یہ تراڑکھل ہے…….! گورنمنٹ سٹی مڈل سکول تراڑکھل ایک نظر !
پرانے ادوار میں تعلیم کی کمی ضرور تھی مگر کام اچھے ہوتے تھے، نال تول میں کمی نہ ملاوٹ۔۔۔۔ اور تو اور بیماریاں بھی اتنی زیادہ نہیں ہوتی تھیں۔ لوگ کچے گھروں میں رہتے تھے اور کئی کئی خاندان ایک گھر میں آباد ہوتے تھے۔ جی میں بات کر رہا ہوں 1947 کے بعد کی جب ہمارے اباؤاجداد ہجرت کر کہ پاکستان آئے تھے۔ ہم اکثر امی ابو سے ہجرت کے قصے سنا کرتے تھے۔
لیکن ہجرت کے بعد جب آزاد کشمیر کو اپنا سفری گھر سمجھ کر لوگ یہاں رہنے لگے تو آہستہ آہستہ ان میں شعور بیدار ہونے لگا اور ان کو محسوس ہوا کہ ان کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنا چاہیئے۔ تراڑکھل “ہولڈنگ”(بالیماں) جو آزادکشمیر فوج کا ٹریننگ کیمپ بھی رہا شہر سے دو کلومیٹر کی دوری پر تھا۔ تراڑکھل میں وقت کے ساتھ ساتھ آبادی میں اضافہ ہوتا گیا اور یوں ایک شہر بھی تعمیر ہونے لگا۔
تراڑکھل شہر کی ضروریات میں اولین ہسپتال اور سکول تھا مگر سکول پہلے تعمیر ہوا۔ 1948میں تراڑکھل میں ایک سرکاری سکول تعمیر کیا گیا جو بعد ازاں سٹی مڈل سکول تراڑکھل کے نام سے مشہور ہوا۔ اس سکول سے فارغ التصیل طلبہ آج ہر شعبہ زندگی میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔
راقم خود بھی 1992-95 تک اسی ادارے میں زیرتعلیم رہا۔ ان تین سالوں میں اس سکول میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اس سکول کی حالت اس وقت بھی اس قابل نہ تھی کہ اس میں ساون کے مہینے میں کلاسز ہوں، چھت اس وقت بھی ٹپکتی تھی اور شہر کی ساری کندگی کھڑکیوں سے اندر پانی کے ساتھ آتی تھی۔
آج کے اس جدید دور میں جہاں گاؤں والے بھی اپنے “ڈربے” کو ساون کے مہینے ایک محفوظ چھت فراہم کرتے ہیں تاکہ انکی مرغیاں اور چوزے پانی میں بھیگ نہ جائیں ، وہاں سٹی مڈل سکول تراڑکھل میں کوئی خاطر خواہ بندوبست موجود نہیں ہے۔ اساتذہ محفوظ ہیں نہ بچے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ تراڑکھل شہر میں پیپلزپارٹی کے اعلی عہدیداران بھی رہتے ہیں اور مسلم لیگ ن کے مرکزی نائب صدر کا تعلق بھی تراڑکھل سے ہے۔ آزادکشمیر حکومت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ سٹی مڈل سکول سے ملحقہ انٹرکالج کی عمارت کو ڈگری کالج کا درجہ دے کر ایک خوبصورت بلڈنگ تو دے دی مگر 1948 سے قائم شدہ سٹی مڈل سکول کو ایک ٹوائلٹ تک سرکاری خرچ پر نہ مل سکا۔ اور اس سکول میں ہر سال سینکڑوًں کی تعداد میں گرد و نواح سے بچے داخل ہوتے ہیں.
سکول کی موجودہ عمارت کسی طور بھی اس قابل نہیں کہ اس میں کلاسز معمول کے مطابق جاری رکھی جا سکیں. یہ عمارت کسی بھی وقت کسی بڑے حادثے کا شکار ہو سکتی ہے.
سٹی مڈل سکول تراڑکھل کے حوالے سے وہاں کے ایک مدرس عبدالروف نے بتایا کہ اس سکول کی سرکاری کوئی زمین ہے نہ ہی کوئی کاغذات ہیں، برسوں سے شہر کے نام پر چلنے والا یہ سکول اپنی مدت حیات بھی مکمل کر چکا ہے مگر جیسا کہ میں نے شروع میں لکھا تھا کہ پرانے زمانے کی اصل سیمنٹ سے تیار کردہ ہے تو آخری پتھر گرنے تک کھڑا رہے گا۔ اسی کی دہائی میں بننے والے سکول بھی اب زمین بوس ہو رہے ہیں۔
گورنمنٹ پرائمری سکول بالیماں کی خستہ حال عمارت !
راقم کا تعلق تراڑکھل کے نواحی گاؤں بالیماں سے ہے اور پرائمری سکول تک تعلیم بھی وہاں سے حاصل کی لیکن ناقص میٹریل کے استعمال سے آج وہ سکول جنگل کے اس مکان کی سی شکل اختیار کر چکا ہے جیسے وہاں کے مکینوں نے دور کہیں شہر میں گھر بنا لئے ہوں اور اس گاؤں میں اب ان کا کوئی نہ رہتا ہو۔
سابقہ سپیکر اسمبلی سردار غلام صادق کو پرائمری سکول بالیماں کا دورہ اس وقت کروایا گیا جب سکول پر درخت گرنے سے عمارت کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ مگر سردار غلام صادق نے اپنا ٹی اے ڈی اے تو وصول کر لیا مگر عملی طور پر سرکار کے خزانے سے اس سکول کے لئے کچھ بھی امداد جاری کرنے سے قاصر رہے۔
میرے نزدیک تراڑکھل کی تقسیم اس انداز میں ہوئی ہے کہ نہ تو اسے ایل اے اٹھارہ سے فائدہ پہنچتا ہے نہ ہی سدہنوتی والے اس طرف دیکھتے ہیں۔ اصل میں تراڑکھل کا کوئی ایک انتخابی حلقہ ہونا ضروری ہے ورنہ پلندری والے ترقیاتی کاموں کو ناڑکنیاٹی تک ہی محدود کر دیں گے اور ایل اے اٹھارہ والے حسب سابق ہجیرہ اور دیوی گلی تک۔۔۔۔۔!
آج کے اس جدید دور میں جہاں ہر کوئی اپنے چھوٹے بچوں کو نجی سکولوں میں تعلیم دلوانا پسند کرتا ہے وہاں یہ گورنمنٹ کے سکول بھی غریب کے بچوں کو ان کے خوابوں کی منزل تک پہچانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور یہ اسی طرح ہے جیسے اخبار کے بعد جب ریڈیو ایجاد ہوا تو لوگوں نے سمجھا کہ اب اخبار کون پڑھے گا، پھر ٹیلی ویژن کے آنے پر ریڈیو اور اخبار اثرانداز ہونے کا خدشہ رہا۔ اب جبکہ دنیا سوشل میڈیا تک رسائی حاصل کر چکی ہے۔ مگر اخبار بھی چھپتا ہے، ریڈیو بھی سنا جاتا ہے اورٹی وی سمیت سوشل میڈیا بھی مقبول عام ہیں۔