۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان مذہبی، لسانی، نسلی، علاقائی، ثقافتی، سماجی، سیاسی لحاظ سے ایک متنوع معاشرہ ہے۔ یہاں مختلف مسالک، مکاتب فکر اور مذاہب کے پیروکار بستے ہیں
مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے
مختلف زبان بولنے والے
مختلف ثقافتی و سماجی پس منظر سے وابستہ لوگ رہتے ہیں، یہاں غریب سے غریب تر اور امیر سے امیر تر طبقات کے لوگ زندگی گزارتے ہیں۔ یہاں زراعت، صنعت، تجارت، ملازمت، سیاست، صحافت، صحت، سیاحت ، ،مزدوری اور افسرشاہی سے تعلق رکھنے والے موجود ہیں۔ بعض پہاڑوں پر زندگی گزارتے ہیں تو بعض زرعی علاقوں میں، بعض صحرائی علاقوں میں بستے ہیں تو بعض ساحلی علاقوں میں، بعض گرم علاقوں میں تو بعض سرد علاقوں میں، دیہی علاقوں اور شہروں کے باشندے موجود ہیں۔
ایک ہی ملک کے باشندے ہونے کے باوجود مختلف قومیں آباد ہیں جن کی سماجی روایات، رسوم، تاریخ اور ثقافت ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ لوگوں کے کھانے، پینے، پہننے کی چیزوں سے لے کر آرائش و زیبائش کی چیزوں تک مختلف اور متنوع ہیں ۔
بلوچستان سے لے کر پنجاب، سندھ سے لے کر خیبر اور گوادر سے لے گلگت بلتستان تک نظر دوڑائیں تو اجناس، فصلیں، پھل، سبزیاں، پودے، جانور، معدنی وسائل مختلف علاقوں کے مختلف ہیں۔
لوگوں کے تجربات ، رجحانات، نظریات اور ذرائع معاش مختلف ہیں ۔ بعض مغربی ثقافت سے متاثر ہیں تو بعض عرب ثقافت سے، بعض فارس کی ثقافت سے متاثر تو بعض ہند کی ثقافت کے دلدادہ۔ یہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔ مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر اہل سنت (بریلوی، دیوبندی)، اہل حدیث اور اہل تشیع موجود ہیں ۔ اسی طرح ھندو، مسیحی ، سکھ اور دیگر غیر مسلم پاکستانی بھی اس ملک کے شہری ہیں۔ مسلم اور غیر مسلم اور لبرل شہریوں کی مزید ذیلی درجنوں مذہبی و سماجی اور سیاسی تعبیریں اور تنظیمیں ہیں۔ یوں یہاں ہر طبقہ فکر و عمل موجود ہے۔ سماج میں موجود ان مختلف طبقات میں پُرامن بقائے باہمی اس وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
الحمد للہ میں نے اپنے علاقے، نظریے، مسلک، پیشہ، معاش، سماج کے مخصوص و محدود خول سے جب نکل کر پورے پاکستان میں ہر مسلک، مذہب، علاقہ، سماج، رنگ، زبان اور نسل کے لوگوں کے ساتھ بطور ٹرینر استفادہ کیا ہے۔
مکتب دیوبند کی عظیم درسگاہ دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے لے کر مکتب اہل حدیث کی مرکزی درسگاہ جامعۃ السلفیہ فیصل آباد ، مکتب تشیع کی اہم درسگاہ جامعہ مدینۃ العلم اسلام آباد سے مکتب اہل سنت بریلوی جامعہ نظامیہ رضویہ شیخوپورہ تک، جماعت اسلامی کی عظیم درسگاہ جامعہ تفہیم القرآن مردان سے لے کر مسیحی چرچ تک ہر مسلک و مذہب دینی و مذہبی اداروں، مراکز، مدارس اور عبادت گاہوں کو قریب سے دیکھا۔
دیوبندی ، بریلوی، اہل حدیث اور اہل تشیع یعنی ہر مسلک کے علما، اساتذہ، خطباء، اور رہنماؤں سے معلومات و تجربات کا باہمی تبادلہ کیا۔ اسی طرح مسیحی رہنماوں، ہندو ، سکھ اور لبرل طبقات سے وابستہ لوگوں کے ساتھ معلومات، تجربات اور مہارتوں کے باہمی تبادلہ کے مواقع حاصل کئے ۔
ان نشستوں میں ،میں نے مختلف لوگوں کو دوسروں سے متعلق افواہوں پر مبنی خیالات بدلتے دیکھے ۔ مختلف مسالک اور مذاہب کے رہنماؤں کو ایک دوسرے کو انہی سے سمجھنے کے مواقع نصیب ہوئے جس کے نتیجے میں غلط فہمیوں کی دیواریں گرنے لگیں۔
دُور رہ کر ایک دوسرے سے نفرت کو قربت میں ، تعصب کو ہمدردی، خوف کو بے خوفی، بد اعتمادی کو اعتماد، بد ظنی کو حسن ظنی اور تکلف کو بے تکلفی میں بدلتے دیکھا۔ یہ سب تنوع کی حقیقت کو تسلیم کرنے اور تنوع کے فطری اصول کے احترام اور اس میں جینے کا ثمرہ ہے۔
تنوع جس طرح تخلیق کا فطری اصول اور کائنات کا حسن ہے اسی طرح انسانی حیات میں ترقی کا راز بھی تنوع ہے۔ تنوع انسانی حریت فکر و عمل کی بنیاد بھی ہے۔یہ انسانی حیات کی اجتماعی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ لہذا ہر وہ قدم جو انسانی حیات سے تنوع اور اس رنگا رنگی کو ختم کرنے کی طرف بڑھے گا وہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے فطری اصولوں سے متصادم ہوگا ، ایسا قدم کائنات کے فطری حسن پر کاری ضرب کی مانند ہوگا اور انسانی معاشرے کو مزید خطرے میں ڈالنے کا باعث بنے گا۔
اگر ہم انسان کی سماجی زندگی پر غور کریں تو ہمیں خاندان، نسل، زبان، علاقہ، مذہب، سماجی حیثیت، سیاسی رجحانات، نظریہ حیات ، پیشہ، علم تجربہ وغیرہ کے لحاظ سے بھی انسان ایک دوسرے سے جدا جدا نظر آتے ہیں۔
انسان کی سماجی زندگی میں ہر شخص کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ حاکم ہو کہ رعایا، تاجر ہو کہ مشتری، منصوبہ ساز ہو کہ منتظم، وکیل ہوکہ جج، استاذ ہوکہ شاگرد، طبیب ہو کہ مریض، مزدور ہو کہ معمار، سائنسدان ہو کہ سیاستدان، سماجی رہنما ہو کہ مذہبی رہنما، عوام الناس ہوں کہ خواص، غرضیکہ انسانی سماج کی تعمیر و ترقی میں ہر ایک کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ ہر ایک کا کام اپنی جگہ انتہائی ضروری ہے۔
رنگ، نسل، زبان و علاقہ، خاندان و قوم، کام ، پیشہ، سماجی حیثیت کی بنیاد پر کوئی شخص بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا۔ خلقت ، صلاحیت، طبیعت و مزاج، سماجی و سیاسی حیثیت، معاشی خوشحالی و بدحالی پر مبنی فطری و سماجی تنوع انسانی مساوات کی بنیاد بھی ہے۔
ان چیزوں کی بنیاد پر انسانوں میں سے کوئی نہ برتر ہے اور نہ ہی کم تر، نہ کوئی بہتر اور نہ کوئی بد تر بلکہ یہ فطری تنوع ہی ہے جو تمام انسانوں سے بلا تفریق محبت، احسان، انصاف، مساوات، ہمدردری اور احترام سے پیش آنے کا درس دیتا ہے۔ انسانی حیات میں موجود تنوع خاص طور پر نسل و نسب، رنگ و شکل، جسامت و قامت، خطہ، زبان ،سماجی حیثیت وغیرہ کسی انسان کے لیے دوسروں پر برتری اور ان سے بہتری کا معیار نہیں ہے۔ فضیلت و فوقیت کا معیار نیک اور شفاف کردار اور تقویٰ ہے۔ تقویٰ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی مخلوق سے محبت، احترام، اور اس کی خدمت کا تقاضا کرتا ہے۔
تنوع ایک دوسرے پر برتری ثابت کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایک دوسرے کی پہچان کے لیے ہے اور ایک دوسرے کی پہچان ہو تو اس کے مطابق اپنا رویے کا مناسب اظہار کر سکتا ہے۔ اگر انسانوں کے درمیان سے پہچان اور شناخت ختم ہو تو نہ صرف سارے تعلقات منہدم ہوں گے بلکہ انسانی سماج اپنے سماجی اور اخلاقی اصولوں پر قائم نہیں رہ سکتا۔
ہمیں سماجی، سیاسی، مذہبی، لسانی ، ثقافتی اور تہذیبی لحاظ سے اس عالمگیر گاؤں میں تنوع میں جینے اور تنوع کے ساتھ جینے کے جذبہ، رویہ اور سوچ کو فروغ دینا ہوگا ۔
تنوع کے احترام میں ہی ہماری پُر امن بقائے باہمی اور ہم آہنگی اور رواداری کا سامان موجود ہے۔ تنوع میں جینے کا تقاضا یہ ہے کہ آپ مختلف رنگ، نسل، سوچ، صلاحیت، دلچسپی، خیال، نظریہ ،مسلک، مذہب، پیشہ، علاقہ ، معاش، سیاست، سماج سے تعلق رکھنے والے انسانوں کے ساتھ احترام کے ساتھ تعلقات قائم کریں تو آپ ہر روز اللہ تعالیٰ کی ایک نئی شاہکار تخلیق سے قریب تر ہوتے جائیں گے۔
اس قربت سے آپ کی صلاحیتوں میں نکھار، خیالات اور رویوں میں اعتدال، فکر اور سوچ میں حسن ظن اور نئی جہت، ظرف میں وسعت، قلب میں کشادگی، زبان میں شائستگی، زندگی میں آسودگی، معاش میں خوشحالی، اسی طرح سماج میں توازن و استحکام، اور باہمی سماجی تعلقات میں احترام اور مروت، بقائے باہمی میں امن اور ہم آہنگی اور قوم میں اجتماعی ترقی اور استقلال پائیں گے ۔ تنوع کی اہمیت کو سمجھنے اور اس میں جینے سے ہماری تعلیم و تربیت، تحقیق و ترقی، تخلیق و تسخیر، تعبیر و تشریح اور تعمیر و تدبیر میں گہرائی و گیرائی اور بلندی و وسعت آئے گی جس کے نتیجے میں کائنات میں انسانی زندگی میں مزید سکون، اطمینان، آسانی اور ارتقا حاصل ہوگا۔
واضح رہے کہ دین کی بنیاد اور اس کی تعلیمات کی روح بھی تنوع پر مبنی ہے۔ اوامر و نواہی، نیکی اور بدی، جائز اور ناجائز، حق و باطل، صحیح و غلط اور جزا و سزا کا تصور، نیز عدل و ظلم، محبت و نفرت، ہمدردری و بے دردی، رواداری و تنگ نظری سمیت اخلاقی و دینی اقدار کی بنیاد تنوع ہے یہ ساری تعلیمات اسی لیے تو ہیں کہ لوگوں کے رویے، خواہشات، رجحانات ایک جیسے نہیں ہیں۔
لوگوں کی مختلف سوچ، رویے اور عمل ان کی مختلف صلاحیتوں، حیثیتوں، رجحانات، نظریات اور خواہشات کے نتائج ہیں۔ جو چیز آپ کا حق ہے وہ دوسرے کے لیے فرض ہے، اور جو چیز دوسرے کے لیے فرض ہے وہ آپ کا حق ہے۔ دین فرائض اور حقوق میں اعتدال چاہتا ہے۔ دین کی تعلیمات اور اقدار انسان کے انفرادی اور اجتماعی سطح پر متنوع سماجی رویوں میں توازن و اعتدال پیدا کرنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ تمام ادیان امن، محبت، انسانیت کی خدمت اور فلاح و نجات پر زور دیتے ہیں اور لوگوں میں مثبت، تعمیری، محبت، خدمت، امن اور فلاح پر مبنی رویوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔
معاملہ چاہے بین المسالک و بین المذاہب ہم آہنگی کا ہو یا مختلف نسلی، لسانی اور مذہبی گروہوں کے درمیان مکالمہ کا، سماجی و سیاسی تنازعات کے حل کا ہو یا فرقہ واریت اور انتہاپسندی کے سد باب کا ہو، سب کا نقطہ آغاز تنوع کو سمجھنا اور اس کا احترام ہے۔ گالی اور گولی کی زبان جبر کی علامت ہے اور جبر تنوع کی نفی کا عملی ثبوت ہے۔ اگر ہم ایک خوشخال، پُر امن اور مستحکم پاکستان کا خواب دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ پاکستان تنوع میں جی کر ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ تنوع میں جینے کے درس کو عام کر کے ہی پُرامن بقائے باہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ۔ پھر ہمیں پاکستانی متنوع معاشرے کے گمشدہ راز یعنی تنوع کو تلاش کرنا، سمجھنا اور تسلیم کرنا ہوگا ۔
تنوع کے بغیر زندگی کا تصور!!
اگر انسان کی خلقت، سوچ، خواہشات، خیالات، رجحانات، رویے اور کردار ہر لحاظ سے یک رنگ ہوتا ، تو انسان پتھر کی طرح منجمد مخلوق بن جاتا جسے کسی تعلیم و تربیت، ترقی و تعمیر اور معاشرت و معیشت کی ضرورت ہی نہ رہتی۔
اگر یہ تنوع ختم ہو اور سب ایک ہی طرح کا پیشہ، علم، تجربہ وغیرہ اختیار کریں تو اس دنیا میں انسانی معاشرہ نہ صرف چل نہیں سکتا بلکہ اس کا منجمد ہونا اور ختم ہونا یقینی ہے۔
آپ ذرا تصور کر لیں کہ سارے انسان ایک ہی شکل، رنگ اور جسامت کے ہوں،
سب کے خیالات، سوچ اور صلاحیتیں ایک جیسے ہوں،
سب کی ضروریات، دلچسپیاں ایک طرح کی ہوں۔ سب کی معلومات، تجربات، پیشے ایک طرح کے ہوں۔
سارے درختوں، پھلوں، سبزیوں، پرندوں، حشرات، حیوانات انواع و اقسام کے ہونے کے بجائے صرف ایک ہی قسم کے ہوں۔
آوازیں، ذائقے، رنگ، حرارت، روشنی، سائز، شکل، کیفیت و کمیت اور حجم میں ایک سے زیادہ قسم کا تصور ہی نہ ہو۔
شاید ایسی دنیا بے کیف، بدحال، سڑی ہوئی اور پژمردہ، منجمد، بے رنگ، بے ذائقہ بن جائے۔
تنوع کے موضوع پر ہمارے گزشتہ کالم کو قارئین اس لنک پر پڑھ سکتے ہیں
https://ibcurdu.com/?p=4341 )