جماعۃ الدعوۃ کے مرکزی رہنما سیف اللہ نے بتایا کہ ان کی جماعت آئندہ انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی، جماعۃ الدعوۃ ایک عرصہ تک جمہوری نظام کو کفر کہتی رہی ہے اور اس اعلان کو بہت بڑی تبدیلی کہا جا رہا ہے ، گزشتہ انتخابات سے قبل دفاع پاکستان کونسل کے چئیرمین مولانا سمیع الحق سمیت کونسل میں شامل دیگر جماعتوں نے اصرار کیا تھا کہ اس پلیٹ فارم کو انتخابی اتحاد کے طور پر استعمال کیا جائے لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ جماعۃ الدعوۃ ہی تھی۔
جماعۃ الدعوۃ نے ملک بھر میں فلاحی کاموں کا جال بچھا رکھا ہے جس کے باعث اس کو مقبولیت حاصل ہے . جماعت الدعوہ کو امید ہے کہ بڑی شخصیات بھی اس کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیں گی اور وہ کارکردگی کی بنیاد پر پورے ملک میں انتخابات پر بھر پور طریقے سے اثر انداز ہو سکتی ہے . اس سے پہلے انتخابات میں جماعۃ الدعوۃ کے کارکنان اپنی مرضی سے ووٹ ڈالتے تھے .
پاکستان میں سو سے مذہبی ، مسلکی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم جماعتیں موجود ہیں تاہم ان جماعتوں کو انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی اور مذہبی سیاست کو زیادہ پزیرائی حاصل نہیں ہو سکی تاہم متحدہ مجلس عمل کا ماڈل قدے کامیاب رہا .
اجلاس میں موجود ایک اہم رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایا ہے کہ جماعۃ الدعوۃ کی کوشش ہے کہ وہ محب وطن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک گرینڈ الائینس بنایا جائے اور اس کے لیے جماعۃ الدعوۃ کے امیر حافظ سعید کی نظر بندی کے ختم ہونے کا انتظار کیا جا رہا ہے ۔ اس مقصد کے لیے جماعۃ الدعوۃ نے دیگر مذہبی جماعتوں سے رابطے بھی شروع کر دیئے ہیں . گذشتہ دنوں جمعیت علماء اسلام (ف) کے رہنما مولانا عبدالغفور کی وفد کے ہمراہ جماعۃ الدعوہ کے ہیڈ کوارٹر مرکز قادسیہ لاہور میں آمد بھی اسی اتحاد کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے.
یہ اطلاعات بھی موجود ہیں کہ جماعۃ الدعوۃ کے اس اعلان پر بہت سے کارکنان کی علیحدگی کا بھی خطرہ ہے کیونکہ جماعت الدعوۃ اس سے پہلے جمہوری نظام کو اسلامی نظام کے خلاف سمجھتی تھی . اس مقصد کے لیے علماء کرام کا ایک پینل تشکیل دیا جا رہا ہے جو کارکنان کو انتخابات اور سیاسی نظام کا حصہ بننے کے حوالے سے پیدا ہونے والے سوالات کے جوابات اور لٹریچر تیار کرے گا .
جماعۃ الدعوۃ پہلے کارکنان کو اس سیاسی نظام کی مخالفت پر تیار کرتی رہی ہے ۔جس کی وجہ سے کارکنان کی بڑی تعداد اس فیصلے سے پریشان ہے اور اسے ایک گہرا فکری یوٹرن قرار دے رہی ہے .ایک کارکن سے سوال کرنے پر اس نے کہا کہ جماعت کے علماء پہلے اس نظام کو کفر قرار دیتے رہے اور ہم نے اسی پر لوگوں کی ذہن سازی کی لیکن اب جبکہ ہم خود اس نطام میں شامل ہو جائیں گے تو لوگوں کو کیا جواب دیں گے ۔ کہا جارہا ہے کہ جماعۃ الدعوۃ کی جانب سے واٹس ایپ پر اس نظام میں حصہ لینے کی وضاحتیں بھی دی جانا شروع ہو چکی ہیں تاکہ کارکنان کو ذہنی طور پر مطمئن کیاجا سکے.
جماعت الدعوہ اپنی سیاسی جماعت کے خدو خال واضح کرنے کیلئے مخلتف مکاتب فکر کے لوگوں سے مشاورت میں بھی مصروف ہے اور اپنا جہادی چہرہ ختم کر کے خدمت کے حوالے سے اپنا نیا چہرہ عوام کے سامنے لانا چاہتی ہے . ملی مسلم لیگ کے نام سے جاری کئے گئے اشتہار میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جماعت الدعوہ فلاحی سر گرمیوں کی بنیاد پر سیاسی میدان میں اپنی کارکردگی کا اظہار کرنا چاہتی ہے .
نواز شریف کے نااہل ہونے کی وجہ سے خالی نشست پر بھی جماعت الدعوہ اثر انداز ہو سکتی ہے کیونکہ یہ وہی حلقہ ہے جہاں جماعت الدعوہ کو موثر پزیرائی حاصل ہے . اس سے پہلے جماعت الدعوہ کے اکثر کارکنان مسلم لیگ ن کو ہی ووٹ دیتے رہے ہیں . جماعت الدعوہ مسلم لیگ ن کے رویے سے نالاں اور شاکی رہی ہے. پیمرا کی جانب سے جماعت الدعوہ کی سر گرمیوں کی کوریج پر پابندی ، حافظ سعید کی نظر بندی میں دو ماہ کی توسیع ، ڈان لیکس میں جماعت الدعوہ کی مخالفت اور مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی رانا افضل کی جانب سے حافظ سعید کے خلاف بیانات نے جماعت الدعوہ کو سیاسی میدان میں قدم رکھنے پر مجبور کیا .