13جولائی کا انتظار سبھی لوگ کر رہے تھے ۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نوازدوونوں قومی احتساب بیورو کی عدالت سے بدعنوانی کے ایک مقدمے میں مجرم قرار دیے جانے کے بعد وطن واپس آ رہے تھے ۔ان کے واپس نہ آنے کی خبریں اور خفیہ ذرائع والے رپورٹرز کے انکشافات دم توڑ چکے تھے۔ خبر یہ تھی کہ نواز شریف اور مریم نواز شام ساڑھے سات بجے لاہور ائیر پورٹ پر اتریں گے ۔ نیب نے ائیر پورٹ پر ان کی گرفتاری کی مکمل تیاری کر رکھی تھی ۔ مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف نے لیگی کارکنوں سے اپیل کر رکھی تھی کہ وہ بھاری تعداد میں ریلی کی شکل میں ائیر پورٹ پہنچ کر اپنے قائد کا استقبال کریں ۔
میں ساڑھے تین بجے رائیونڈ روڈ سے شہر کی جانب روانہ ہوا ۔ شہباز شریف نے اعلان کیا تھا کہ کارکنان نماز جمعہ کے بعد لوہاری گیٹ کے قریب جمع ہو جائیں ، وہاں سے ریلی کا آغاز ہوگا ۔ میں شوکت خانم ہسپتال کے سامنے سے گزرتا ہوا جناح ہسپتال اور پھر وہاں سے برکت مارکیٹ پہنچا ۔ اس دوران کسی قسم کی کوئی غیر معمولی سرگرمی نہیں دیکھی ۔ ہاں یہ سڑکیں ایسی لگ رہیں تھیں کی جیسے اتوار کی صبح ہو ۔ ٹریفک کم تھی ۔ پی ٹی سی ایل کے دفتر ایک شکایت کے سلسلے میں رکا تو گارڈ نے بتایا کہ اسٹاف دن ایک بجے چھٹی کر چکا ہے اور وجہ ریلیاں ہیں ۔ برکت مارکیٹ کے سامنے میں چند موٹر سائیکل سوار نوجوان نعرے لگاتے ہوئے دیکھے ۔ وہ ہاتھ میں مسلم لیگ نواز کے جھنڈے تھامے ہوئے تھے ۔ برکت مارکیٹ کے بالمقابل دو بڑے کنٹینر بھی کھڑے تھے لیکن سڑک کھلی تھی ۔
جب میں مسلم ٹاؤن موڑسے کینال روڈ کی جانب مڑا تو کچھ زیادہ رونق دکھائی دی ۔ بہت سے لوگ موٹر سائیکلوں ، ٹرکوں اور کاروں پر ’’شیر شیر‘‘ کے نعرے لگاتے جھنڈے لہراتے آگے بڑھتے جا رہے تھے ۔ پولیس مجھے کہیں دکھائی نہیں دی ۔ کینال روڈ پر چلتے ہوئے میں نے نوٹ کیا کہ ہرایک انڈرپاس پر مسلم لیگی کارکن گروہ کی شکل میں موجود ہیں ۔کہیں کم کہیں زیادہ، میری منزل لوہاری گیٹ تھا۔ جب مال روڈ پہنچا تو دیکھا کی اس انڈر پاس کے اوپر کافی لوگ کھڑے تھے ۔ راستہ بند نہیں تھا۔ میں ڈیوس روڈ سے ہوتا تو لاہو ر پریس کلب میں صرف اتنی دیر رکا جس میں ایک عدد کلب سینڈوچ کھایا جا سکتا ہے۔
کلب سے نکل فلیٹیز ہوٹل کے سامنے والی روڈ سے چیئرنگ کرا س پہنچنا چاہا تو دیکھا کہ آگے دو کنٹینر کھڑے کر کے سڑک بند کی گئی ہے، سو ہوٹل کی پیچھے سے ہوتا ہوا جی پی او چوک پر جا نکلا ۔ جی پی او کے سامنے مسلم لیگ نواز لائرز فورم کے وکلا ء نے ایک بڑا کیمپ لگا رکھا تھا ۔ وہاں لوگ مخدوم جاوید ہاشمی کا ’’ایک بہادر آدمی جاوید ہاشمی ‘‘ کے نعروں سے استقبال کر رہے ہیں ۔ جاوید ہاشمی اسٹیج پر گئے لیکن بات نہیں کی۔جب وہ آگے جانے کے لیے سامنے کھڑی سفید رنگ کی کار کا دروازہ کھولنے لگے تو ڈرائیور نے انہیں بتایا کہ یہ ان کی گاڑی نہیں ہے ۔ میں یہ منظر دکھ کر مسکرادیا اور آگے بڑھ گیا ۔
انارکلی والے چوک میں دونوں جانب یعنی پرانی اور نئی انار کلی میں کھلنے والے راستوں پر بڑے کنٹینر لگے تھے اور تاہم مال روڈ کھلی تھی ۔ اس چوک میں کافی تعداد میں لوگ کھڑے ’’شیر شیر ‘‘کے نعرے لگا رہے تھے۔یہاں بہت سے مذہبی حلیے والے افراد بھی نواز شریف کے حق میں نعرے لگا رہے تھے ۔مجھے لگا کی تحریک لبیک کی مخالفت کے باجود ابھی تک مذہبی ووٹر نواز شریف میں کشش محسوس کرتا ہے۔ اس سے آگے استنبول چوک میں دونوں جانب کیٹینر کھڑے تھے ،گاڑیاں گزرنے کی جگہ نہیں تھی۔ چند پولیس اہلکاربھی ایک طرف مطمئن سے کھڑے دکھا ئی دیے ۔ میری منزل لوہاری گیٹ تھا، سو آگے بڑھتا ہوا سیکریٹریٹ کے سامنے میٹرو ٹریک پر پہنچا اور ذرا آگے کربلا گامے شاہ کے سامنے لوگوں کا بڑا ہجوم تھا اور ہر طرف نعرے بازی ہو رہی تھی ۔ میں بھی مجمع میں داخل ہو گیا ۔ رش بہت تھا، کھوئے سے کھوا چھل رہا تھا ۔ یہ ریلی کا مرکزہ تھا۔میں نوٹ کیا کہ نعرے صرف نواز شریف کے لگ رہے تھے اور مجمع بہت چارجڈ تھا۔
یہ کربلا گامے شاہ کے سامنے دوسری جانب والا ٹریک تھا جس کے آخر میں دو سٹرکیں اس میں شامل ہوتی ہیں ۔ یہاں دو تین بڑے ٹرک ، مسلم لیگ نواز کے پارٹی تھیم سے سجے ٹرک ، ایک بڑی کرین اور بے شمار گاڑیاں کھڑی تھیں ۔ رش بہت زیادہ تھا میں پیچھے کی جانب نکلا تو دیکھا کہ اردوبازار کی جانب سے آنے والی سڑک پر بھی سر ہی سر ہیں ۔ ایک بڑے کنٹینر کی چھت پر مسلم لیگ نواز کے طلال چوہدری ، مریم اورنگزیب اور سائرہ افضل تارڑ ہاتھ ہلا رہے تھے اور مسلم لیگ نواز کا پارٹی سونگ چل رہا تھا ۔ کرین پر کھڑے لوگ بھی نعرے لگارہے تھے ۔ ریلی رُکی ہوئی تھی لیکن اس کا قصد مال روڈ کی جانب تھا ۔ ریلی میں کہیں کہیں خواتین اور بچے بھی دکھائی دیے ۔لاہور میں بسنے والے خوش رو اور آسودہ حال کشمیری جا بجا دکھائی دیتے تھے ۔ ایک نوجوان اپنے اوپرکے دھڑپر سفید رنگ سے ’’دلوں کی دھڑکن نواز شریف‘‘ جبکہ کمر پر ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لکھے ہوئے تھا ، وہ سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا ،اس کے ہاتھ میں ایک بینر تھاجس پر لکھا ہوا تھا ’’ جمہوریت زندہ باد ، فوجی سیاست مردہ باد ‘‘ ریلی میں آزادکشمیر کے چند ایک جھنڈے بھی دکھائی دیے ۔ بتایا گیا کہ وزیراعظم فاروق حید ر بھی اپنے وزراء اور کارکنوں کے ساتھ وہاں موجود ہیں لیکن ان پر میری نگاہ نہیں پڑ سکی ۔
پانچ ساڑھے پانچ بجے ریلی میں کچھ حرکت محسوس ہوئی ۔ میں رش سے بچنے کے لیے واپس مال روڈ کی جانب مڑا ۔ استبول چوک کی طرف مرٹے سے پہلے میٹرو اسٹیشن کے لیے بنائے گئے اوور ہیڈ برج چڑھا تو کچھ شناسا کیمرا مینوں سے ملاقات ہوئی ۔ لوگ آگے کی جانب بڑھ رہے تھے ۔ دس منٹ بعد میں استنبول چوک کی جانب نکل گیا ۔ موڑ کے قریب تین چار ویگو گاڑیاں کھڑی تھی ، ان میں سے ایک گاڑی میں مشاہد حسین سید بیٹھے مسکرا رہے تھے اور پیچھے اسلام آباد کے سرکاری نمبر والی ایک سفید کار کھڑی تھی ۔ استنبول چوک میں اب کافی رونق لگ چکی تھی ۔ کچھ چینلز کی گاڑیاں بھی موجودتھیں اور لوگ چھوٹی بڑی ٹکڑیوں میں آگے بڑ ھ رہے تھے ۔ وہاں چوک کے گرد مسلم لیگ نواز کے جھنڈوں سے سجی گاڑیاں جن پر شیر کے علامتی مجسمے نصب تھے، چکر لگا رہیں تھیں ۔ اسی دوران ایک ٹریکڑ(بغیر ٹرالی کے ) جھنڈوں سے سجا ہوا گزرتے ہوئے دیکھا۔ یہ ایک فیملی تھی جس خواتین کے علاوہ بچہ بھی تھا ۔ پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے سامنے بہت سے کارکنان ایک کنیٹنر کو ہٹانے کی کوشش کر رہے تھے ، کچھ دیر میں وہ کنٹینر کو ہٹانے میں کامیاب ہو چکے تھے اور اب روڈ صاف تھی ۔ وہاں ایک طرف فٹ پاتھ پر آزادکشمیر مسلم لیگ نواز کے آٹھ دس نوجوان بیٹھے دکھائی دیے۔ان کے لیڈر فرخ ممتاز نے بتایا کہ وہ مرکزی قیادت کا انتظار کر رہے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ ریلی پندرہ منٹ میں یہاں پہنچ جائے گی لیکن ایسا نہ ہوا ۔
شام کے ساڑھے چھ بج چکے تھے ۔ خبر آئی کہ نواز شریف ساڑھے آٹھ لاہور ائیر پورٹ پہنچ رہے ہیں ۔ میں نے سوچا کہ اگر ریلی کی رفتار یونہی رہی تو سب کا ائیر پورٹ پہنچنا مشکل ہو گا ۔ پھر سوچا کہ مجھے اب ائیر پورٹ کی جانب جانا چاہیے کیونکہ بہت سے کارکن اپنے طور پر چھوٹی بڑی ٹولیوں میں رواں دواں تھے ۔ اب سورج ڈھل چکا تھا اور انار کلی والے چوک میں کھڑے نعرے لگانے والے لوگوں کی تعداد سہہ پہر کی نسبت تین گنا ہو چکی تھی ۔ وہاں بازار کو بند کرنے والے کنٹینرز بھی اب ایک طرف کھڑے تھے ۔ لوگ شدید نعرے لگا رہے تھے ۔ ’’وزیراعظم نواز شریف‘‘ کا نعرہ سب سے زیادہ لگ رہا تھا ۔ یہاں چوک میں ایک ادھیڑ عمر انتہائی پرجوش شخص عمران خان کے خلاف نامناسب نعرے لگا رہا تھا او ر نوجوان خوب زور سے جواب دے رہے تھے ، میں ان کی جانب متوجہ تھا کہ دوسری جانب سے شور بلند ہوا، ادھر کو بڑھا تو دیکھا کہ ایک شخص نے تحریک انصاف کیانتخابی نشان بلے کو آگ لگا کر بلند کر رکھا تھا اور اس کے ارد گرد لوگ سخت نعرے بازی کر رہے تھے ۔ یہی منظر چند قدم آگے بھی دیکھا ۔
جی پی او چوک پر وکلا ء کے کیمپ کی رونق اب کافی بڑھ چکی تھی ۔ سڑک میں لوگ کھڑے تھے ،مشکل سے گزرنے کا راستہ ملا تو میں نے چیئرنگ کرا س جانب دوڑ لگا دی ۔ جی پی اوچوک سے چیئرنگ کرا س تک لوگ کھڑے تھے اور’’ شیر شیر‘‘ کے نعرے بھی لگارہے تھے لیکن روڈ کھلی تھی ۔ ہال روڈ کے سامنے گاڑیوں کی بڑی تعداد مرکزی ریلی کی منتظر دکھائی دی ۔ شام کے بعد پہلے گزر گئے چوکوں سے زیادہ مجمع میں نے پنجاب اسمبلی کے سامنے چیئرنگ کراس میں دیکھا۔کچھ چینلز کی گاڑیاں بھی وہاں موجود تھیں ۔ آج ٹی وی کی گاڑی کی چھت پرخاتون اینکر غریدہ فاروقی کھڑی مسکرا رہی تھیں ۔ لوگ یہاں بھی نواز شریف کے حق میں نعرے لگارہے تھے ۔
میں کچھ دیر رکنے کے بعد آگے بڑھ گیا ، نہر تک آنے والے سبھی چوکوں میں لوگوں کی مناسب تعداد مرکزی ریلی کی منتظر دیکھی ۔ میں کچھ دیر کے لیے آواری ہوٹل سے ذرا آگے فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا۔ لوگ نعرے لگاتے شوں شوں کرتے ائیر پورٹ کی جانب بڑھ رہے تھے لیکن مجھے مرکزی قیادت کی آمد کی امیدکم کم لگ رہی تھی ۔اس دوران ایک سائیکل سوار میرے پاس آکر رکا اور پنجابی زبان میں پوچھا کہ سیگریٹ مل سکے گی؟ اس نے سائیکل کے ہینڈل پرچم لگا رکھا تھا اور سر پر بھی جھنڈا باندھا ہوا تھا ۔ میں نے اثبات میں جواب دیا اور پھر اس سے کچھ مکالمے کا موقع مل گیا ۔ وہ اس ریلی کا واحد سائیکل سوار تھا جو ائیر پورٹ کی جانب جا رہا تھا ۔ اس کا کہنا تھا کہ’’ پیچھے سے لاکھوں لوگ آ رہے ہیں‘‘ میرے ایک سوال پر اس نے کہا کہ ’’میاں صاحب کے خلاف سازش ہو رہی ہے ، لوگوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا ’’یہ لوگ ہی نہیں مانتے تو جج کیا کر لیں گے‘‘ یہ کہہ کر وہ کش لگاتا پیڈل گھماتاہوا آگے بڑھ گیا ۔
چند میٹر فاصلے پر نہر والا انڈر پاس تھا ۔ وہاں بہت ساری گاڑیاں ، ٹرک ، ایک بڑی کرین اور کافی سارے لوگ ابھی بھی موجودتھے ۔ کینال روڈ پر بائیک چلاتے ہوئے میں نے دیکھا کہ لوگ جن میں نوجوان اور بزرگ سب شامل ہیں ، ائیر پورٹ کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔ دھرم پورا انڈر پاس پر بھی کافی لوگ کھڑے تھے ۔ اس سے آگے طویل، ترین بیجنگ انڈر پاس میں ٹریفک رش کی وجہ سے کافی سست تھی ۔ مغل پورہ کے انڈر پاس پر کارکنوں کی مناسب تعداد کھڑی تھی ۔ میں ہربنس پورا پہنچا تو دیکھا کہ کچھ جھنڈا بردار کارکن دائیں جانب مڑنے کا اشارہ کر رہے ہیں ۔ وہ ائیر پورٹ کو نکلنے کا راستہ تھا ۔ اس پورے راستے میں کاروں ، ٹرکوں اور موٹر سائیکل سوار وں کا رش تھا ۔ کچھ فاصلہ مجھے فٹ پاتھ پر بائیک چلاتے ہوئے کاٹنا پڑا ۔ راستے میں ایک جگہ بائیں ہاتھ پر کسی لیگی رہنما کادفتر تھا جہاں بہت اونچی آواز میں میوزک بج رہا تھا اور کارکنوں کی بڑی تعداد وہاں بھنگڑے ڈال رہی تھی ۔ میں نے وہاں سائیڈ پر رُک کر کچھ تصویریں بنائیں ۔ دکانیں اِکا دُکا کھلی تھیں ۔ پان شاپس پر بڑا رش تھا ۔ کچھ لوگ ٹی وی پر نواز شریف کی آمد کی خبر دیکھنے کے لیے وہاں کھڑے تھے ۔ م
یں آگے بڑھا تو سامنے اس پار خواجہ سلمان رفیق کا دفتر تھا، جہاں کارکنوں کا ہجوم تھا ۔سٹرک عبورکر کے روشنیوں اور برقی قمقموں سے پیراستہ اس دفتر کے ایک ہال میں داخل ہوا تو دیکھا کہ پختہ عمر کے چالیس پچاس لوگ لاہور کے مقامی چینل سٹی 42پر نواز شریف کی لاہور لینڈنگ کی خبر پڑھ رہے تھے ۔ چینل پر جونہی نواز شریف کی تصویر دکھائی جاتی تو ہال میں نعرے گونجنے لگتے۔ ایک لڑکا ٹرے میں برف کی ٹکڑیوں والے پانی کے گلاس سرو کر رہا تھا ۔ باہر نکل دیکھا توکچھ نوجوان چند قدم فاصلے پر واقع تحریک انصاف کے دفتر کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔ چند لمحے بعد ایک لڑکے کو فاتحانہ انداز میں تحریک انصاف کے رہنماعبدالعلیم خان کی جہازی سائز کی تصویر والا بینرپھاڑ کر گھسیٹتے ہوئے دیکھا اوردیگر نوجوانوں نے نعروں کے ذریعے اسے داد دی ۔ اس سڑک پر کافی رش تھا ۔ اکثر دکانیں بند تھیں ۔ تقریباً ایک کلو میٹر آگے گیا تو دیکھا کہ کچھ نو ن لیگی نوجوان تحریک انصاف کے ایک انتخابی دفتر کے سامنے نعرے بازی کر رہے ہیں ۔ تحریک انصاف کے دفتر کے سامنے درجن بھر کارکن بیٹھے تھے ، اسی دوران آواز آئی جیسے شیشے پر کوئی پتھر لگا ہو تو تحریک انصاف کے لڑکوں نے دفتر کے تینوں شٹر گرا دیے اور ریلی کے مشتعل شرکاء آ گے بڑھ گئے ۔ یہاں سے آگے ہجوم اور سڑک کے تنگ ہونے کی وجہ سے ٹریفک سست تھی ۔ دو رویہ سڑک پر لوگ ہی لوگ تھے اور اندھیر کافی چھا چکا تھا ۔
میں نے ائیر پورٹ کی جانب آتے ہوئے جو صورت حال دیکھی تھی، میں یقین کر چکا تھا کہ ریلی کی مرکزی قیادت یہاں نہیں پہنچ سکے گی ۔ چند منٹ بعدمیں عین اس جگہ کھڑا تھا جہاں سے آگے بڑھے کی کوئی راہ نہیں تھی ۔ یہ جوڑا پل کے قریبی بازار تھا ۔ ائیر پورٹ جانے والے راستے پر دو کنٹینر کھڑے تھے ، ان کے سامنے ستر اسی پولیس اہلکار آہنی ٹوپیاں پہنے ، ہاتھوں میں ڈنڈے اور ڈھالیں اٹھائے اور منہ پر آنسو گیس سے بچانے والے ماسک پہنے الرٹ کھڑے تھے ۔ سامنے ایک تین منزلہ عمارت کی چھت لگے ساؤنڈ سسٹم پر مسلم لیگ نواز کاوہ نغمہ بج رہا تھاجس میں ’’ساکوں یار مناونا اے ‘‘ کی نقل’’ساکوں میاں مناونا اے‘‘ سے کی گئی ہے ۔ میں ہجوم میں بچتا بچاتا پولیس والوں کے پاس پہنچ گیا ، کونے میں بیٹھے ہوئے اہلکار سے پوچھا کہ ائیر پورٹ یہاں سے کتنی دور ہے تو اس نے بتایا کہ تین کلو میٹرکا فاصلہ ہے ۔
یہاں موجود شرکابہت پرجوش تھے۔ مسلم لیگ نواز راولپنڈی کے طارق فضل چوہدری ، حنیف عباسی اور چوہدری تنویر ایک گاڑی کی چھت پر بیٹھے یہاں پہنچ چکے تھے اور کسی نے مجھے بتایا کہ ایاز صادق بھی پہنچ چکے ہیں ۔ دائیں جانب کچھ نوجوان پولیس کی خلاف نعرے بازی کر رہے تھے لیکن پولیس خاموش کھڑی تھی ۔یہاں میں نے قریب آدھ گھنٹہ گزارا ۔ ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ ریلی کے شرکاء کی جانب سے پانی کی خالی بوتلیں پولیس کی جانب اچھلنے لگیں ۔ جب کولڈ ڈرنکس کی خالی بوتلیں بھی اچھالی جانے لگیں تو پولیس نے ذرا حرکت کی ۔ نوجوان پیچھے کی جانب ہٹنے لگے اور اسی دوران فضاء میں شعلہ سا بلند ہوتا دیکھا ، یہ آنسو گیس کاپہلا شیل تھا، لوگ پیچھے کی جانب بھاگے اور پھر یکے بعد دیگرے شیل پھٹنے لگے ۔ فضاء میں ترش گیس کے اثرات اتنی جلدی سے پھیلے کہ سانس لینا دشوار ہونے لگا ، میں بڑی مشکل سے ہجوم میں راہ بناتا ہوا واپس نکلا،بائیک سنبھالی اور رفتار بڑھا دی ۔ میری آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا اور گلے میں کانٹے سے چبھ ہے تھے ۔ ایک نوجوان نے راستے میں لفٹ مانگی ، وہ کافی بے حال تھا ۔ جب میں خطرے سے باہر آگیا تو رفتار گھٹادی ۔میں دیکھ رہا تھاکہ لوگ ابھی بھی مسلسل ائیر پورٹ کی جانب بڑھ رہے تھے ۔ پونے دس بجے میں ایک دکان میں لگی ٹی وی پر یہ خبر پرھ چکا تھا کہ نواز شریف اور مریم کو چارٹر طیارے کے ذریعے اسلام آباد بھیج دیا گیا ہے ۔
اب کینال روڈ سے واپس میری منزل مال روڈ تھی ۔ لوگ چھوٹے بڑے قافلوں میں ابھی تک ائیر پورٹ کی جانب رواں تھے ۔ مال روڈ والے انڈر پاس پر البتہ وہی قافلہ ذرا بڑے حجم کے ساتھ کھڑا تھا ۔ ایک کرین پر کچھ خواتین بھی تھیں ۔ ڈیوس چوک میں کچھ کارکنا ن کفن پہنے نعرے لگارہے تھے ۔ میں آگے بڑھتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کر رہا تھا کہ ساڑھے پانچ گھنٹے قبل جس ریلی کو میں استنبول چوک کے قریب چھوڑ کر گیا تھا ، وہ کہاں پہنچی ہے ۔ مجھے اپنے سوال کا جواب چئیرنگ کراس کے قریب جا کر مل چکا تھا ۔ یہاں شہباز شریف کی گاڑی بہت آہستہ چل رہی تھی، ان کی گاڑی کے سامنے ایک ٹرک تھا جس پر ڈی جے بٹ لکھا ہوا تھا ۔ وہی ڈی جے بٹ جو عمران خان کے مشہور زمانہ دھرنوں سے مشہور ہوا تھا۔ ان کے پیچھے ایک گاڑی پر شیخوپورہ کے جاوید لطیف بیٹھے تھے ۔ ایک ٹرک کی چھت پر مصدق ملک کھڑے تھے ، ایک اورگاڑی کی چھت سے جاوید ہاشمی ہاتھ ہلا کر نعروں کے جواب دے رہے تھے، جاوید ہاشمی کی گاڑی ایک طرف کالم نگار اور ایکٹوسٹ گُل بخاری میں مجھے پائیدان پر کھڑی چھت پر نصب ڈنڈا تھامے دکھائی دیں ۔ مجتبیٰ شجاع الرحمان بھی مجھے وہاں موجود ۔ ریلی کے اس حصے میں محتاط اندازے کے مطابق چار سے پانچ ہزار کے درمیان لوگ تھے لیکن میرے ذہن میں بار بار یہ سوال کلبکلا رہا تھا کہ راستے صاف ہونے کے باوجود شہباز شریف کی یہ ریلی اس قدر سست کیوں ہے . یہ سوال بھی کہ اگر رفتار اس قدر سست ہی رکھنی تھی تو ریلی صبح ہی کیوں نہ شروع کر دی گئی . کیا شہباز شریف جیسا معروف منتظم ایسی ناقص منصوبہ بندی کر سکتا ہے یا پھر جو میںدیکھ رہا تھا وہی منصوبہ تھا. یہ سوال بھی مجھے تنگ کر رہا تھا کہ شہباز شریف اب کہاں مجمع لگائیں گے اور کیسے بٹے ہوئے اتنے لوگ وہاں جمع ہو کر ان کی تقریر سن سکیں گے ۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سروس ابھی تک بحال نہیں ہوئی تھی ۔
میں نے وہیں ایک طرف بیٹھ کر حساب لگایا کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھ لے کہ آج نواز شریف کے استقبال کے لیے کتنے لوگ نکلے تھے تو محتاط ترین جواب کیا ہو گا ۔ میں نے لوہاری کی مرکزی ریلی ، مال روڈ کے سارے چوک اور پھر کینال روڈ سے لے کر جوڑا پل تک پھیلے ہوئے لوگوں کی تعداد کے بارے میں اندازہ لگایا اور پھر ممکنہ مبالغے کی مد کِسر کی تو جواب آیا 25سے 28ہزار نفوس … دوسرے لفظوں میں اس کا ترجمہ یوںہے کہ ’’نواز شریف کے لیے لاہوری باہر نکلے ہیں‘‘
رات کے پونے 11بج چکے تھے ۔اب میں نے مزید وہاں رکنا فضول سمجھا اور پریس کلب چلا گیا ۔ آنکھیں دھوئیں اور غرارے کیے اور ایک رپورٹر دوست کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگا ۔ ایک طرف یہ خبر چل رہی تھی کہ نواز شریف کو سہالہ گیسٹ ہاؤس میں رکھا جائے گا، دوسری جانب یہ بریکنگ نیوز بھی چلنے لگی کہ شہباز شریف نے مال روڈ کو کینال روڈ سے ملانے والے انڈر پاس کے قریب اپنی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے چند جملے بول کر ریلی کے اختتام کا اعلان کر دیا ہے ۔ یہ خبر بھی چل رہی تھی کہ پولیس اور لیگی کارکنان کے درمیان جوڑا پل کے قریب جھڑپیں جاری ہیں ۔مستونگ اور بنوں میں ہونے والے خونیں دھماکوں کے ٹکرز اور فوٹیج دِل دُکھا رہے تھے ۔13جولائی کا ہنگامہ خیز دن مکمل ہو رہا تھا اور نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز مشہور زمانہ اڈیالہ جیل پہنچائے جا چکے تھے۔