ٹھہریے،،،کہیں آپ دودھ کی جگہ زہر تو نہیں پی رہے؟
دودھ ایک مکمل غذااور رب کریم کی عظیم نعمت ہے۔اسے اشیائے خوردونوش میں بنیادی اہمیت ہے یہ بچوں اور بڑوں دونوں کیلئے یکساں مفید ہے۔دودھ انسان کو پروٹین، چکنائی، کاربوہائڈریٹ، کیلشیم، میگنیشم اوروٹا منز فراہم کرتا ہے۔ تاہم لالچی لوگوں نے ملاوٹ سےاسے موت بانٹنے والا ایندھن بنادیاہے۔ایک زمانہ تھا کہ دودھ میں پانی ملانے کی شکایات زبان زد عام تھیں اس زمانے میں لوگ گوالوں کو کہتے تھے "یار” پانی ملا لو لیکن جوہڑ کی بجائے صاف پانی ملایا کرو تاکہ بچوں کا پیٹ تو خراب نہ ہو۔تاہم آج جو دودھ ہم استعمال کر رہے ہیں وہ یا تو دودھ ہی نہی بلکہ مختلف کیمیکلز کا مرکب ہے یا ایسی زہریلی آلائشوں سے بھرا پڑا ہے جو ہوشربا ہیں۔آج دودھ میں پانی کے ساتھ ڈیٹرجنٹ، سینیتھک ملک،فارملین، یوریا، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین،نمک،ہائیڈروجن پیرا آکسائڈ، پنسلین، بال صفا پاؤڈر، بوریکس، ایمونیم سلفیٹ وغیرہ کی بھی آمیزش ہورہی ہے۔بیکنگ سوڈا اور کاسٹک سوڈا تو عام ان پڑھ گوالے بھی ملاتے ہیں تاکہ صبح کا دودھ شام آنے والی گاڑی کو صحیح حالت میں دےسکیں۔
مسلسل ملاوٹ شدہ دودھ پینے سے انسان موت کے منہ میں پہنچ جاتا ہے،ملاوٹ شدہ دودھ کے ذریعے انسان کو نشانہ بنانے والی بیماریوں اور طبی خرابیوں میں ٹائیفائیڈ، ہیضہ، پیٹ کے امراض، ہڈیوں اور جلد کی بیماریاں، ہیپاٹائٹس، ہائپر ٹینشن، تیزابیت، غنودگی طاری رہنا، ذہانت میں کمی، بال جھڑنا، بالوں کا قبل از وقت سفید ہو جانا، بچوں کی وقت سے پہلے پیدائش ہونا، صبر و برداشت میں کمی، گردوں کی خرابیاں، غم و غصے میں اضافہ، دل کی شریانوں کے امراض شامل ہیں۔اگر دودھ میں ڈیٹرجنٹ ملا ہوا ہو تو وہ فوڈ پوائزننگ اور معدے کی دیگر پچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے جبکہ دیگر کیمیکلز سے امراض قلب اور جان لیوا امراض کا خطرہ بڑھ جاتاہے۔ملاوٹ والا دودھ صحت کا دشمن ہی نہیں بلکہ دیگر خطرناک بیماریوں کے علاوہ کینسر جیسی موذی مرض کا باعث بھی بن رہا ہے نوری ہسپتال کے ڈاکٹرز کے مطابق معدے اور جگر کے کینسرسمیت کینسر کی متعدد اقسام کی وجہ یہی ملاوٹی دودھ اور دیگر اشیاء ہیں۔لڑکیوں میں بانچھ پن کی اہم وجہ بھی دودھ میں 50 فیصد تک اضافے کیلئے جانوروں کو آکسی ٹوسین (Oxytocin)اوربوائنsomatotropin Bovine جسے ہارمون انجیکشنز لگانا ہے۔ گویا ٹیکا لگانے سے گوالے کو ایک جانور سے پانچ کلو کے بجائے نو دس کلو دودھ ملتاہے تاہم یہ ہماری بچیوں کو بانچھ اور متعدد پیچیدگیاں پیدا کر رہے ہیں۔ ایسے ایسے کیمیکل دودھ میں شامل کیئے جارہے ہیں جو کسی طور بھی زہر سے کم کا درجہ نہیں رکھتے۔
آج دودھ، دہی کی جتنی دکانیں نظر آرہی ہیں پچھلی تین دہائیوں سے نہیں بنیں۔ اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن کےسب سیکٹر فور میں تین چھوٹی مارکیٹس میں دودھ کی 13 دکانیں ہیں۔جبکہ میرے یہاں 32 سال سے مقیم عزیزوں کا کہنا ہے کہ پشاورموڑ مارکیٹ میں بھی کوئی دکان نہیں تھی کراچی کمپنی جانا پڑتا تھا یا گوالے دیتے تھے۔ذرا سوچئے کہ پاکستان گائے بھینسوں کی نسل میں اتنازیادہ اضافہ کیسےہوگیا ہے اور اتنی وسیع و عریض سپلائی کیسے ممکن ہوگئی جناب اس میں بیشتر جعلی دودھ ہے۔ سندھ،بلوچستان او خیبر پختونخواہ میں حالات انتہائی خراب ہیں اور پنجاب میں بھی فوڈ اتھارٹی ایکشن تو لے رہی ہے تاہم ان کے ایکشن لاہور اور فیصل آباد کے علاوہ دوسرے شہروں میں نظر نہیں آرہے ۔
پاکستان دودھ کی پیداواری دینے والا تیسرا بڑا ملک ہے،ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال40 ارب لیٹر دودھ پیدا ہوتا ہے۔ جو تقریباً تریسٹھ لاکھ گائیںوں اور بھینسیوں سے ملتا ہے۔ دودھ کے کاروبار سے دس لاکھ خاندان وابستہ ہیں اور مقامی ضروریات کے علاوہ اس کو ٹریٹمنٹ کے بعد ایکسپورٹ بھی کیا جاتا ہے۔تو سوال یہ ہے کہ اضافی دودھ کہا سے آرہا ہے۔؟؟؟
مغربی ملکوں میں غذائی اشیاءمیں ملاوٹ کا تصور تک نہیں کیونکہ وہاں ملاوٹ کوقتل سے بڑا جرم قرار دیا جاتا ہے اور ایسے فعل کے مرتکب افراد کیلئے سخت ترین سزائیں ہیں۔ہمسایہ ملک چین میں ایسے انسانیت سوز جرائم میں موت تک کی سزائیں ہیں۔ ہمارے ہاں قانون کے مطابق دودھ میں ملاوٹ کرنے والوں کو صرف چھ ماہ تک قید کی سزا اور معمولی جرمانے ہیں جو بالکل ناکافی ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے دودھ سے متعلق کیس کی سماعت میں کہا کہ بچوں کو زہر پلانے کی اجازت نہیں دیں گے۔انہوں نے کہا کہ پی سی ایس آر لیبارٹری کی رپورٹ میں ثابت ہو چکا ہے کہ کھلے دودھ کے علاوہ ڈبہ بند دودھ میں ڈیٹرجنٹ پاوڈراور کیمیائی مادے استعمال کئے جارہے ہیں۔
میرا اپنے گھر والوں کے سامنے موقف ہے کہ ڈبے والا دودھ تو مارکیٹ میں پڑا ہے اس کو کسی بھی وقت کسی عدالت یا فورم پر چیلنج کیا جاسکتا ہے،ایک غیر ان پڑھ دودھی کے ہاتھ میں بچوں کی صحت کیوں دوں۔۔۔! آج بھی سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود روزانہ ہزاروں لیٹر جعلی دودھ پکڑا جاتا ہے یقیناایسا اربوں لیٹر دودھ ہم روزاستعمال کررہے ہیں۔یہ معاملہ انتہائی حساس ہے،اس پر صرف نظر نسلوں کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔فوڈ انسپیکٹرز کے رشوت کے نیٹ ورک سے جان چھڑا کر ملک بھر میں اس معاملے کو ایڈریس کرنے کیلئے ریگولیٹری اتھارٹی تشکیل دی جانی چاہیے جبکہ دودھ میں ملاوٹ کرنے والوں کو سخت سے سخت سزائیں ملنی چاہییں، حکومت اس کے لیے فی الفور قانون سازی کرے اور دودھ سمیت کھانے میں ملاوٹ کی سزا موت یا کم از کم عمر قید ہونی چاہیے تبھی ہم اس ناسور سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