میری بچپن سے سے یہ خواہش رہی ہے کہ جب میں بڑا ہو جاؤں تو لوگ میرا انٹرویو کیا کریں اور میں صرف تقریر کیا کروں ۔ میرے اندر اس قسم کے شوق قائد محترم جناب قبلہ حضور شیخ الاسلام کی وجہ سے پیدا ہو ئے ۔ مجھ میں اب بھی سمجھ کی کمی ہے تاہم بچپن میں تو بہت ہی زیادہ کمی تھی جس کا واضح ثبوت ہے کہ میں اس عمر میں بھی قبلہ شیخ الاسلام کی پی ٹی وی پر تقریریں سنتا رہتا تھا۔ سنا ہے وزیر اعظم نواز شریف کے والد محترم میاں شریف صاحب بھی علامہ طاہر القادری صاحب کی تقریریں بہت شوق سے سنتے تھے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے قادری صاحب کو اتفاق مسجد میں بطور خطیب تعنیات کیا تھا حالانکہ میاں شریف صاحب تو عمر میں مجھ سے بہت ہی زیادہ بڑے تھے ۔
میں آج کل اپنی امی کو کہتا ہوں کہ میں بھی جلد ہی پاکستان کا وزیر اعظم بنوں گا۔ وہ ’’حئےران‘‘ ہو کر پوچھتی ہیں کہ وہ کیسے ؟ تو میں انہیں بتاتا ہوں کہ شریف خاندان اور میری چوائس ایک ہی رہی ہے ،اگر اللہ ان کی کم عقلیوں کی سزا کے طور پر وزیر اعظم بنا سکتا ہے تو میری غلطیوں کی سزا مجھے کب ملے گی ؟؟؟۔ لیکن میری امی مجھے بالکل بھی سیریس نہیں لیتیں ، وہ سمجھتی ہیں کہ شاید میں ابھی تک بچپن کی طرح نا سمجھ ہوں ۔
میں انہیں سمجھاتا رہتا ہوں کہ دیکھیں میں اب بچپن والے سبوخ کی طرح بے وقوف نہیں رہا تو وہ میرا منہ اپنے ہاتھوں میں لیکر پیار کر تے ہو ئے کہتی ہیں ،پتر ” تو بچپن میں بھی ایسا ہی کہتا تھا” ۔ میں انہیں بتاتا رہتاہوں کہ فیس بک پر میری پیجز پر ہزاروں لوگ میری تحریریں پڑھتے ہیں ،انہیں شئیر کر تے ہیں ۔لوگ مجھے تقریروں کے لیے بلاتے ہیں اور تقریروں کے پیسے بھی دیتے ہیں لیکن امی مانتی ہی نہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ فیس بک کی بات نہ کر ،اگر ایسا ہو تا تو آج عمران خان اور پرویز مشرف میں سے کوئی ایک پاکستان کا وزیر اعظم ہو تا ۔
میری امی اور طاہر القادری میں صرف اتنا فرق ہے کہ میری امی صرف مجھے ہی بے وقوف سمجھتی ہیں لیکن طاہر القادری پوری قوم کو احمق سمجھتے ہیں ۔ دوسری چیزجو میری امی اور طاہر القادری میں مشترک ہے وہ یہ ہے کہ طاہرالقادری جب اس قوم کے خلاف ہو تے ہیں تو وہ اس قوم کے خلاف لانگ مارچ شروع کر دیتے ہیں جبکہ میری امی پاک فوج کی طرح ایک فون کال پر مجھے دھمکی دیتے ہوئے ایبٹ آباد طلب کر لیتی ہیں ۔اللہ دونوں کو خوش رکھے ۔ آمین
میری امی کو علم ہے مجھے انٹرویو دینے کا بہت شوق ہے لیکن اخباروں والے اور ٹی وی والے مجھ سے انٹرویو نہیں لیتے ۔تو وہ میرا دل رکھنے کے لیے خود ہی حامد میر بن کر میرا انٹرویو کر لیتی ہیں ۔ یوں میرا انٹرویو بھی ہو جاتا ہے اور امی کا میری حماقتوں پر یقین مزید گہرا ہو جاتا ہے ۔ گذشتہ شام امی کا فون آیا اور پوچھنے لگیں کہ
یہ تمھارا قائد طاہرالقادری کس کے ایجنڈے پر ہے ؟؟
میں :جی قادری صاحب بہت اچھے عالم دین ہیں ۔ عالم دین سے زیادہ وہ اچھے خطیب اور پر جوش مقرر ہیں بلکہ اس سے زیادہ وہ بہت اچھے پریزینٹر ہیں ۔ ان کا ایجنڈا بہت ہی سیدھا اور سادہ یے کہ وزیر اعظم مستعفیٰ ہو کر اقتدار ان کے حوالے کر دیں تاکہ وہ ملک میں جلد از جلد ۳۵ صوبے بنائیں ۔ بعض لوگ ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کے پیچھے کوئی خفیہ طاقتیں ہیں ۔ لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا ، لازمی نہیں خفیہ طاقتوں کا مقصد ہمیشہ لوگوں اٹھانا ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات انہیں نان ایشو دیکر عوام میں ان کی ساکھ گرانا بھی ہو تا ہے ۔ بعض اوقات غیر ضروری لوگوں کو قتل کر دیا جاتا ہے تاہم بعض غیر ضروری لوگ قتل کے بعد بہت اہم بن جاتے ہیں ،اس لیے آج کل قتل کی پالیسی تبدیل کی گئی ہے ۔
مجھے یوں محسوس ہو تا ہے کہ شاید کچھ لوگ میرے قائد کو اب غیر اہم سمجھنے لگ گئے ہیں ۔ وہ ان سے جان چھڑانے کے لیے انہیں نان ایشو میں الجھا کر قوم کو بتانا چاہتے ہیں کہ یہ شخصیت اب کسی کام کی نہیں رہی ۔میری محدود عقل میں ’’ان کا ‘‘ یہی ایجنڈا نظر آ رہا ہے لیکن کچھ لوگوں نے ان کے ۲۰ کارکن قتل کر کے ان کی اہمیت بڑھانے کی ’’سازش‘‘ کی ہے ۔ پوری قوم نے دونوں جانب سے کی گئی اس سازش کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
امی :اچھا تو یہ عمران خان کا کیا مسئلہ ہے ؟؟
میں :جی امی ، یہ شیخ رشید صاحب نے عمران خان کو جا کر ڈرایا ہے کہ اگر آپ نہ نکلے تو میدان سیاست کا سارا جھکاؤ قادری صاحب کی طرف چلا جائے گا ۔ عمران خان تو خود پارلیمینٹ میں ہیں ،وہ اس قسم کے احتجاج نہیں کر نا چاہتے تھے لیکن شیخ رشید ،چودھری شجاعت ،چودھری پرویز الہی اور ایم کیو ایم والے جا کر منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں بیٹھ گئے اور اسے ملکی سیاست کا مرکز بنا دیا ۔ یوں عمران خان نے مجبور ہو کر چار حلقوں والی سیاست شروع کی اور بعض ایسے مطالبات بھی کئے جس کی وجہ سے خیبر پختون خواہ کی حکومت اور تحریک انصاف کی قیادت کے کئی ارکان ان سے نالاں ہو گئے ۔ نواز شریف کی تقریر میں سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل کمیشن بنانے اور پارلیمان کی انتخابی اصلاحات کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کے قیام کے بعد اب تحریک انصاف کو اپنی فتح فتح کا سا احساس ہو نے لگا ہے جبکہ حکومت نے وقت پر اپنا داؤ کھیل کر عمران خان کی تحریک کے غبارے سے ہوا نکالنے کی کوشش کی ہے ۔
امی :اگر یہ بات ہے تو پھر حکومت اتنی ڈری ہو ئی کیوں ہے ؟؟
میں :میرا خیال ہے کہ حکومت کی خوفزدگی مصنوعی ہے ۔ ن لیگ کی حکومت پنجاب میں ہے اور قادری صاحب اور عمران خان دونوں ہی لاہور سے لانگ مارچ لیکر اسلام آباد آ رہے ہیں ۔
یعنی چھوٹے بھائی سے بڑے بھائی کی جانب ۔
دوسری بات میں یہ سمجھتا ہوں کہ حکومت ڈری ہو ئی نہیں بلکہ ڈرامائی طور پر سہمی ہو ئی ہے ۔
ملک کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں بشمول اپوزیشن حکومت کے ساتھ ہیں ۔
حکومت کو معلوم ہے کہ سندھ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی ،بلوچستان میں قوم پرست ،خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف اقتدار میں ہیں ۔یوں کوئی بھی اس وقت جمہوریت کے خلاف تحریک چلانے کی عملی طور پر تمنا نہیں رکھتا ۔فوج اقتدار میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اور وہ آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہے ۔
اصل ایشو لوڈ شیڈنگ اور مشرف کی واپسی تھی ۔ اس سارے شور شرابے میں مشرف بیمار والدہ کی عیادت کے بہانے یا اپنی بیماری کا دانہ ڈال کر نکل جائے گا اور گرمیاں ختم ہو جائیں گی ۔ یوں لوگ اصل ایشوز کے بجائے قادری صاحب اور عمران خان کی وجہ سے نان ایشوز میں الجھے رہیں گے ۔ نہ لوڈ شیڈنگ ، مہنگائی اور نہ بے روزگاری ۔۔۔جب لانگ مارچ کی گرد بیٹھے گی تو وزیرستان کے آئی ڈی پیز کی واپسی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا ۔عمران خان چار حلقوں کے بجائے اگر لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کو ایشو بنا کر لانگ مارچ کر تے انہیں عوام میں زیادہ پزیرائی ملتی لیکن اس کے لیے شاید انہیں پھر اپنے صوبے میں کام بھی کر نا پڑتا ۔
امی :اس کا مطلب ہے کہ تمھیں اس ساری جدو جہد میں ڈر یا خوف کا کوئی عنصر نظر نہیں آ رہا ؟
ڈر اور خوف کیوں نہیں ۔ بعض عسکریت پسند تنظیموں کے لوگ قادری صاحب کے ساتھ جڑ گئے ہیں ،غیر ملکی مداخلت واضح طور پر ہو رہی ہے ۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کا ماحول بنایا جا رہا ہے تاکہ پاکستان کو افغانستان ، عراق ،شام ،لیبیا ،مصر اور یمن جیسی خانہ جنگی کا شکار بنایا جا سکے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ موجودہ حالات آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے اس قسم کے لانگ مارچ کے متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ مخالف دہشت گرد بڑی آسانی کے ساتھ ان اجتماعات کو نشانہ بنا سکتے ہیں ۔ قادری صاحب کے مظاہروں کے تانے بانے اور فنڈنگ کے بارے میں لوگوں نے کئی سوالات اٹھا رکھے ہیں ۔
امی :یہ تم قادری کے ساتھ صاحب کہتے ہو لیکن باقی لوگوں کے ناموں کے ساتھ نہیں کہتے ۔کیوں ؟
میں: در اصل آج کل وہ غصے میں ہیں اور سیدھا شہید کرنے کے چکروں میں رہتے ہیں ،تو میں حفظ ما تقدم کے طور پر انہیں صاحب کہتا ہوں ۔
امی :اچھا ٹھیک ہے ۔ یہ بتاؤ کہ تم ایک دور میں طاہر القادری کی طرح عمران خان کی بڑی تعریفیں کیا کر تے تھے ۔ اب کیا کہتے ہو ؟
میں : جی امی ،وہ بس ،کیا کہتے ہیں ؟ کب کی بات ہے یہ ؟ میرا خیال ہے کہ شاید میں نے کبھی ان کی تعریف کی ہو ،ہاں ہاں ،وہ تو میں نےویسے ہی کی تھی ۔
لیکن عمران خان اگر ایک کام کرلیں تو پورا ملک ان کا احسان مند رہے گا ۔ خیبر پختونخوا کے پانچ ڈویژن ہیں اور ہر ڈویژن کا ایک صدر مقام ہے . عمران خان نے اپنی اہلیہ کو طلاق دی ہوئی ہے اور بچے باہر ہیں . بنی گالہ میں وہ اکیلے رہتے ہیں . اگر وہ اپ نے پانچ برسوں میں ہر ڈویژن میں کے صدر مقام پر بیٹھ جائیں ۔ اپنی نگرانی میں تعلیمی اداروں ، سڑکوں ، اسپتالوں ، سیوریج سسٹم ، سمیت تمام کاموں کو صاف اور شفاف طریقے سے کرائیں۔ میرٹ پر بھرتیاں ہوں ، انفراسٹکچر ٹھیک ہو جائے ۔پارک اور کھیلوں کے گراؤنڈ بنائے جائیں تو پانچ بر سوں میں خیبر پختون خواہ کے پانچ اضلاع ان کے کاموں کا منہ بولتا ثبوت ہوں گے ۔وہ یہ پانچ ماڈل اضلاع لیکر پورے پاکستان کو بتائیں کہ یہ ہے تحریک انصاف کا ویژن تو پوری قوم انہیں ووٹ دینے کے لیے تیار ہو جائے گی ۔ وہ لوگوں کو کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے فنڈز دیے تو میں نے شوکت خانم اسپتال اور نمل یونیورسٹی بنائی . آپ نے ووٹ دیے تو میں نے پانچ ماڈل ضلعے بنا دیے . دوسری بات یہ بھی ہو گی کہ پہلی بار خیبر پختون خواہ کے عوام اپنی روایت توڑ کر دوسری بار تحریک انصاف کو منتخب کر سکتے ہیں ۔
امی : یہ تم نے پہلی بار زندگی میں کوئی کام کی بات کی ہے ۔ اچھا اگر عمران خان سے ملاقات ہو تو انہیں کہنا کہ اگر ان کا ارادہ بنے تو پہلا ماڈل ضلع ایبٹ آباد کو منتخب کریں ۔ یہ چھوٹا سا شہر ہے۔سیاحت یہاں کی تباہ ہو چکی ہے ۔ اسکولوں میں ٹیچرز نہیں ۔ میونسپل کمیٹیاں کام نہیں کر تیں ۔ سیوریج کا نظام ختم ہو گیا ہے . ٹریفک کا اژدھام ہے ، اسپتالوں میں گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں . سڑکیں کھنڈر بن چکی ہیں . پورے شہر کا بیڑا غرق کر دیا گیا ہے۔
میں :جی ضرور ،میں درخواست کروں گا ۔
امی :یہ تم رات کو دیر سے کیوں سوتے ہو ؟ صبح کے پانچ بجنے والے ہیں ۔ اٹھو نماز پڑھو اور سو جاؤ ۔ میں نے تم سے مزید بھی کچھ پوچھنا تھا لیکن چلو خیر کوئی بات نہیں ، کل بات کروں گی ۔
میں : جی ،شکریہ ،اب میں سوتا ہوں ۔
امی :سونے کا نہیں کہا پہلے فجر کی نماز پڑھنے کا کہا ہے ۔
میں :جی جی ،وہی کر رہا ہوں ، پڑھ کر نماز سوتا ہوں ۔
امی :اللہ حافط
میں:خدا حافظ