغ دینے کے بجائے قومی ہم آہنگی اور فرقہ واریت کے بجائے مذہبی رواداری کی ثقافت کو فروغ دیں گی۔ امید ہے آنے والے پانچ سال میں یہ جماعتیں س مزید یاسی بلوغت اور پختگی کو پہنچ جائیں گی۔

ہم حکومت سے یہ بھی توقع کرتے ہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری میں گلگت بلتستان کی شراکت داری کو یقینی بنایا جائے ،

ہنزہ، کھرمنگ اور شگر کے نئے اضلاع کے قیام کے اعلانات پر فوری عملدر آمد ہو۔

بلتستان یونیورسٹی فوری طور پر بنے،

گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں موجود سینکڑوں مربع کلومیٹر پر مشتمل بنجر میدانوں کی آباد کاری کے ذریعے علاقے کو زرعی لحاظ سے نہ صرف خود کفیل بلکہ زرعی اجناس اور دیگر پھلوں اور سبزیوں کے ایکسپورٹر بنانے کے لیے زرعی ترقیاتی منصوبے لگائیں۔

گلگت سکردو روڈ کی تعمیر کا کام شروع ہو،

متعدد اعلان کردہ ڈیمز اور بجلی گھر کے کام کا آغاز ہو دیگر ترقیاتی کاموں اور سروسز کے اعلانات ہوا میں بکھرنے سے پہلے زمین پر اترنے لگیں۔

ایک اہم توقع یہ بھی کی جاتی ہے کہ اس حکومت کا طرز حکمرانی رشوت، بدعوانی، اقربا پروری اور علاقہ پرستی کے بجائے اہلیت، قانون کی بالادستی، شفافیت، احتساب، دیانت و امانت، انصاف و مساوات کے مسلمہ اصولوں پر قائم رہے ، ورنہ عوام نے جس طرح پیپلز پارٹی کو کارکردگی کا آئینہ دکھایا ہے یہ حکمران جماعت کو بھی آئندہ حکومت سے محروم کر سکتی ہے اور مسلم لیگ نون بھی سابق حکمران جماعت بنے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے