الیکشن 2018:سیاسی جوڑ توڑ،غیرجمہوری قوتوں کی مداخلت اورعدالتی مقدموں میں گھری جمہوریت کامنظرنامہ

پاکستان میں عام انتخابات 2018ء کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں ۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں دوسرا موقع ہے کہ منتخب اسمبلیاں اپنی آئینی مدت مکمل کر کے نئے انتخابات میں جارہی ہیں۔ ماضی کی تاریخ زیادہ اچھی نہیں ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بڑا حصہ فوجی مداخلتوں اور مارشل لاؤں پر محیط رہا ہے ۔ سابق فوجی آمر جنرل مشرف کے دور میں بھی اسمبلی نے اپنی آئینی مدت تو مکمل کی تھی لیکن اسے ان حالیہ دو ادوار کے ساتھ تشبیہہ نہیں دی جا سکتی کیونکہ اس اسمبلی پر مکمل طور پر غیر جمہوری قوتوں کا سایہ تھا ۔ اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008ء میں حکومت بنائی تو امید بندھی کہ اب جمہوریت کا سفر رواں رہے گا ۔ اس امید کا پس منظر پاکستان پیپلزپارٹی کی مقتول سربراہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیاں 2006 میں ہوا میثاق جمہوریت تھا ۔

بے نظیر کے بعد اُن کی واحد ملک گیر سمجھی جانی والی پیپلز پارٹی کی سربراہی ان کے شوہر آصف علی زرداری کے ہاتھ آئی اور انہوں نے اسے اپنے انداز میں چلایا ۔ نواز شریف اور ان کی جماعت مسلم لیگ نواز نے پیپلزپارٹی کے دور میں فرینڈلی اپوزیشن کی لیکن آصف علی زرداری کی حکومت کو عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مسلسل دباؤ میں رکھا گیا ۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر ایسی مہمیں پرزور انداز میں چلائی گئیں جن کا مقصد آصف زرداری اور ان کی ٹیم کو بدعنوان ثابت کرنا تھا ۔ کئی نجی چینلز پر حالات حاضرہ کے پروگرام کرنے والے میزبان ہر رات حکومت کے خاتمے کا مژدہ سنایا کرتے تھے اور اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری بھی خوب سرگرم تھے ۔ جوڈیشل ایکٹوزم کی اصطلاح اس زمانے میں بہت استعمال ہوئی کیونکہ افتخارچوہدری تسلسل کے ساتھ ازخود نوٹس لے رہے تھے ۔ اس وقت پاکستان کے امریکا میں سفیر حسین حقانی کے خلاف میموگیٹ اسکینڈل بھی سامنے لایا گیا۔ نواز شریف بھی اس حکومت مخالف مہم کا حصہ بنے اور زرداری حکومت کے خلاف تند وتیز بیانات دیے ۔ 2008ء سے 2013ء کے درمیان پاکستان کے قومی اخبارات میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی توصیفی خبریں تواتر سے شائع ہوتی رہیں۔

جب پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری چندماہ رہ گئے تو لوڈ شیڈنگ کے مسئلے نے سر اٹھایا اور حکومت کی خوب درگت بنی اور اگلے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی شکست میں اس غصے نے بھی اہم کردار ادا کیا جو لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے عوام میں پیدا ہوا تھا ۔ اس دوران پیپلز پارٹی کے وزیراعظم گیلانی کو سزا سنا کر نااہل بھی قرار دیا گیاتاہم کسی نہ کسی طرح اس حکومت نے اپنی مدت مکمل کر لی۔

مسلم لیگ نواز 2013ء میں اقتدار میں آئی تو شروع ہی سے اسے آزمائشوں کا سامنا رہا ۔ انتخابات کے کچھ عرصہ بعد ملک کی ابھرتی ہوئی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگایا اور چار انتخابی حلقوں کی ازسر نو جانچ کا مطالبہ کر دیا ۔ ان کا مطالبہ حکومت کی جانب سے پورا نہ ہواتو انہوں اگست 2014ء میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں آزادی مارچ کے نام سے دھرنا دیا جو 126دن تک جاری رہا ۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے طویل دورانیے کا احتجاجی دھرنا تھا ۔ ایک اور مذہبی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک نے طاہر القادری کی سربراہی میں اس دھرنے کا ساتھ دیا ۔ دونوں دھرنا قائدین کا مطالبہ تھا کہ نواز شریف اپنے عہدے سے استعفا دیں لیکن نواز شریف ڈٹے رہے ۔

بہت سے سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ ان دھرنوں کو غیر جمہوری قوتوں کی پس پردہ حمایت حاصل ہے اور اس کے ایک سے زائد شواہد بھی سامنے آتے رہے ۔ اس دھرنے کے دوران ایسے بھی مرحلے آئے کہ عمران خان کو اقتدار بہت قریب دکھائی دیا لیکن حزب اختلاف کی بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے ماضی میں مسلم لیگ نواز کی جانب کی کی گئی فرینڈلی اپوزیشن کا بدلہ بھی اسی انداز میں دیتے ہوئے نواز شریف کا ساتھ دیا اور نواز شریف کو استعفا نہ دینے کے فیصلے کا قائم رکھا ۔ باخبر لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ نواز شریف ان دھرنوں سے خوفزدہ ہو گئے تھے اور وہ ذہنی طور پر استعفے کے لیے تیار بھی ہو گئے تھے لیکن ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے ان کا ساتھ دے کر ان کی ہمت بندھائی ۔

دھرنے کے اچانک بے نتیجہ ختم ہونے پر تحریک انصاف کی قیادت اور کارکن سبھی مایوس ہو چکے تھے کہ 2016میں پاناما پیپرز افشا ہو گئے جن میں نواز شریف اور ان کے بیٹوں کے نام شامل تھے ۔ تحریک انصاف جس کے پاس سیاست کے لیے کوئی اہم ایشو نہیں بچا تھا ، ایک بار پھر سرگرم ہوئی ۔ سپریم کورٹ میں کیس چلا ، ایک جے آئی ٹی بنی اور کئی ماہ کی مسلسل سماعتوں کے بعد 28جولائی 2018 نواز شریف کو وزرات عظمیٰ کے عہدے کے لیے نااہل قرار دے کربرطرف کر دیا گیا ، اس پر بس نہیں ہوئی بلکہ اس سیاسی نااہلی کو تاحیات قرار دیا گیا اور انہیں اپنی سیاسی جماعت مسلم لیگ نواز کی قیادت سے بھی ایک عدالتی حکم کے ذریعے ہٹا دیا گیا ۔ یہ تحریک انصاف کے لیے فتح اور سرشاری کا لمحہ تھا جس کا اس نے چار برس انتظار کیا تھا ۔

نواز شریف کی نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی نے نوماہ بطور وزیراعظم کام کیا لیکن انہیں غیر جمہوری قوتوں کی جانب سے مسلسل دباؤ میں رکھا گیا۔اس دوران ملک میں آزادی اظہار رائے کی صورت حال بھی مخدوش رہی اور کئی میڈیا چینلز حکومت مخالفت مہم چلاتے رہے ۔ نواز شریف کی حامی چینلز اور تجزیہ کاروں کو سنسرشپ کا سامنا رہا ہے ۔ یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں۔

[pullquote] الیکشن 2018ء کن حالات میں ہو رہے ہیں؟[/pullquote]

پاکستان کے جمہوری حلقوں میں ایک طرف یہ خوشی ہے کہ حکومت نے جیسے تیسے اپنی آئینی مدت مکمل کر لی ،ایک اندیشہ انہیں البتہ لاحق ہے کہ ماضی کی طرح اب کی بار بھی سیاسی عزائم رکھنے والی غیر جمہوری قوتیں انتخابات کو متاثر کر سکتی ہیں ۔ اس وقت مسلم لیگ نواز خسارے میں دکھائی دیتی ہے اور پیپلز پارٹی جیسی ماضی کی ملک گیر جماعت محض ایک صوبے تک محدود نظر آتی ہے ۔ ٹی وی اسکرینوں ، سوشل میڈیا اور اخبارات میں تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف اونچا دکھایا جا رہا ہے ۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے چہرے کافی پراعتماد دکھائی دیتے ہیں ۔ انہیں یقین ہے کہ پاکستان میں دائمی قوت کے حامل ادارے اب کی بار ان کی مکمل حمایت کر رہے ہیں ۔پاکستانی سیاست کی ایک منفرد اصطلاح ”الیکٹبلز” ہے ، الیکٹبلز سے مراد وہ مخصوص لوگ ہیں جو اپنے علاقائی یا خاندانی اثر رسوخ کی بنیاد پر ووٹوں کی اتنی بڑی اور یقینی تعداد ہمیشہ اپنی جیب میں رکھتے ہیں جو ان کی مستقل جیت کا سامان کرتی ہے ۔ وہ مکمل طور پر کسی بھی سیاسی پارٹی کے ٹکٹ کے محتاج نہیں ہوتے ۔ یہ لوگ بڑے کاروباری ، جاگیردار اور وڈیرے ہوتے ہیں جو اکثرغیر جمہوری اداروں کے ا شارے پر پارٹیوں کا انتخاب کرتے ہیں ۔ حالیہ چند ماہ میں یہ سارے الیکٹیبلز بہت تیزی سے پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں ۔ ان پھرتیوں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی آئندہ حکومت میں سب سے زیادہ نمائندگی کس سیاسی جماعت کی ہوگی ۔

دوسری جانب مسلم لیگ نواز کے سابق سربراہ نواز شریف ، ان کی بیٹی مریم نواز، بیٹے حسن نواز اور حسین نواز کے خلاف قومی احتساب بیورو(NAB) میں منی لانڈرنگ اور کرپشن کے مقدمے کی سماعت بھی اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ نواز شریف اپنی بیٹی کے ہمراہ 90 سے زائد پیشیاں بھگت چکے ہیں ۔ اور امکان یہ ہے کہ الیکشن سے قبل ان کو سزا سنا دی جائے گی ۔ نواز شریف چاہتے ہیں کہ احتساب عدالت کا مقدمے کا فیصلہ الیکشن کے بعد ہو تاکہ الیکشن کے نتائج پر اس کا کم سے کم اثر پڑے ۔

[pullquote] الیکشن 2018ء میں منفرد کیا ہے؟[/pullquote]

پاکستان میں ٹھیک 23 دن بعد ہونے والے عام انتخابات کے لیے جاری مہموں میں بہت کچھ نیا دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ یہ پہلی مرتبہ دیکھا جا رہا ہے کہ ملک کے مختلف انتخابی حلقوں میں سیاسی دورے کرنے والے امیدواروں کو مقامی لوگوں کی جانب سے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ صوبہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کے علاقے رونگھن میں مسلم لیگ نواز کے رہنما سردار جمال خان لغاری کی گاڑی کو روک کر نوجوانوں نے پانچ سال تک عوام سے دور رہنے اور ترقیاتی کام نہ کروانے کے بارے میں سوالات کیے ۔ایک قبائلی سردار کے لیے یہ بالکل غیر متوقع تھا ۔ اسی طرح ایک اور سابق وفاقی وزیر سکندر حیات بوسن جب اپنے انتخابی حلقے میں گئے تو لوگوں نے ان کی گاڑی کے سامنے ”لوٹے لوٹے” کے نعرے لگائے ۔ سکندر حیات بوسن نے کچھ عرصہ قبل مسلم لیگ نواز کو چھوڑ کرپاکستان تحریک انصاف جوائن کی لی تھی جس پر ان کے حلقے کے لوگ کافی ناراض تھے۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں سابق قائد حزب اختلاف رہنے والے خورشید شاہ کو سندھ کے علاقے پنوں عاقل میں جلسے کے بعد ایک نوجوان نے روک کے حلقے کی پسماندگی کے بارے میں سوالات کیے اور پوچھا کہ آپ نے حلقے میں دس سال کیا کام کیا؟سندھ کی وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کو ان کے گھر باہر حلقے کے عوام کے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔

اسی طرح سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک کے ذریعے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اپنے سیاسی نمائندوں پر ان کی کارکردگی سے متعلق سوال اٹھا رہی ہے ۔ یہ بہرحال ایک خوش آئند تبدیلی ہے ۔ ماضی میں ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ ایک اور منفرد پہلو ایک سخت گیر مذہبی جماعت تحریک لبیک کی الیکشن میں شمولیت بھی ہے۔ اس تحریک نے ممتاز قادری نامی شخص کی پھانسی کے بعد جنم لیا تھا۔ممتاز قادری پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کا سرکاری محافظ تھا اور اس نے توہین مذہب کےالزام کے بعد سلمان تاثیر کو قتل کر دیا تھا ۔

تحریک لبیک اکثریتی مسلم فرقے کی نمائندہ کے طور پر سامنے آئی ہے اور اس تحریک نے ختم نبوت کے قانون میں مبینہ تبدیلی کی حکومتی کوشش اور ممتاز قادری کی پھانسی کو بنیاد بنا کر سیاسی مہم شروع کر رکھی ہے ۔ یہ جماعت اگرچہ بہت زیادہ ووٹ نہیں لے سکتی لیکن مذہبی جذبات کی مدد سے کسی بھی سیاسی امیدوار کی شکست اور فتح میں موثر کردار ادا کر سکتی ہے ۔ مسلم لیگ نواز کے لیے یہ جماعت ایک واضح خطرہ ہے ۔ کیونکہ مذکورہ بالا تمام اقدامات جن نے اس جماعت کے پیروکاروں کو ناراض کیا ہے ، مسلم لیگ نواز کی دور حکومت میں کیے گئے ہیں۔

[pullquote] کیاالیکشن ملتوی ہو سکتا ہے؟[/pullquote]

چند دن قبل تک یہ ایک بڑا سوال تھا ۔ اس کی بڑی وجہ ماضی کی غیر یقینیت پر مبنی سیاسی تاریخ تھی ۔ایک اور وجہ سیاسی پارٹیوں میں انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم پر پیدا ہونے والے تنازعات بھی تھے ۔پاکستان تحریک انصاف میں موسمی سیاسی پرندوں نے اتنی بڑی تعداد میں ہجرت کی تھی کہ پارٹی قیادت کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم بڑا چیلنج بن گئی ۔ تحریک انصاف کے دیرینہ کارکن قیادت سے اس لیے ناراض تھے کہ انہیں نظر انداز کر کے نئے آنےوالے افراد کو ٹکٹ جاری کیے گئے جبکہ عمران خان شعوری طور پر ایسے لوگوں کو ٹکٹ دینا چاہتے ہیں جو الیکشن جیت سکیں ۔ دوسرے لفظوں میں عمران خان بھی اب روایتی پاور پالیٹکس کے حربوں کو ہی اقتدار تک پہنچنے کی سیڑھی سمجھتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ تبدیلی لیڈر شپ لاتی ہے جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے پارٹی میں نچلی سطح پر کیسی شہرت کے حامل لوگ موجود ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کی لائن پر چلنے کی شہرت رکھنے والے کچھ اخباری تجزیہ کار الیکشن کے التوا میں موسم کا عنصر بھی نمایاں کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس قدر گرمی میں لوگ ووٹ دینے کے لیے باہر نہیں نکلیں گے جبکہ پاکستان کی جمہوری تاریخ کے ساتھ جڑی نزاکتوں پر نگاہ رکھنے والے لوگ خوفزدہ ہیں کہ اگر الیکشن اپنے مقررہ وقت یعنی 25 جولائی 2018 کو نہ ہوئے تو یہ التوا طویل ہو کر نئے سیاسی بحران کو جنم دے سکتا ہے ۔ اب صورت حال سے گرد کافی حد تک چھٹ چکی ہے ۔ کم وبیش سبھی بڑی سیاسی جماعتیں انتخابات کے بروقت انعقاد پر اصرار کر رہی ہیں اور الیکشن کمیشن اسی رفتار سے اپنا کام کر رہا ہے۔

[pullquote] سیاسی جماعتوں کی پوزیشن کیا ہے؟[/pullquote]

