تجزئیے تو بہت پڑھے ہیں اب تردیدی تجزیے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ان تردیدی تجزیوں کا کمال یہ ہے کہ کسی تجزئیے کے ردعمل میں یک طرفہ دلائل کے ساتھ ذاتی گواہی کی آمیزش سے عوامی شعور میں اضافے کی بجائے لوگوں کو الجھن کا شکار کیا جاتا ہے۔
نئی تحقیق کی بجائے دوسروں کی تحقیق یا تجزئے کی نفی کی جاتی ہے اور وہ بھی اس طرح کہ اصل تجزئیے کے مالک کا نام یا اس کی تحریر کا حوالہ تک نہیں دیا جاتا۔بات تو تب ہے کہ تجزیات میں جواب دینے کے لئے سوالات اور ان کے تجزیہ کاروں کا نام اور حوالہ بھی دیا جائے۔
اس نئے رجحان کی ایک مثال بے نظیر بھٹو کے قتل سے متعلق دو تجزیوں کی صورت میں سامنے آئی۔پہلا تجزیہ 8اکتوبر کو حامد میر نے تحریر کیا اور دوسرا تجزیہ 10اکتوبر کو سلیم صافی کی طرف سے دیکھنے کو ملا۔پہلے تجزئیے میں حامد میر نے بے نظیر بھٹو کے قتل سے متعلق پرویز مشرف کے دھمکی آمیز ٹیلی فون کی مارک سیگل کی طرف سے گواہی کی تفصیل اور پس منظر بیان کیا۔
حامد میر کا یہ کہنا تھا کہ پرویز مشرف سے متعلق مارک سیگل کی گواہی کوئی واحد ثبوت نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی حالات و واقعات ایسے تھے کہ جن کی کڑیاں سابق فوجی حکمران سے ملتی تھیں۔حامد میرکے مطابق بے نظیر نے خود ان کو بھی بتایا تھا کہ "کراچی میں حملے کی ذمہ دار حکومت تھی اور یہ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے”۔حامد میر نے اس تحریر میں کسی کو قاتل ثابت کرنے کی بجائے محض چند اہم سوال اٹھائے تھے۔وہ لکھتے ہیں "اگر حکومت کو یقین تھا کہ 27دسمبر 2007ءکو راولپنڈی میں ان پر)بے نظیر بھٹو) پر حملہ ہونے والا ہے تو وہاں سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیوں نہ کئے گئے؟بے نظیر بھٹو کو ڈرا ڈرا کر جلسے جلوسوں سے روکنے اور پاکستان سے بھگانے کی کوشش کیوں کی گئی؟جو نہ بھاگے اسے دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے”۔
یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم تاج نے رحمٰن ملک کی موجودگی میں جب بے نظیر بھٹو کو ممکنہ حملے کے بارے میں خبردار کر دیا تھا تو کیا محض خبردار کرنا کافی تھا۔یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ ایک طرف تو غیر معمولی حفاظتی اقدامات کے باعث جنرل مشرف پر چند سال پہلے ہی یکے بعد دیگرے مگر بیک وقت ہونے والے دو خودکش حملوں کو ناکام بنا کر جنرل مشرف کو بخیریت گھر پہنچا دیا گیا تھاتو کیا وجہ تھی کہ بے نظیر بھٹو کو محض خبردار کر کے ان کی حفاظت سے خود کو بری الذمہ قرار دیا جا رہا ہے۔
حامد میر کے اس تجزئیے کے دو دن بعد سلیم صافی نے بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے اس پر لکھے گئے اپنے پہلے کالم میں جنرل مشرف پر لگائے گئے الزام کو محض اس لئے جھوٹا قرار دیا کہ ایک امریکی مارک سیگل نے مشرف کی بے نظیر بھٹو کو ٹیلی فون پر دی گئی دھمکی سے متعلق گواہی دی ۔بقول سلیم صافی کے مارک سیگل بے نظیر بھٹو کا تنخواہ دار لابسٹ تھا اور وہ ایک جھوٹا اور سازشی آدمی ہے۔
سلیم صافی نے اپنے تجزئیے میں نہ صرف یہ کہ حامد میر کے کالم کا ذکر نہیں کیا بلکہ ان کے اٹھائے گئے اہم سوالات کا جواب دینے سے بھی گریز کیا ۔دلیل دی گئی کہ مارک سیگل میں اخلاقی جرات ہوتی تو قتل کے فورا بعد تحقیقات میں معاونت کے لئے پاکستان آ جاتے۔”اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا”۔جس ملک میں دن دھاڑے سابق وزیراعظم قتل ہو جائے اور الزام فوجی حکمران پر ہو تو ایسے میں ایک امریکی پاکستان کیونکر آئے گا۔اور کیا یہ چیز اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہے ۔
ہمیں امریکی شہری منصور اعجاز کے پاکستان آنے سے انکار کا قصہ تو یاد ہو گا جس کے باوجود اسکی گواہی کو تسلیم کیا گیا ۔سلیم صافی کے مطابق بے نظیر کے قتل میں پرویز مشرف کے ملوث ہونے کے الزام کو ان کا ذہن قبول نہیں کرتا۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ ایک اچھے تحقیقاتی صحافی کی طرح وہ اپنے طالبان اور القاعدہ کے خبری رابطوں کی بنیاد پر تجزئیے کی بجائے کوئی بریکنگ نیوز ہی دے دیتے کہ بے نظیر کے قتل میں پرویز مشرف نہیں القاعدہ اور طالبان ہی ملوث ہیں۔
سلیم صافی نے اپنے تفصیلی تجزئیے کے بعد ایک جملے میں ہتھیار بھی پھینک دئیے۔اپنے کالم کے آخر میں ان کا کہنا تھا کہ”زیادہ سے زیادہ یہ الزام لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کماحقہ سکیورٹی فراہم نہ کرنے کی غفلت کی مرتکب ہوئی لیکن ایک رات قبل ڈی جی آئی ایس آئی کا خود بے نظیر بھٹو سے ملاقات اور انہیں خطرے سے آگاہ کرنا، کیا غیر معمولی حساسیت کا اظہار نہیں۔عجب منطق اور دلیل ہے کہ حکومتی غفلت کا بھی محض”الزام”لگایا جا سکتا ہے مگر وہ بھی کمزور ہو گا۔کیونکہ بے نظیر بھٹو کو ایک رات پہلے بتا دیا گیا تھا ۔ارے بھائی کیا بتایا گیا تھا ؟یہی کہ ” ساڈے تے نہ رہنا، جاگدے رہنا”۔کیا ریاست کی یہ دلیل مضبوط ہے ؟
سلیم صافی نے ایک طرف تو ریاستی غفلت کے امکان کو معمولی کوتاہی ثابت کرنے کی کوشش کی بلکہ جنرل مشرف اور آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل ندیم تاج کو بھی غیر ضروری طور پر کلین چٹ دینے کی کوشش کی۔جنرل ندیم تاج کو غیر متنازعہ اور پیشہ ور فوجی قرار دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ وہ "سیاسی مزاج کے حامل متنازعہ ڈی جی آئی ایس آئی نہیں تھے”۔
حیرت ہے کہ اسی اخبار میں حامد میر نے جنرل ندیم تاج کا بطور ڈی جی ایم آئی سابق چیف جسٹس سے استعفٰے کے مطالبہ اور اس سے پہلے بطور کرنل 12اکتوبر کی فوجی بغاوت کے بعد سیاسی کارکنوں پر تشدد کے حوالے سے تفصیلات لکھی ہیں۔اسی طرح سلیم صافی نے خود تو بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام صرف طالبان اور القاعدہ پر ڈال کر بڑی بہادری کا مظاہرہ کیامگر ایسا نہ کرنے پر پیپلز پارٹی کو بزدلی کا طعنہ بھی دیا۔مگر پھر جب الزام محافظوں پر ہی ہو تو مالکوں کو ایسی بزدلی بھی دکھانی ہی پڑتی ہے ۔ کیونکہ دہشت گردوں سے محفوظ رہنے کے لئے بھی محافظوں کا ہی سہارا ہوتا ہے۔”میں کٹہرے پاسے جاواں ، میں منجی کتھے ڈھانواں”۔بہرحال بزدلی تو یقینا تھی ہی تبھی تو آصف زرداری نے اقوام متحدہ کی چشم کشا رپورٹ پر بھی تحفظات کا اظہار کر دیا تھامگر ایک بزدل شوہر کی بزدلی کی سزا پوری قوم کو نہیں دی جا سکتی اور یہ کسی سرکاربہادر کی مظلومیت کی بھی دلیل نہیں ہو سکتی۔
اگر بے نظیر بھٹو 18اکتوبر کی طرح 27دسمبر کو بھی زندہ بچ جاتیں تو تب بھی ہونا وہی تھا جو اس ملک میں ہوتا آیا ہے یعنی کچھ نہیں اور قبرستان جیسی خاموشی جس کا ذکر حامد میر بھی کر چکے ہیں مگر پھر خودحامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد سے ہمارے معاشرے میں قبرستان جیسی خاموشی ہے۔اعلیٰ ترین عدالتی کمیشن کے جج صاحبان، حکومت، صحافتی تنظیمیں حامد میر کا ادارہ، نام نہاد سول سوسائٹی اور فلسطین اور افغان جہاد کے نڈر اور بےباک صحافی و اینکر حضرات بھی آج حامد میر پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات سے متعلق خاموش ہیںاور شاید اس وقت زبان کھولیں جب کسی طاقتور پر انگلی اٹھے گی۔
پہلی افغان جنگ کے بہت سے جہادیوں نے بے گناہ افراد کے خون سے کھیل کر بندوق کا ہتھیار پھینک کر توبہ توکر لی تھی مگر ان میں سے کچھ نے قلم کا ہتھیار اٹھا کر مبینہ گنہگاروں کو بچانے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ اپنے سماجی ، قبائلی، نظریاتی،مذہبی تعصبات کے باعث جن لوگوں نے بے نظیر بھٹو کی موت کو گزشتہ 8سال سے قابل تحریر نہیں سمجھا اور جنہوں نے طالبان کے سربراہ ملا عمر کی موت پر آہ و بکا کی ("آہ! ملا عمر”)۔وہ لوگ جب اس معاملے پر پہلی بار قلم کا ہتھیار اٹھاتے ہیں تو بھی کسی ملزم کے دفاع میں ۔تعصب کی انتہایہ ہے کہ مقتول خاتون وزیراعظم کے بارے میں لکھا جاتا ہے کہ”محترمہ جب تک زندہ تھیں وہ اپنی زندگی کو لاحق خطرات کے معاملے کو سیاسی فائدے کے لئے استعمال کرتی رہیں”۔
اس سے زیادہ شرمناک تجزیہ کیا ہو سکتا ہے کہ ایک مقتول خاتون وزیر اعظم کو اپنی جان کو درپیش خطرات سے دنیا کو آگاہ کرنے کو سیاست قرار دیا جائے اور ان خطرات کے درست ثابت ہونے پر (یعنی قتل ہو جانے کے بعد)نامزد ملزمان کے خلاف سنجیدہ تحقیقات کی ضرورت پر زور دینے کی بجائے ان کا دفاع کیا جائے اور مقتول خاتون وزیراعظم کو اپنے قتل کا خود ہی ذمہ دار قرار دیا جائے۔
کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے