کچھ بھی ممکن ہے

صرف دو ماہ قبل تک کسی کے وہم و گمان میں بھی تھا کہ تیسری بار منتخب کئے گئے وزیراعظم نواز شریف کو مکھن سے بال کی طرح نکال باہر کیا جائے گا اور لیگی رہنما اور کارکنان بے بسی سے دیکھتے رہ جائینگے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ نوازشریف جو 2018ءکے انتخابات میں خیبر پختونخوا میں بھی حکومت بنانے کے دعوے کررہے تھے وہ آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کے اہل بھی نہیں رہیں گے۔ کیا کوئی تصور بھی کر سکتا تھا کہ جو میاں صاحب پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا عزم ظاہر کر رہے تھے ان کے اپنے پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچ لی جائے گی، کسی کو شائبہ تک بھی تھا کہ مسلم لیگ ن کے جو قائد فخریہ لہجے میں عالمی اداروں کی طرف سے ملکی معیشت کی مضبوطی کے اعتراف کو حکومتی کارنامہ بیان کررہے تھے وہ اپنی جائیداد کی خریدو فروخت کا اختیار بھی کھو دیں گے، کوئی ایک لمحے کیلئے بھی ذہن میں لا سکتا تھا کہ جو جمہوری وزیراعظم پرویزمشرف جیسے آمر کے احتساب کو منطقی انجام تک پہنچانے کی باتیں کر رہے تھے ان کے گھروں کے باہر احتساب عدالت کی طرف سے طلبی کے سمن چسپاں ہو جائیں گے۔ کوئی یقین کر سکتا تھا کہ جو نواز شریف پاکستان کو نومبر تک لوڈ شیڈنگ سے نجات دلانے کا اعلان کررہے تھے ان کی اپنی سیاسی دنیا اندھیر ہو جائے گی۔ کیا کسی کے تخیل میں بھی تھا کہ جاتی امرا کے جو رہائشی ہمسایہ ممالک کے ساتھ پر امن بقائے باہمی کے اصول کے تحت تعلقات قائم کرنے کی پالیسی وضع کر رہے تھے ان کی اپنوں کے ساتھ بھی نہیں بن سکے گی۔ کوئی مان سکتا تھا کہ بطور چیف ایگزیکٹو جو ایم کیو ایم کو لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے یقین دہانیاں کرا رہے تھے وہ خود ن لیگ کے کارکنوں کی جبری گمشدگی پر دہائیاں دے رہے ہوں گے۔ کوئی ایک لمحے کیلئے بھی فرض کر سکتا تھا کہ ایک آمر کے دور میں جلا وطنی ختم کرکے پاکستان واپس آنے والے شریف خاندان کے جو سربراہ عوام کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھا رہے تھے انہیں ان کی اپنی حکومت میں خود ساختہ جلا وطنی پر مجبور ہونا پڑے گا۔ کوئی اسے ممکن جان سکتا تھا کہ جس پارٹی کا نام ہی نواز کے بغیر نا مکمل ہوتا ہو اس کی صدارت برقرار رکھنے کیلئے انہیں کئی جتن کر کے قانون میں ترمیم کرانا پڑے گی۔ کسی کو بال برابر بھی شک گزر سکتا تھا کہ جس چھوٹے بھائی کا ذکر کئے بغیر بڑے بھائی کی تقریر مکمل نہیں ہوتی تھی وہ بھی انہیں اداروں سے ٹکراؤ کی سیاست نہ کرنے کے مشورے دے رہا ہوگا، کوئی وسوسے کا شکاربھی ہوسکتا تھا کہ جس چوہدری نثارکوڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھائے بغیر نواز شریف سفر نہیں کرتے تھے وہی ان کی حکومت پرتنقید کے نشتر برسانے والوں میں سب سے آگے ہوں گے حتیٰ کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا کردار تک ادا کرنے پر اتر آئیں گے۔ کسی نے سوچا تھا کہ جس صاحبزادی کو اپنا جانشین بنانے کیلئے نوا زشریف سیاسی تربیت کر رہے تھے، اسے بطور پارٹی لیڈر شرف قبولیت بخشنے کے خلاف پارٹی کے اندر سے ہی آوازیں اٹھنا شروع ہو جائیں گی۔ کوئی گمان میں بھی کر سکتا تھا کہ مسلم لیگ ن پر جن کالعدم تنظیموں کی سرپرستی کرنے کا الزام عائد کیا جاتا تھا لاہور کے ضمنی انتخابات میں وہی خم ٹھونک کر مقابلے میں آ جائیں گی۔
کوئی شبہے میں بھی مبتلا ہو سکتا تھا کہ جس پنجاب حکومت کی کارکردگی کو آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کی فتح کیلئے ٹرمپ کارڈ سمجھا جا رہا تھا وہ ضمنی الیکشن سے ایسے لاتعلق ہو جائے گی کہ دوران انتخاب وزیر اعلیٰ صاحبزادے سمیت ملک سے ہی باہر چلے جائینگے۔ اور کیا کہیں کوئی ایسی سوچ بھی پائی جاتی تھی کہ آئندہ تیرہ سالوں میں پاکستانی معیشت کو دنیا کی تیس بڑی معیشتوں میں شامل کرنے کا دعویٰ کرنے والے وفاقی وزیراپنے دفتر تو کیا پاکستان کا رخ بھی نہیں کرسکیں گے، کوئی تصور بھی کر سکتا تھا کہ ایک ہی سانس میں معاشی اشاریوں کا گزشتہ ادوار حکومت سے موازنہ کرنے اور میثاق معیشت طے کرنے کی پیشکش کر نیوالے وزیر خزانہ صاحب ملکی معیشت کی ناؤ کو بیچ منجدھارچھوڑ کر چلتے بنیں گے۔ کوئی یقین کر سکتا تھا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کی طرف سے چھٹا بجٹ بھی پیش کرنے کا عزم ظاہر کرنے والے وفاقی وزیر خزانہ اپنے ذاتی مالیاتی امور کا حساب دینے کی بجائے چھپتے پھریں گے۔ کسی کو وہم بھی ہو سکتا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے حدیبیہ پیپرز ملزکے جس تاریخی مقدمے کو ختم کرنے سے جو خاندان چین کی جو بانسری بجا رہا تھا اسے اسی خاندان کے ساتھ ’مکمل انصاف‘ کرنے کیلئے دوبارہ کھول دیا جائے گا۔ قارئین کرام اس فہرست میں ایسی بے شمار انہونیاں موجود ہیں جو صرف گزشتہ چند دنوں میں ہونی میں تبدیل ہوئیں اور یقیناً یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر طرف بے یقینی کی فضا قائم ہے۔ جہاں سے گزریں،کسی محفل میں چلے جائیں جس سے ملیں ہر جگہ ایسے ہی سوالات سننے کو ملتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے،کیا ہونے جا رہا ہے،آئین میں عام انتخابات کے انعقاد کے واضح اوقات کار دیئے گئے ہیں لیکن مجھ سمیت کوئی اعتماد کرنے کو تیار نہیں کہ عام انتخابات آئندہ سال مقررہ وقت پر ہی منعقد ہوں گے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ نا اہل قرار دے چکی لیکن مستقبل میں ان کے سیاسی کردار کے تعین کیلئے پس پردہ ڈیل کی باتیں پھر بھی زبان زد عام ہیں۔ الیکشن بل دو ہزار سترہ کی ایوان بالا سے بھی منظوری کی صورت میں پارٹی صدارت کیلئے راہ ہموار ہونے کے بعد بھی سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ نواز شریف ہی دوبارہ پارٹی صدارت سنبھالیں گے یا شہباز شریف پر اعتماد کرینگے،یہ بحث بھی عام ہے کہ احتساب کی بھٹی سے اس بار بھی شریف خاندان سرخرو ہو کر نکلے گا یا اس کا شیرازہ منتشر ہو جائے گا، چوہدری نثار کی طرف سے پارٹی میں الگ دھڑا بنانے کی اطلاعات کی واضح تردید کے باوجود پوچھا جاتا ہے کہ ان کااختلاف صرف تنقید کی حد تک محدود رہے گا یا وہ عام انتخابات تک نوازشریف سے اپنی راہیں جدا کر لیں گے۔
شہباز شریف بارہا یقین دہانی کرا چکے کہ وہ اپنی بھابھی کلثوم نواز کی تیمارداری اور نواز شریف سے ملاقات کیلئے لندن کا دورہ کر رہے ہیں لیکن پھر بھی یہ افواہیں عام ہیں کہ وہ واپس نہیں آئیں گے۔ سینیٹ کے عام انتخابات مارچ میں منعقد ہونے ہیں اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن واضح ہونے کے باوجود کسی کو یقین نہیں کہ یہ الیکشن شیڈول کے مطابق ہونگے اور حکمراں جماعت کو اسمبلیوں میں نشستوں کے تناسب سے سینیٹ میں برتری حاصل ہو جائے گی۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار کی لاہور کے ضمنی الیکشن میں ضمانت ضبط ہو چکی لیکن کامیاب جلسوں کے بعد یہ تاثر عام ہے کہ اسے عام انتخابات میں ’حصہ بقدر جثہ‘ دیا جائے گا۔ دوسری طرف نواز شریف کو مائنس کرنے کے بعد تحریک انصاف کے جلسوں میں شرکاکی سکڑتی ہوئی تعداد کی وجہ سے قیافے لگائے جارہے ہیں کہ امپائر نے کپتان کے سر سے دست شفقت اٹھا لیا ہے۔ ممکن ہے کہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمات میں عمران خان بھی نا اہل قرار دے دئیے جائیں۔ مائنس ون فارمولے کو دیگر سیاسی جماعتوں تک وسعت دینے کی کھسر پھسر بھی جاری ہے۔ ملک میں پارلیمنٹ کی موجودگی اور جمہوری سفر کے تسلسل کے باوجود ٹیکنو کریٹ حکومت یا صدارتی نظام جیسے شگوفے ھی چھوڑے جا رہے ہیں۔اس بے یقینی کی وجہ صرف یہ کہ جس معاشرے میں ڈیڑھ کروڑ ووٹ لینے والا جمہوری رہنما نا کردہ جرم کی پاداش میں پل بھر میں ملزم ٹھہرا دیا جائے، جہاں مذہب کے نام پرووٹ لے کر جمہوری نظام کا حصہ بننے والی جماعت کا سربراہ چیئرمین نیب کی تقرری کا اختیار سپریم کورٹ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرے، جہاں اپنے قائد کی نا اہلی کے بعد حکمراں جماعت کے چالیس ارکان قومی اسمبلی نیا قبلہ رخ پوچھنے فورا راولپنڈی جا پہنچیں( لیکن ماضی کے برعکس اس بار انہیں شٹ اپ کال ملے) اور جہاں عوامی نمائندگی کی دعویدارعائشہ گلا لئی پارلیمان کے داخلی دوازے پر کھڑے ہو کرپرویز مشرف جیسے آمر کو سیاست دانوں سے زیادہ ایماندار اور سچا قرار دے وہاں کچھ بھی ممکن ہے جی ہاں کچھ بھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے