پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی اور سوات کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی مسرت احمد زیب نے دعویٰ کیا ہے کہ 2012ء میں ملالہ یوسف زئی پر ہونے والا حملہ نقلی تھا، حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں اور سماجی گروپوں کی طرف سے ”ڈرامہ“ رچایا گیا تھا۔
حملے کے وقت ملالہ یوسف زئی خوشال پبلک سکول سوات میں زیر تعلیم تھیں اور درمیانی مدت کا امتحان دے کر گھر واپس آ رہی تھیں کہ دہشت گردوں نے انہیں گولی مار دی تھی۔ اس حملے میں وہ شدید زخمی ہوئیں اور انہیں سی ایم ایچ ہسپتال پشاورلے جایا گیا اور پھر مزید علاج کے لیے لندن منتقل کر دیا گیا۔
مسرت احمد زیب سختی سے اس بات پر قائم ہیں کہ یہ پورے کا پورا حادثہ واقعات کی ’سیریز‘ ہے جسے ایک سوچے سمجھے منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری اپنے بیان میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ ملالہ یوسف زئی پر حملہ کا ”ڈرامہ“ رچانے والے گروپوں نے اسی طرح کا ایک اور ڈرامہ رچانے کے لیے ان کے ساتھ بھی رابطہ کیا تھا تاہم انہوں نے اس کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔
ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ”بالکل اسی طرح کے ڈرامے کے لیے مجھ سے بھی رابطہ کیا گیا مگر میں نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا کیونکہ مجھے کسی بھی دوسرے ملک میں سیاسی پناہ لینے میں کوئی دلچسپی نہیں۔“ انہوں نے الزام عائد کیا کہ حملے کے بعدجن لوگوں نے ملالہ یوسف زئی کا طبی معائنہ کیا، ان سب کو حکومت نے پلاٹ دیے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اتنے سالوں بعد اس لیے خاموشی توڑ رہی ہیں کیونکہ یہاں ملالہ یوسف زئی کے علاوہ کئی اور لوگ ہیں جن پر انہیں فخر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”میرے ضمیر نے مجھے رازوں سے پردہ اٹھانے پر مجبور کیا ہے۔“ انہوں نے کہا کہ وہ چپ ہی رہتیں لیکن کسی نے زرمینہ وزیر کے بارے میں ٹویٹ کیا جس نے وفاقی حکومت کے زیر اثر قبائلی علاقے سے سی ایس ایس کے امتحانات میں ٹاپ کیا ہے اور وہ ملالہ یوسف زئی سے متاثر ہے۔ اور اسی بات نے انہیں ”سچائی“ بتانے پر مجبور کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب ملالہ یوسف زئی نے ”گل مکئی“ کے نام سے لکھا تو وہ اس وقت پڑھ سکتی تھی نہ لکھ سکتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ”کیا آرمی پبلک سکول کے اساتذہ اور طالب علموں نے تعلیمی ادارہ چھوڑ دیا ہے؟“
ان کا کہنا تھا کہ ”یہاں درجنوں لڑکیاں ہیں جنہوں نے دباؤ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی پڑھائی جاری رکھی اور اب گریجوایشن مکمل کرنے جا رہی ہیں۔ مجھے ملالہ یوسف زئی کی کسی ایک کامیابی کے بارے میں بتائیں۔“