سپریم کورٹ نے سلمان تاثیر قتل کیس میں ممتاز قادری کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ان کی سزائے موت کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے مجرم ممتاز قادری کی جانب سے سزائے موت کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ٹرائل کورٹ اور اسلام آبائی ہائی کورٹ کی جانب سے ممتاز قادری کے خلاف فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ممتاز قادری کی اپیل مسترد کردی۔ سپریم کورٹ نے ممتاز قادری کے مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات بھی بحال کردیں۔
اس سے قبل سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ کئی سالوں سے یہ آگہی ہے کہ توہین رسالت قانون کاا غلط استعمال ہو سکتا ہے، قانون شہادت ہر چیز پر لاگو ہوتا ہے، پی پی سی سیکشن 195 کے تحت جھوٹی گواہی دینے والے کی سزا عمر قید ہے، ہم سوچ رہے ہیں کہ جھوٹی شہادت دینے والوں کو بھی سخت سزا دی جائے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ مغربی معاشرے میں حضرت عیسی علیہ السلام کی توہین کرنے پر سخت سزا دی جاتی تھی لیکن جب آزادی اظہار کا قانون آیا تو سزاؤں میں نرمی ہو گئی، کوئی بھی معاشرہ بغیر برداشت کے قائم نہیں رہ سکتا، ہم احتجاج میں اپنی عمارتوں کو جلا دیتے ہیں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مذہبی رواداری کے حوالے سے تربیت مذہبی مقامات پر ہونی چاہیے۔ ہائی کورٹ کا کام نہیں کہ وہ شریعت کی تشریح کرے، اس کے لئے وفاقی شریعت کورٹ موجود ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد کی مقامی عدالت نے ممتاز قادری کو سابق گورنر سلمان تاثیر کے قتل پر 2 مرتبہ پھانسی اور ایک ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے سزا برقرار رکھتے ہوئے انسداد دہشت دہشت گردی کی دفعہ 7 کے تحت سزائے موت اور جرمانہ ختم کردیا تھا۔