اسلام آباد ایئرپورٹ پر اسلام آباد سے گلگت کے لیے پی آئی اے کی پروازوں کے بار بار کینسل ہونے پر تنگ آئے مسافرین میں سے گلگت بلتستان حکومت کے وزیر فدا خان نے ایک ائرپورٹ ملازم کو جھڑکا اور دھکیلا۔ واقعے کی ویڈیو کلپ بنا اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ دو دن کے اندر ہی قومی ذرائع ابلاغ پر ٹاک شوز ہونے لگے، عوام نے زور لگایا کہ ایسے شخص کو نشان عبرت بنایا جائے اور یوں چیف جسٹس نے سو موٹو نوٹس لیا اور اگلے دن ہی گلگت سے آ کر اسلام آباد سپریم کورٹ میں حاضر ہونے کو کہا۔
بالکل اسی نوعیت کا واقعہ گلگت بلتستان کے پسماندہ علاقے ضلع گانگچھے میں پیش آیا۔ وفاق کی طرف سے گلگت بلتستان میں بطور چیف سیکریٹری تعینات بابر حیات تارڑ علاقے میں سرکاری اداروں کے دورے پر تھے۔ ایک شخص نے ان سے کہا کہ سر اس پورے پہاڑی اور پاسماندہ ضلع میں زچگی کے معاملات دیکھنے کے لیے ایک بھی ڈاکٹر یا دایا نہیں ہے۔ آپ گلگت بلتستان کے چیف سیکریٹری ہیں سر آپ ہمیں صرف ایک ڈاکٹر دیدیں۔ آپ ڈسٹرکٹ ہسپتال میں ایک گائنی ڈاکٹر یا تجربہ کار دایا کو فوری طور تعینات کروائیں۔ ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں مر رہی ہیں۔ یہاں سے ڈیڑھ دو سو کلومیٹر دُور سکردو شہر پہنچنے تک راستے میں بہت سی مائیں جاں بحق ہو چکی ہیں۔
بس اتنا کہنا تھا وفاق کے نمائندے کی حب الوطنی کے خون نے جوش مارا اور سائل کو جھڑک کے کہا تم یہ بتاو کہ تم لوگ ٹیکس کتنا دیتے ہو؟ سائل نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ سر ہماری فریاد سنیں ہم چیف سیکریٹری کو گزارش کرتے آئے ہیں مگر ہر دفعہ چیف سیکریٹری ہمارے اس مطالبے کو ٹرخا کر چلے جاتے ہیں۔ چیف صاحب نے سائل کو جھڑک کے پھر پوچھتا ہے کہ پہلے تم یہ بتاو تم لوگ ٹیکس کتنا دیتے ہو؟۔ سائل جواب دیتا ہے کہ ہم متنازعہ علاقے کے ہیں۔ ہم پر ٹیکس نہیں لگتا۔ چیف صاحب کہتا ہے تم متنازعہ علاقے کے نہیں ہو پاکستان گلگت بلتستان پر سو ارب روپے خرچ کرتا ہے۔
سائل نے پھر کہا کہ سر برائے مہربانی ہماری اپیل سنیں ہماری بہت مائیں مر رہی ہیں۔ چیف جواب میں اسے پھر سے جھڑک کے کہتا ہے کہ جھوٹ مت بولیں اتنی نہیں مرتیں پچھلے دو سالوں میں صرف پینتیس مائیں زچگی میں مری ہیں یہ کوئی بڑی تعداد نہیں ہے۔ سر عام بازار میں ہونے والی اس گفتگو کا ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر آ جاتا ہے۔
اس اہانت آمیز رویے پر گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوتا ہے اور چیف سیکریٹری کو عوام سے معافی طلب کرنے اور فورا اسے معطل یا تبدیل کرنے کا مطالبہ ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان کے خود دار عوام کی تحقیر و تذلیل کرنے پر چیف سیکریٹری کے خلاف سوشل میڈیا پر گلگت بلتستان کے سبھی صارفین اور ان سے ہم دردی رکھنے والے دیگر لوگ اس ہر آواز اٹھاتے ہیں۔ کچھ دن بعد یہ الزام مسترد کرتے ہوئے چیف سیکریٹری کہتا ہے کہ اس ویڈیو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے اتنے میں اس واقعے کے کئی اور ویڈیو کلپس سامنے آئے جن سے موصوف کی رعونت مزید آشکار ہو گئی.
اس ایشیو پر قومی ذرائع ابلاغ پر کوئی پروگرام کرتا ہے اور نہ ہی سوشل میڈیا پر تہلکہ مچتا ہے۔ چیف جسٹس کے کانوں کو خبر پہنچتی ہے اور نہ نظروں کو نظر آتی ہے کہ اس کا نوٹس لیا جائے۔ چنانچہ عوام کے شدید غم و غصے اور مطالبے کے باوجود انہوں نے جی بی عوام سے معافی مانگی اور نہ ہی جی بی حکومت سمیت کوئی مقامی طاقت اس کا تبادلہ یا معطلی کا مطالبہ کرنے کی جرات کر سکی.
[pullquote]غلط دونوں حرکتیںہیںجن کا کوئی اخلاقی و قانونی جواز نہیں اور نہ ہی ایسی رعونت کا کوئی دفاع کر سکتا ہے. بات ریاست کے رد عمل میں تضاد کی ہے. ان دونوں فرعون صفت عوامی ٹیکس خور سرکاری عہدہ داروں کے مابین فرق صرف یہ ہے کہ اسلام آباد ائرپورٹ پر ائرپورٹ ملازم کو جھڑکنے والا پاکستان کا غیر آئینی اور متاثرہ شخص آئینی شہری شمار ہوتے ہیں جبکہ گلگت بلتستان کا چیف سیکریٹری بلکہ وفاق کا وائسرائے آئینی شہری اور علاقے کے سرکاری ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال میں گائنی ڈاکٹر مانگنے والا سائل غیر آئینی شہری شمار ہوتے ہیں۔ [/pullquote]
یہی فرق ہے رعایا اور شہری میں۔ غیر آئینی باشندہ شہری نہیں بلکہ رعایا شمار ہوتے ہیں۔ رعایا کو خیرات اور حکم ناموں سے چلایا جاتا ہے اس کے کوئی حقوق نہیں ہوتے جبکہ شہری کے حقوق ہوتے ہیں جس کا تحفظ ریاست و آئین کرتا ہے۔
[pullquote]رعایا اور شہری میں فرق کو ایک اور تازہ مثال سے بھی سمجھ لیجیے.[/pullquote]
اٹھارہ نومبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور رکن قومی اسمبلی جناب بلاول بھٹو زرداری صاحب گلگت میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"شہید ذولفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان کے غریب عوام کے سر پر ہاتھ رکھا” آپ نے کہا کہ "گلگت بلتستان سے محبت تین نسلوں پر مشتمل ہے اور شہید نانا اور شہید ماں سے ورثے میں ملی”
بلاول بھٹو زرداری صاحب آپ ایک بڑی جمہوری آواز ہوتے ہوئے اور جمہوریت کے لیے سب سے زیادہ قربانیوں کا وارث ہوتے ہوئے بھی سر پر ہاتھ رکھنے کی بات کر رہے ہیں تو دیگر غیر جمہوری طاقتوں اور ان کے جمہوری نما چیلوں سے کیا گلہ۔ آپ جاگیردار کے لہجے میں نہیں بلکہ ایک جمہوری لیڈر ماں کے جمہوری لیڈر بیٹے کے لہجے میں بات کرتے ہوئے اچھے لگتے ہیں. آپ کی پوری تقریر کا زیادہ تر حصہ گلگت بلتستان کی موجودہ اور وفاقی کی سابقہ حکمران جماعت مسلم لیگ نون کی اور وفاق میں حکمران جماعت تحریک انصاف حکومت کی پالیسیوں پر تنقید پر مشتمل تھا، تحریک انصاف پر تنقید کے لیے ہمارے پاس کیا لینے آئے ہیں جن کو ووٹ کا حق ہی حاصل نہیں ہے، ان پر تنقید آپ پارلیمینٹ کے فلور پر یا آئینی صوبوں کے عوام سے خطاب میں کریں۔ آپ تو گلگت بلتستان کے حقوق پر آواز اٹھانے گلگت آئے تھے۔ آپ نے کل ہی واقع ہونے والے دو بڑے ریاستی جبر پر بھی لب کشائی نہیں کہ کیوں قومی کانفرنس جس میں آپ نے بھی بطور خصوصی مہمان خطاب کرنا تھا کو جبری بالکل آخری وقت پر منسوخ کروایا گیا، گلگت بلتستان کے مقبول ترین رہنما مولانا سلطان رئیس کی کل ہی گرفتاری پر بھی آپ خاموش رہے۔ گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالی پر بھی آپ نے ایک حرف زبان پر نہیں لائے۔ آپ نے سیاسی جدو جہد کی بنیاد پر انسداد دہشت گردی کا دفعہ چار کے ریاستی شکنجے میںجکڑے ڈیڑھ سو سے زاید جمہوری کارکنوں اور درجن بھر سیاسی اسیروں کا تذکرہ تک نہیں کیا.
گلگت بلتستان کے لاکھوں عوام سے آپ کو محبت اپنے شہیدوں سے ورثے میں ملی ہے تو گلگت بلتستان کے بنیادی حقوق اور خود مختاری کے لیے پارلیمنٹ میں جی بی عوام کی امنگوں کے مطابق اصلاحات کی تحریک چلائیں اور گلگت بلتستان کے ستر سالہ غصب شدہ بنیادی حقوق کو فراہم کرنے کے لیے موثر کردار ادا کریں۔ ہمیں رعایا نہ سمجھیں بلکہ جمہوری حقوق کے حقدار شہری سمجھیں اور ہمارے حقوق کی جنگ لڑیں. ورنہ ہم یہی سمجھیں گے کہ آپ علاقے میں ۲۰۲۰ کے انتخابات کے لیے انتخابی ماحول بنانے آئے اور چلے گئے۔
[pullquote]گلگت بلتستان کی باشعور نئی نسل یہ دیکھ رہی ہے کہ چاہے بلاول بھٹو ہوں، نواز شریف ہوں، عمران خان ہوں، مولانا فضل الرحمن ہوں، علامہ ساجد نقوی ہوں، علامہ راجہ ناصر ہوں یا گلگ بلتستان کی سیاست دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی لیڈر یا وفاق کی سیاسی تنظیم ہر کسی کو گلگت بلتستان کے عوام کی صرف اتنی فکر لاحق ہے کہ کسی بھی آنے والے مقامی الیکشن میںاس کو کتنی سیٹیں ملے. گلگت بلتستان کی اکہتر سالوںسے غصب شدہ خود مختاری اور جمہوری حقوق کے لیے کوئی بھی وفاقی سیاسی تنظیم سنجیدہ کوشش نہیں کر رہی ہے.[/pullquote]
بلکہ ان سیاسی تنظیموں کی طرح وفاق ہمیشہ گلگت بلتستان کے عوام کو رعایا سمجھ کران کے سروں پر ہاتھ رکھنے کی ہی بات کرتا ہے، خیرات دینے کی بات کرتا ہے، اور رحم و ترس کھانے کی بات کرتا ہے۔ گلگت بلتستان کے بیس لاکھ عوام یتیم نہیں ہیں کہ ان کے سروں پر ہاتھ رکھے جائیں، ہم سندھ کے وڈیروں، پنجاب کے جاگیرداروں، کے پی کے مشران، بلوچستان کے سرداروں کے مقابلے میں غریب ضرور ہیں، ہمارے ہاں سیاسی، عسکری اور کاروباری اشرافیہ تعداد میں ابھی تھوڑی ہی ہے اور لوئر مڈل کلاس غریب اور مزدور طبقہ بھاری اکثریت میں ہیں مگر ہم سندھ کے افلاس زدہ، بلوچستان کے قحط زدہ، خیبر پختون خواہ کے فساد زدہ اور پنجاب کے استحصال زدہ غریب طبقے سے زیادہ غریب، بے بس و لاچار بھی نہیں ہیں، جہالت، منافرت، ظلم و ستم اور اخلاقی دیوالیہ پن کے شکار نہیں ہوئے. بھوک کی وجہ سے آج تک ایک انسان بھی گلگ بلتستان میں نہیں مرا جبکہ آپ کے ہاں روز درجنوں لوگ بھوک اور ظلم و استحصال سے مرتے ہیں۔ ہر طرح کے جرائم کی شرح کسی بھی علاقے سے گلگت بلتستان میں کم اور شرح تعلیم کسی بھی علاقے سے زیادہ ہے. لہٰذا گلگت بلتستان کے لاکھوںعوام کسم پرس نہیں کہ ان پر ترس کھا جائے. ہم خود دار و سربلند قوم ہیں. گلگت بلتستان کے عوام کو جمہوری و بنیادی شہری حقوق چاہیئں، خیرات نہیں۔ ہمیں غلامی نہیں بلکہ اپنی سرزمین پر حق حکمرانی چاہیے، ہمیں خود مختاری چاہئیے حکم نامے نہیں۔ ہمیں اپنے عوام اور وسائل کے فیصلے کرنے کا اختیار چاہیے، لولی پاپ اور نعرے نہیں.