پاکستان کی انتخابی سیاست میں سب سے مؤثر کردارہمیشہ سے صوبہ پنجاب کا رہا ہے ۔ اس صوبے میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت ہی وفاقی حکومت میں مؤثر نمائندگی لیتی رہی ہے ۔ اب کی بار پنجاب میں مسلم لیگ نواز کے لیے کافی مشکلات ہیں ۔ جنوبی پنجاب کے درجنوں سیاسی رہنما جن میں دیہی پنجاب کے وڈیرے اور جاگیردار بھی شامل ہیں ، تحریک انصاف کی چھتری تلے جمع ہو گئے ہیں ۔ اس لیے توقع یہی ہے کہ تحریک انصاف دیہی پنجاب سے زیادہ نشستیں حاصل کر لے گی البتہ صوبائی دارالحکومت لاہور میں مسلم لیگ نواز کی پوزیشن بہت کمزور نہیں ہے ۔ صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی پوزیشن مستحکم ہے ۔ پیپلز پارٹی نے اپنی مہم کا بنیادی محور سندھ ہی کو بنایا ہوا ہے ، پنجاب سمیت باقی صوبوں میں اس پارٹی کی پوزیشن بہت کمزور ہے ۔ کراچی میں ماضی کی مؤثر ترین جماعت متحدہ قومی موومنٹ تقسیم در تقسیم کا شکار ہے جس کا زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی کو اور اس کے بعد تحریک انصاف کو ہو گا ۔ بلوچستان میں ابھی کچھ عرصہ قبل بنائی گئی نئی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی پوزیشن مستحکم ہے ۔ تأثر یہ ہے کہ اس پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی درپردہ حمایت حاصل ہے ۔ صوبہ پختون خوا میں گزشتہ پانچ سال تحریک انصاف کی حکومت رہی ہے ، وہاں اسی پارٹی کی پوزیشن مستحکم ہے ۔ پختون خوا صوبے میں مذہبی سیاسی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل بھی سرگرم ہے لیکن اب کی بار یہ اتحاد اپنے داخلی تضادات اور الیکشن کے لیے کوئی پرکشش نعرہ نہ ہونے سے سبب مقبول نہیں ہے ۔ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی پختون خوا میں پوزیشن اچھی نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ اس وقت کوئی بھی سیاسی پارٹی ایسی نہیں جسے ملک گیر شہرت کی حامل قرار دیا جا سکے۔

[pullquote] مستقبل کامنظر نامہ کیا بنے گا؟[/pullquote]

پاکستانی سیاست میں اتفاقات کا دخل کافی رہتا ہے ۔ یہ اتفاقات بھی محض اتفاقات نہیں ہوتے بلکہ ان کا پس منظرہوتا ہے ۔ ابھی چند ماہ قبل ہوئے سینیٹ کے انتخابات میں ہوئی ہارس ٹریڈنگ اور سیاسی طور پر ایک گمنام شخص کی بطور چیئرمین سینیٹ کامیابی بھی ایک ایسا ہی ”سوچا سمجھا ” اتفاق تھا ۔ اس وقت لگتا یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف آمدہ انتخابات میں زیادہ نشستیں حاصل کر لے گی اور وفاق میں ایک ایسی مخلوط حکومت تشکیل پائے گی جس میں سب سے زیادہ نمائندگی تحریک انصاف ہی کی ہوگی ۔ اگر ایسا ہوا تو یہ حکومت اپنے فیصلوں خاص طور پر خارجہ امور کے باب میں مکمل طور پر مختار نہیں ہوگی۔ اسے اسٹیبلشمنٹ کے زیر اثر رہ کرچلنا ہوگا ۔عمران خان اگر بالفرض وزیراعظم بن بھی گئے تو یہ توقع رکھنا کہ وہ اسٹیٹس کو کا خاتمہ کردیں گے ، ابھی قبل از وقت اور بعید ازحقیقت ہے۔یہ بات البتہ طے ہے کہ نئی آنے والی حکومت جس سیاسی جماعت کی بھی ہو ، اسے سیاست میں اسٹیبلشمنٹ اور جوڈیشری کے بڑھتے ہوئے کردار کو محددو کرنے کے لیے کچھ فوری اور مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ جمہوری نظام ماضی کی طرح غیر مرئی بیساکھیوں کا محتاج ہی رہے گا۔

بشکریہ: ہفت روزہ نوائے جہلم، سری نگر

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے