سماجی ہم آہنگی….کیسے ممکن ہے؟؟؟

12004791_971816089523888_4655690915225964565_n

سماجی ہم آہنگی کا موضوع اپنے مشمولات کے اعتبار سے اہم بھی ہے اور قدرے وسیع بھی ہے۔ہم جب سماج کا کا نام لیتے ہیں تویقیناہمیں ضرورت پڑتی ہے کہ اس کی عام فہم تعبیر بھی ماحضر رہے…….. اسے اگر یوں کہا جائے تو بجا ہو گا کا ہم جب سماج کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہو سکتے ہیں؟؟؟

ممکن ہے اس موضوع پر بات چیت کرنے والے یا لکھنے والے ہر فرد کے ہاں اس کے اجزائے ترکیبی مختلف ہوں لیکن اگر اس موضوع کی غیر جانبدارانہ تعبیر کی بات کی جائے تویقینا کہا جائے گا کہ سماج بلا امتیازتمام انسانوں کے باہمی تعلقات کا نام ہے۔

ایک حقیقی انسانی سماج ہے ہی وہی جس میں تمام انسانوں کو برابری کا درجہ حاصل ہو….اور….سماج کے ہر فرد کو انسان تسلیم کیا جائے……..سماج کی غیر جانبدارانہ یا اگریہ کہا جائے تو بجا ہو گا کہ ،سماج کی حقیقی تعبیر ہی سماج میں ہم آہنگی کے لیے ناصرف بنیادہے بلکہ سماجی ہم آہنگی کی مکمل عمارت اسی ستون کے مرہون منت ہے۔ سماج میں موجود ہر فرد جب یہ تسلیم کر لیتا ہے کہ اس معاشرے میں بسنے والا ہر فرد انسان ہے…. اور اس کے انسانی حقوق کی ادائیگی اس فرد اور پورے سماج کے لیے اسی طرح ضروری ہے جیسے وہ اپنے حقوق کی مکمل ادائیگی کا سماج سے طالب رہتا ہے….تو پھر یقینا سماجی مساوات کی راہ ہموار ہو گی….

اسلام نے اسی تصور کو بارہا اپنے ماننے والوں کے لیے اجاگر کیا ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے:” لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا“ دوسری جگہ ارشاد ہے:” لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قوم اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو، اور خدا کے نزدیک تم میں سے قابل اکرام اور عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو“ اسی تصور کی عملی نظیر نبی اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ سے بھی ملتی ہے، آپﷺ کے زمانے میں ایک عورت کا جنازہ گزررہا تھا، اللہ کے رسول کھڑے ہوگئے، صحابہؓ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو یہودی ہے، اللہ کے رسول نے فرمایا ”الیسَت نفساً، یعنی کیا وہ انسان نہیں؟

سماج کی اسی تعبیر میں نا صرف ہم آہنگی کا پہلو مضمر ہے بلکہ اگر سماج کی مذکورہ تعبیر سے(جسے ہم نے”غیر جانبدارانہ“ تعبیر کا نام دیا ہے) جو رویہ پنپتا اور نمو اختیار کرتا ہے وہ برداشت کا رویہ ہے، برداشت کے رویے کو سماجی ہم آہنگی کا لازمہ قرار دیا جائے یا نتیجہ، بہر حال سماجی ہم آہنگی سے انسان اپنے ہی ایک فطری عنصر سے گویا آشنا ہوتا ہے۔یقینا برداشت کا رویہ سماجی ہم آہنگی کی منزل کا نکتۂِ آغاز بھی ہے اورنتیجہ بھی ہے۔

سماجی ہم آہنگی کے لیے جو اصول بنیادی اور ضروری حیثیت کا حامل ہے وہ ہے مشترکات کو ذریعہ ربط و تعلق قرار دینا، یعنی سماج پر امن فضا سے بھپور تب ہی ہو گا جب سماج کے مختلف النوع افرد کے درمیان ربط کا موضوع مشترکات ہوں نہ کہ باہمی نزاعات یا مختلف فیہ مسائل……..سماج میں رنگ، نسل اور قوم کی بنیاد پر ہم آہنگی کو تلاش کرنا شاید قدرے آسان ہوتا ہے لیکن افکار و نظریات اور مذہب کی بنیاد پر ہم آہنگی کا قیام قدرے مشکل ہوتا ہے، اس مشکل ترین مرحلے میں بھی اسلام نے اپنے ماننے والوں کے سامنے جو تصور پیش کیا ہے وہ انسانی فطرت کے عین مطابق اور عقل سے مطابقت رکھنے والا ہے، ارشاد ربانی ہے:” اے اہل کتاب(یہود و نصاری)!آؤ،اس کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے(وہ یہ کہ) ہم عبادت کریں صرف اللہ کی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں“

قرآن مجید کی مذکورہ آیت میں ہمہ قسمی سماجی ہم آہنگی کے قیام کا جامع تصور اسی اصول کو قرار دیا گیا ہے کہ”مشترکہ“ مذہبی عقائد و نظریات کی بنا پر بھی ہم آہنگی کے قیام سے کسی صورت دریغ نہ کیا جائے،

یہ وہ اصول ہے جس سے معاشرے میں ہر قسم کی مذہبی تفرقہ بازی کو ختم کیا جا سکتا ہے….اگر مذہبی مشترکات کے ذریعے ہم آہنگی قائم کی جا سکتی ہے تو پھرسماج میں موجود انسان کی فطری ضرورتوں یا رویوںپر مبنی مشترکات سے سماج میں ہم آہنگی کا قیام تو قدرے آسان ہو جا تا ہے……..مثلاً باہم سچ بولنا، دیانت داری سے کام لینا، عہد کی پاسداری کرنا،دھوکہ دہی سے پیش نہ آنا وغیرہ وغیرہ یہ وہ فطری ضرورتیں یا رویے ہیں جو تمام انسانوں کی مشترکہ ضرورت ہیں، لہذا ہم ان فطرتی سماجی رویوں کی بنیاد پر سماجی ہم آہنگی کا قیام عمل میں لا سکتے ہیں……..بے شک ہم سب میں نسل،قوم ، رنگ اور مذہب کا فرق موجود ہے لیکن کیا ہم سب کے درمیان یہ سماجی اقدار مشترک نہیں ہیں؟؟؟؟کیا ہم سب یکساںطور پران سب فطرتی اقدارکے طالب نہیں ہیں؟؟؟؟؟اگر سماج میں موجودتمام انسانوں کی یہ مشترکہ ضروریات ہیں تو پھر ہمیں ان مشترکات پر باہمی سماجی روابط و تعلقات کو استوار کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟

اسی بنیاد پر اسلام نے انسان کے بنیادی حقوق کی ادائیگی کے حوالے سے کوئی امتیاز روا نہیں رکھا……..یعنی اپنی تعلیمات کو یہ رخ نہیں دیا کہ مسلمانوں پر تو ظلم نہ کیا جائے، اور باقی نظریات یا مذاہب کے حاملین پر ظلم روا رکھا جائے، جھوٹ، دھوکہ، فریب، خیانت اور بدعہدی جیسے رویوںسے محض تب بچا جائے جب سامنے مسلمان ہو……..وغیرہ وغیرہ……..

انسان کے بنیادی اور فطری حقوق کے تحت جن جن امور کو شامل کیاجاتا ہے ان میں حقوق اِنسانی کا بلا امتیاز تصور، انسانی مساوات کا حق، انسانی عزت وآبرو کی حفاظت، انسانی جان ومال اورجائداد کی حفاظت، مذہبی آزادی کا حق، آزادیِ ضمیر کا حق، ضروریات زندگی کا انتظام، انسانی حقوق میں فرد ومعاشرے کی رعایت، بچوں کے حقوق کی حفاظت،اسی طرح انسانوں کے معاشی وثقافتی اور تعلیمی حقوق نمایاں حیثیت کے حامل ہیں……..

یہ وہ بنیادی امور ہیں جن کے بارے میں ہر انسان یہ تقاضا کرتا ہے کہ اسے یکساں طور پر یہ تمام حقوق ملنے چاہییں……..گویا ہم سب نے تسلیم کر لیا ہے کہ مذکورہ امور انسانوں میں مشترک ہیں……..تو آئیں قدم بڑھائیں انہی فطری تقاضوں پر سماجی ہم آہنگی کی بنیاد رکھتے ہیں……..جب ہم ان بنیادی فطری تقاضوں کی بنیاد پر سماجی ہم آہنگی کے قیام میں کامیاب ہو جائیں گے تو کوئی بعید نہیں کہ رنگ ، نسل، قوم اور مذہب کی بنا پر پیدا ہونے والے ہمارے باہمی اختلافات( جویقینا ہمارے فطری مشترکات سے بہت قلیل ہیں)سماج میں تفرقہ، انتشار، تشدد اور عدم برداشت کا سبب نہ بنیں ۔

اسلام کے اولین دور میں قرآن کے اسی اصول کی بنیاد پر سماجی ہم آہنگی، انسانی مساوات اوربرداشت کا وہ عملی مظاہرہ پیش کیا گیا جس کی نظیر نہیں ملتی، ذیل میں چند تاریخی اشارات ہم اسی تناظر میں پیش کرتے ہیں:

٭عہد نبویﷺ میں مکہ میں باوجود ظلم و ستم کے رسول اللہ ﷺ کا غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک، مثلاً کوڑا کرکٹ پھینکنے والی بڑھیا
کی بیمار پرسی اور اس طرح کے بے شمار واقعات

٭ہجرت مدینہ کے بعد ”میثاق مدینہ“ کے نام سے مشترکات کی بنیاد پر معاہدہ

٭اہلِ نجران(عیسائیوں) سے کیا گیا معاہدہ جو آئندہ کیے گئے تمام معاہدہ جات میں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، اس معاہدہ کے مطابق غیر مسلموں کو:

…. تمام قانونی حقوق میں مسلمانوں کے مساوی قرار دیا گیا

….ان کی جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت مسلمانوں کی طرح کیے جانے پرپابند کیا گیا

….ریاست کے انتظامی مناصب اور عہدوں پر ان کے استحقاق کو تسلیم کیا گیا

….ان کی عبادت گاہوں اور مذہبی ذمہ داران کے انتخاب میں مداخلت کو ممنوع قرار دیا گیا

٭خلافت راشدہ کے تمام ادوار میں غیر مسلموں سے کیے جانے والے معاہدہ جات ان بنیادی اصولوں کی حدود کو مد نظر رکھتے ہوئے ہوئے کیے گئے، عہد صدیقی میں اہل عانات اور اہل حیرہ سے کیے گئے معاہدہ جات اور بعد ازاں عہد فاروقی ، عثمانی اور علوی میں کیے گئے لاتعداد معاہدہ جات تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔

ان معاہدہ جات کے علاوہ بھی صحابہ کرامؓ کی زندگی کے عام حالات بھی سماجی ہم آہنگی اور انسانیت نوازی کی بہترین مثال ہیں۔ سیدنا فاروق اعظمؓ نے شہادت سے قبل زخمی حلات میں جبکہ ان کا قاتل ایک غیر مسلم ہے جو وصیت اپنے ہونے والے جانشین کے لیے لکھوائی، آب زر سے لکھنے کے قابل ہے، ملاحظہ فرمائیں:

”میں اپنے بعد والے خلیفہ کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذمہ میں آنے والے غیر مسلم شہریوں کے بارے میں یہ وصیت کرتا ہوں کہ ان سے کیے ہوئے عہد کو پورا کیا جائے، ان کی حفاظت کے لیے بوقتِ ضرورت لڑا بھی جائے اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے“

اسی طرح سیدنا عمر فاروقؓ کے دور کا ایک مثالی واقعہ ملاحظہ فرمائیں:””حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک قوم کے دروازے کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ وہاں ایک سائل بھیک مانگ رہا تھا جو نہایت ضعیف اور نابینا تھا۔حضرت عمرؓ نے اس کے بازو پر پیچھے سے ہاتھ رکھا اور کہا کہ تم اہلِ کتاب کے کس گروہ سے ہو؟

اس نے کہا کہ یہودی ہوں۔
آپؓ نے فرمایا: تجھے اِس اَمر پر کس نے مجبور کیا جو میں دیکھ رہا ہوں؟
اس نے کہا کہ میں ٹیکس کی ادائیگی اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بڑھاپے (میں کما نہ سکنے) کی وجہ سے بھیک مانگتا ہوں۔
حضرت عمر فاروق ؓنے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے گھر لے گئے اور اسے اپنے گھر سے کچھ مال دیا۔ پھر اسے بیت المال کے خازن کی طرف بھیجا اور کہا کہ اسے اور اس قبیل کے دوسرے لوگوں کو دیکھو،خدا کی قسم! ہم نے اس کے ساتھ انصاف نہیں کیاکہ اس کی جوانی سے تو ہم نے فائدہ اٹھایا اور بڑھاپے میں اسے رسوا کر دیا۔(پھر آپ نے یہ آیت پڑھی:”ترجمہ:بے شک صدقات فقراءاور مساکین کے لئے ہیں“اور فرمایا:فقراءسے مراد مسلمان ہیں اور یہ اہلِ کتاب (غیر مسلم شہری) مساکین میں سے ہے، اس کے بعدحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے اور اس جیسے دیگر کمزور لوگوں سے ٹیکس ختم کر دیا“

حضرت عمر کا دور اس قسم کے مثالی واقعات سے بھرا پرا ہے۔بعد ازاں سیدنا عثمان غنیؓ کے دور حکومت میں آپ کے سرکاری فرمان کے یہ الفاظ بھی تاریخ نے محفوظ کیے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:

”میں تمہیں ان غیر مسلم شہریوں کے ساتھ حسن سلوک کی نصیحت کرتا ہوں. یہ وہ قوم ہے جنہیں جان و مال، عزت و آبرو اور مذہبی تحفظ کی مکمل امان دی جاچکی ہے“

اسی بنیاد پر آپؓ کے دور کا بالکل ابتدائی واقعہ ہے کہ ”جب ایک غیر مسلم نے خلیفۂِ وقت حضرت عمر فاروق ؓپر قاتلانہ حملہ کیا اور آپ شہید ہو گئے، حضرت عمر ؓکے صاحبزادے حضرت عبید اللہ بن عمرؓ نے غصہ میں آ کر قتل کی سازش میں ملوث تین آدمیوں کو قتل کر دیا، جن میں سے ایک مسلمان اور دو غیر مسلم عیسائی تھے،حضرت عبید اللہؓ کو گرفتار کر لیا گیا۔

خلیفہ ثالث نے مسند خلافت پر بیٹھتے ہی سب سے پہلے اس معاملہ کے بارے میں صحابہ کرام ؓ سے رائے لی، تمام صحابہ کرام ؓ کی رائے یہ تھی کہ عبید اللہ بن عمر ؓ کو قتل کر دیا جائے. لہٰذا یہ امر یقینی ہوگیا تھا کہ قصاص میں حضرت عمرؓ کے صاحبزادے عبید اللہبن عمرؓ کو سزائے موت دے دی جاتی لیکن مقتولین کے ورثاءکی اپنی رضامندی سے خون بہا پر مصالحت ہو گئی اور خون بہا (دیت) کی رقم تینوں مقتولین کے لیے برابر تقسیم کردی گئی“

مزید آگے چلیں تو حضرت علیؓ کے دور کا واقعہ ہے کہ”آپؓ کے پاس ایک مسلمان کو پکڑ کر لایا گیا جس نے ایک غیر مسلم کو قتل کیا تھا، ثبوت فراہم ہو جانے کے بعد حضرت علیؓنے قصاص میں غیر مسلم کے بدلے اس مسلمان کو قتل کئے جانے کا حکم دیا،قاتل کے ورثاءنے مقتول کے بھائی کو خون بہا دے کر معاف کرنے پر راضی کر لیا، حضرت علی ؓ کو جب اس کا علم ہوا تو آپؓنے مقتول کے وارث کو فرمایا:”شاید ان لوگوں نے تجھے ڈرا دھمکا کر یہ کہلوایا ہے“اس نے کہا:” نہیں، بات دراصل یہ ہے کہ قاتل کے قتل کئے جانے سے میرا بھائی تو واپس آنے سے رہا اور اب یہ مجھے ا س کی دیت دے رہے ہیں جو پسماندگان کے لئے کسی حد تک کفایت کرے گی، اس لئے میں خود اپنی مرضی سے بغیر کسی دباﺅ کے معافی دے رہا ہوں،
اس پر حضرت علیؓ نے فرمایا: اچھا تمہاری مرضی،تم زیادہ بہتر سمجھتے ہو، لیکن بہرحال ہماری شریعت کا اصول یہی ہے کہ:من کان لذمتنا فدمہ کدمنا ودیتہ کدیتنا”جو ہماری غیر مسلم رعایا میں سے ہے اس کا خون اور ہمارا خون برابر ہیں اور اس کی دیت بھی ہماری دیت کی طرح ہے“

مسلمانوں کے دور اولین میں مذہبی بنیادوں پر سماجی ہم آہنگی کی مذکورہ مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو معاشرے میں انسانی بنیادوں پر زندگی گزارنے کی کتنی پرزور دعوت دیتا رہا ہے اور مسلمانوں نے قرآن کے ”اصول ہم آہنگی بذریعہ مشترکات“ پر کاربند رہ کر کس طرح سے ایک مثالی پرامن انسانی معاشرے کو قائم کرنے کی عملیتصویر پیش کی۔ موجودہ دور میں اولین مسلمانوں کا اسوۂ حسنہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے