تحریر: ردا رفیق،
فاسٹ یونیورسٹی ۔ فیصل آباد کیمپس
۔۔۔۔۔۔۔۔
’پتر اِدھر آجا، کیوں پاوں گندے کرتی ہے؟‘
اس نے نانا نے چارپائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُسے پاس بلایا، وہ یوں ہی ننگے پاوں اُن کے پاس جا کے بیٹھ گئی۔
’مجھے مٹی میں چلنا پسند ہے ابو جی‘۔
وہ یہ کہتے ہوئے اپنے نانا سے چمٹ گئی۔
’کتنی پیاری لگتی ہے جب ابو جی کہتی ہے، بالکل ماں جیسی ہے اپنی۔۔۔!! ‘ انہوں نے سوچا، پھر اس سے گویا ہوئے:
’کیوں چندا ؟ کیوں پسند ہے تجھے اتنی مٹی۔۔!! ‘
’مٹی میں بہت اپنائیت ہے ناں۔۔۔’
’وہ کیسے؟’ انہوں نے استفسار کیا
وہ کچھ دیر چپ ہو گئی ، اور دور خلا میں جیسے کچھ ڈھونڈنے سی لگی، پھر چمکتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ بولی:
’سب کچھ، ہر چیز، مٹی ہی تو ہے ابو جی ، میں، آپ، ہر چیز۔۔۔۔!!’
اس کے نانا حیرت کے بت بنے چپ چاپ اسے دیکھ رہے تھے۔
’مٹی میری اوقات ہے ابو جی،
کبھی زندگی دیتی ہے، بالکل ایسے ہی جیسے جیسے پودے کو سارے نوٹرینٹس ملتے ہیں اسی سے۔۔۔!!!
اور ماں کی گود میں بچہ ہو جیسے۔۔۔!!
بلکہ ماں کا پیار ہو جیسے۔۔۔!!
وہ بھی تو مٹی کا مٹی سے پیار ہی ہے ناں؟
اور یہ زندگی چھین بھی لیتی ہے ، بالکل ایسے ہی جیسے مُردہ جسم کو کھا جاتی ہے،
اور اسی مٹی سے بنا انسان دوسرے کو قتل کردیتا ہے، اپنے الفاظ، اپنے اعمال سے ۔۔۔۔!!
سب مٹی ہی تو ہے ابو جی۔۔۔!!
ایک لمحے کو انسان مٹی کو اپنے پاوں کے نیچے روندتا جاتا ہے، اسی گمنڈ میں کہ وہ بہت بڑا اور طاقت ور ہے،
اور پھر وہ لمحہ بھی آتا ہے جب اس کے بے جان جسم کو یہی مٹی لپیٹ لیتی ہے، اور اس کے پاس کیا رہ جاتا ہے ؟ صرف مٹی،
سب مٹی ہی تو ہے، میری اوقات ہی مٹی ہے ابو جی۔۔!!‘
اس نے اپنا چہرہ اپنے نانا کی گود میں چھپا لیا، اور وہ اس کے بال سہلاتے ہوئے سوچنے لگے :
اس کی مٹی کو جزا بخش میرے مولا، مٹی کو ایک دن مٹی میں ہی جانا ہے۔
ویکھ فریدا مٹی کھلی، مٹی اُتے مٹی ڈھلی
مٹی ہسے ، مٹی روے، انت مٹی دا مٹی ہوے