مجھے بچپن کا وہ وقت بھولتا نہیں جب گھڑی کسی کسی کے پاس اور وقت ہر ایک کے پاس ہوتا تھا۔ میرے شہر گوجرانوالہ کے اردو بازار کے شروع میں جہاں ان دنوں فائر بریگیڈ اسٹیشن کی عمارت ہے، ایک چینل میدان ہوا کرتا تھا۔ اس میدان کے ایک جانب حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی کی مسجد تھی۔ دوسری جانب سو ختنی لکڑی کا ٹال۔ پاکستان میں اس وقت تک ابھی سوئی گیس اور نواب محمد اکبر خان بگٹی دریافت نہیں ہوئے تھے۔ سو! بلوچستان میں ابھی امن و امان ہی تھا اور جلانے والی لکڑی کے ٹال ہر شہر، محلے کی ضرورت بھی۔ اب اس میدان میں لکڑی کا ٹال نہیں رہا البتہ مسجد اسی آن بان شان سے موجود ہے۔ سڑک پار ایک دارالمطالعہ تھا۔ یہاں سبھی اخبارات اور کئی قسم کے رسالے پڑھنے کے لئے میسر تھے۔ ایک بڑے سے کمرے میں ایک بڑی ساری میز کے چاروں طرف کرسیاں پڑی رہتیں۔ ان پر بیٹھے لوگ مطالعہ میں مصروف رہتے کہ ابھی کتابوں، رسالوں اور اخباروں کے رقیب پیدا نہیں ہوئے تھے۔ یہ ٹی وی اور فیس بک سے پہلے کا زمانہ تھا۔ انہی وقتوں کے ایک شاعر کا شعر ہے:
یہ علم کا سودا یہ رسالے یہ کتابیں
اک شخص کی یادوں کو بھلانے کیلئے ہیں
آج کے شاعر ظفر اقبال اگر یہ کہتے ہیں تو ہم خوب سمجھتے ہیں کہ دیوار سے مراد اینٹوں سے بنی دیوار نہیں۔ یہ فیس بک والی (Wall) ہے۔
اس کی دیوار پہ لکھ آئیں غزل جاکے ظفر
آج کل کچھ اسے رغبت نہیں اخبار سے
اس زمانہ میں راہگیر اک دوسرے سے وقت بھی پوچھ لیا کرتے تھے اور کرکٹ کے تازہ اسکور بھی۔ دو دوست کہیں جا رہے تھے۔ انہوں نے سامنے سے آتے ہوئے ایک راہگیر سے کرکٹ میچ کے تازہ اسکور پوچھے۔ اس کی اسکور بارے لاعلمی کے اظہار پر وہ دونوں آپس میں ڈسکس کرنے لگے۔ ’’ بظاہر تو شریف آدمی ہی لگتا تھا‘‘۔ اب آپ پر بھی لازم ہے کہ اپنی شرافت کا ثبوت دیتے ہوئے بھٹکنے کی کوشش ہر گز نہ کریں۔ وہیں اردو بازار کے شروع میں اسی چٹیل میدان میں کھڑے رہیں جس کا ذکر میں نے اپنے کالم کے شروع میں کیا ہے۔ میں بھی اپنی یاد ماضی کے سہارے وہیں موجود ہوں۔ اس میدان میں دوپہر ڈھلنے پر مداری، بندر ریچھ نچانے والے، سانپ کاٹے کا منتر جاننے والے جوگی سینڈو اور طرح طرح کی دوائیں بیچنے والے سنیاسی اپنا اپنا مجمع لگا لیتے۔ لڑکے بالے، جوان بوڑھے، اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق کسی ایک مجمعے کا انتخاب کرتے اور پورے ذوق و شوق سے اس مجمعے کا حصہ بن جاتے۔ بچے ایک دائرے کی شکل میں زمین پر بیٹھ جاتے۔ ان بیٹھے ہوئے بچوں کے پیچھے لوگ کھڑے ہوجاتے۔ بیٹھنے والے اختتام تک بیٹھنے کے ارادے سے بیٹھتے۔ کھڑے آدمی کھڑے کھڑے اِدھر اُدھر پھرتے پھراتے، سبھی مجمعوں کا مزہ چکھتے رہتے۔ اک سنیاسی بابا مجھے آج بھی بھولا نہیں۔ اب بھی میری آنکھوں سامنے اس کی تصویر پھرتی ہے۔ آپ اسے اس زمانے کا آئی اسپیشلسٹ کہہ سکتے ہیں۔ اس کے پاس بیچنے کیلئے صرف سرمہ ہوا کرتا تھا۔ یہ سرمہ آنکھوں کے ہر مرض کا علاج تھا۔ میرے کانوں میں اب بھی اس سنیاسی بابا کی آواز گونج رہی ہے۔ ’’آنکھوں میں چنا ہو، پھولا ہو، کالا سفید موتیا ہو، آنکھوں سے پانی بہتا رہتا ہو، ان سے کم دکھائی دیتا ہو۔ آنکھوں آگے اندھیرا چھایا رہتا ہو، آپ نظر کی عینک سے نجات چاہتے ہوں۔ غرض ہر مرض بیماری کا علاج اس سرمہ میں موجود ہے۔ تکلیف بیماری والی آنکھ میں دونوں وقت اللہ رسولؐ، پنجتن پاک کا نام لے کر سرمہ کی دو سلائیاں ڈالیں۔ اللہ پاک کے حکم سے مرض دور اور آنکھ نئی نکور‘‘۔ اب اس نے نہایت عقیدت اور احترام سے اپنے مرشد کا ذکر شروع کیا۔ وہ بتانے لگا: ’’میں نے اکیس برس ہمالیہ کے دور دراز سنسان پہاڑوں پر اپنے مرشد کی خدمت کی‘‘۔رخصتی پر انہوں نے مجھے یہ نسخہ اس شرط پر دیا کہ میں اسے کمائی کا ذریعہ بنائوں اور خدمت خلق خدا کی خدمت میں مگن رہوں‘‘ اس مرحلے پر اس نے مجمع میں ایک اشتہار بھی تقسیم کیا۔ اس ایک صفحہ کے اشتہار پر سرمے کا پورا نسخہ موجود تھا۔ اب وہ نسخہ لوگوں کو زبانی بتانے لگا اور سمجھانے لگا کہ سرمہ کیسے تیار ہوگا؟۔ ’’ایک سرمہ کی صاف شیشی ڈلی لیں۔ چھ سے آٹھ فٹ لمبائی کا ایک صحتمند نوجوان کو برا سانپ ڈھونڈ لیں۔ اس زندہ سانپ کی سری کاٹ کر الگ کرلیں۔ اب باقی سانپ ہمارے کام کا نہیں۔ سانپ کا منہ کھول کر سرمہ کی ڈلی اس کے منہ میں رکھ دیں۔ اب اس سانپ کی سری کو دونوں طرف سے سوئی دھاگہ کی مدد سے سی لیں۔ اسے ایک مٹی کی کجی (ایک چھوٹا سا برتن) میں رکھ لیں۔ کجی اوپر ڈھکن رکھ کر اسے گیلی مٹی سے بند کردیں۔ یہ عمل مزید پانچ مرتبہ دہرائیں۔ سانپ کی سری جس کے اندر سرمہ کی ڈلی موجود ہے۔ اب سات کجیوں میں بند ہوگئی ہے۔ ان سات کجیوں کو اکیس روز لگا تار اوپلوں کی آگ میں رکھیں۔ یہ اوپلے گائے کے گوبر کے ہونے چاہئیں۔ اکیسویں روز آگ بجھا دیں۔ آگ ٹھنڈی ہونے پر وہ ساتوں کجیاں باری باری توڑ کر سانپ کی سری باہر نکال لیں۔ یہ سیاہ سرمہ اب سفید گلاب کی طرح دکھائی دے گا۔ اسے جلی ہوئی سانپ کی سری سے الگ کرلیں۔ اس سرمہ میں اکیس جڑی بوٹیاں جن کے نام اشتہار میں درج ہیں ڈال کر اکیس روز تک عرق گلاب میں کھرل کرتے رہیں۔ اکیسویں روز سرمہ تیار ہو جائیگا۔ آپ اسے بے دھڑک استعمال میں لا سکتے ہیں۔ شفا میرے مولا کی جانب سے ہے۔ اگر میرا کوئی دوست بھائی بوڑھا بچہ اتنا تردد، محنت نہیں کر سکتا تو وہ یہ سرمہ مجھ سے لاگت کے مول لے سکتا ہے۔ اس نے تردد اور محنت کی بجائے لفظ ’’کھیچل‘‘ استعمال کیا تھا۔ پنجابی لفظ کھیچل کے معنی تردد، زحمت اور محنت کے ہیں۔ اس نے سرمے کا ہدیہ دو آنے فی شیشی بتایا۔ لیکن اس کا اعلان تھا کہ ایک بندے کو صرف ایک شیشی ملے گی۔ میں نے موقع ضائع کئے بغیر جھٹ سے ایک شیشی خرید لی۔ میں وہاں شیشی کا اکیلا گاہک نہیں تھا۔ سبھی لوگ بڑھ چڑھ کر خرید رہے تھے۔ ہم سب پاکستانی ہمیشہ کھیچل سے بچ کر کسی شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ پھر روز روشن دھوکے بھی کھاتے رہتے ہیں، یہی ہماری قومی تاریخ ہے۔ہم اب بھی کسی ایسے مسیحا کے منتظر ہیں جو ایک ہی نظر میں ہماری سیاست، ہماری معیشت اور ہمارے سماج کے تمام امراض دور کردے اور ایک صبح جب ہم سو کر اٹھیں تو ہر طرح کی کرپشن سے پاک پاکستان میں سانس لے سکیں۔ پس نوشت: جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی رحلت کی خبر ٹی وی پر نشر ہو رہی ہے۔ گوجرانوالہ کے شاعر میجر شہزاد نیئر اس بات پر دل گرفتہ دکھائی دیئے کہ ٹی وی چینل کے نو عمر اینکرز مرحوم کی شخصیت کے سب سے اہم پہلوان کے دانشور ادیب ہونے کا ذکر نہیں کر رہے۔ یہی ہمارا قومی، علمی المیہ ہے۔