گلگت بلتستان کے ساتھ ریاست کے برتاؤ اور وفاقی تنظیموں اور رہنماؤں کے کردار کو دیکھ کر ہم سمجھ بیٹھیں گے کہ ہم شہری نہیں رعایا ہیں. جن کے حقوق نہیں ہوتے بلکہ انہیں آقا کے سامنے سرتسلیم خم ہونا ہوتا ہے. جن کے تہتر ہزار مربع کلومیٹر علاقے اور اس میں موجود ہر خشک و تر کا مالک نہیں بلکہ چوکیدار بن کر رہنا ہے. ہم قربانی کے ایسے پہاڑی بکرے ہیں جنہیں آقا کی منشا و ضرورت کے مطابق مرنے کٹنے کے لیے ہر وقت اور ہرجگہ دستیاب و تیار رہنا ہے. یزاروں ایسی قربانیوں کے باجود بھی آقا سے ہماری وفاداری پھر بھی ہمیشہ مشکوک ہی رہتی ہے۔ اگرچہ ہمارے ہاتھوں سے ملک میں ایک پتہ بھی نہ توڑا گیا ہو مگر صبح شام ہمیں غدار، ایجنٹ، ملک دشمن کے طعنے سننے اور سہنے پڑتے ہیں۔
ہماری اوقات یہ ہے کہ باقی چار صوبوں کی ضرورت پورا کرنے کے لیے جو ڈیمز آن کی اپنی مخالفت کے باعث وہاں نہ بنائے جا سکیں وہ اسی سر زمین اطاعت پر بنائے جا رہے ہیں، اقتصادی راہداری اسی سرزمین سے گزار کر اس کے فیصلوںاور منصوبوں میں اسے محروم کیے جا رہے ہیں، اسی سرزمین کے ہزاروںا یکڑ زمینوں پر بلامعاوضہ قبضے کیے جا چکے ہیں اور مزید کیے جائیں گے، ان سب جابرانہ مظالم پر ہم نے نہ صرف خاموش رہنا ہے بلکہ جوش غلامی میں جھومنا بھی ہے اور اپنے بچوں کو یہ عبرت ناک سبق پڑھانا ہے کہ اگر کوئی ناخلف و ناہنجار ان شاہی فیصلوں پر انگلی اٹھائے یا حقوق جیسے منحوس لفظ کو زبان پر لے آنے کی کوشش کی تو ایسے گستاخوں اور غداروں کو سلاخوںکے پیچھے کروایا جائے گا پھر بھی وہ باز نہ آئے تو ایسے بد باطن وجود سے سرزمین اطاعت کو پاک کیا جائے گا.
[pullquote]اکیسویں صدی کی آخری کالونی گلگت بلتستان میں بسنے والے رعایا کا کوئی عمرانی معاہدہ، دستور یا آئین تشکیل نہیں پایا اسی لیے ان کے حقوق کا کوئی محافظ ہے اور نہ ترجمان. گلگت بلتستان کا ریاست پاکستان کے ساتھ کوئی معاہدہ طے پایا ہے نہ کوئی قانونی بندھن. گلگت بلتستان میں وفاق کا کوئی ادارہ قانونی طور پر عمل دخل کرنے کا آئینی و قانونی جواز نہیں رکھتا۔ کیونکہ آئین پاکستان سے جڑے ہوئے تمام آئینی اداروں کے آئینی دائرہ کار سے گلگت بلتستان باہر ہے. بس تہتر ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر مبنی قدرتی وسائل اور تزویراتی محل وقوع پر مشتمل علاقے پر قبضہ برقرار رکھنے اور بیس لاکھ عوام کی بطور رعایا کفالت کے لیے انہیں اپنے ماتحت رکھے ہوئے ہیں۔ [/pullquote]
سوال یہ ہے کہ پاکستان’ گلگت بلتستان کو کب تک رعایا بنائے رکھ پائے گا؟ اطلاع رسانی و آگہی کے اس جدید ترین دور میں شاید زیادہ دیر تک نہیں۔