گم کی دلچسپ کہانی میں فلم کہیں گم

پاکستانی سینما کی تجدید نو کے بعد یہاں مختلف اصناف کی فلموں کا بننا یقینا ایک خوش آئند بات ہے لیکن اس میں فلم بینوں کی دلچسپی کو برقرار رکھنے کے لیے کہانی اور فلم کے تکنیکی پہلوؤں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔

اس ہفتے ریلیز ہونے والی پاکستانی ایکشن تھرلر ‘گم: ان دی مڈل آف نو ویئر’ کی کہانی میں گو کہ دلچسپی اور تجسس کو برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی گئی لیکن فلم کی کمزور پروڈکشن کی وجہ سے اچھی کہانی کو بھی بہتر طریقے سے پیش نہیں کیا جاسکا۔

گم ہدایت کار عمارلاسانی اور کنزہ ضیا کی پہلی مشترکہ فیچر فلم پروڈکشن ہے۔ فلم دنیا بھرمیں تقریبا آٹھ فیسٹول میں نمائش کے لیے پیش کی جا چکی ہے جن میں سے چھہ میں ایوارڈز حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہی ہے۔

فلم کے آغاز میں اسد نامی شخص (سمیع خان) کو ایک گھنے جنگل میں بھٹکتے ہوئے دکھایا گیا ہے جہاں سے باہر نکلنے کے راستے کی تلاش میں اس کا سامنا ایک مفرور مجرم حیدر (شمعون عباسی) سے ہوجاتا ہے جو پولیس کو مطلوب ہے۔ دراصل حیدروہی شخص ہے جو اسد کی اس وقت مدد کرتا ہے جب اسد اپنی بیٹی (جو کہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہے) کے علاج کے لیے بینک سے رقم لوٹنا چاہتا ہے۔ مگرحیدر کا اصل مقصد اسد کی مدد کرنا نہیں بلکہ اس کے زریعے یہ رقم خود حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اسی لڑائی میں وہ دونوں جنگل میں گم ہوجاتے ہیں اوروہیں ایک دوسرے کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ جنگل سے باہر پولیس ان دونوں کا انتظار کررہی ہے۔

یہ بات درست ہے کہ کرائم یا ایکشن تھرلر فلمیں ایک مخصوص شوق رکھنے والے فلم بینوں کے لیے ہی بنائی جاتی ہیں لیکن یہاں بھی اچھی کہانی کے ساتھ بہترین اداکاری اور مناسب پروڈکشن کے زاویوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔

اداکاری کی بات کرتے ہیں تو فلم میں تمام اداکاروں نے اچھا کام کیا خاص طور پر سمیع خان جو فلم کا مرکزی کردار بھی ہیں۔ سمیع خان کردار کی باریکیوں اور جزیات کو سمجھتے ہوئے مکالموں کی ادائیگی اور تاثرات کو بھرپور طریقے سے ادا کررہے ہیں لیکن نا مناسب کیمرہ ورک کی وجہ سے ان کی صلاحیتیں صحیح طورپر اجاگر نہیں ہوسکیں۔ سمیع خان اس فلم میں بہترین اداکاری پر دو ایوارڈز بھی جیت چکے ہیں جن میں کینیڈیئن فلم فیسٹول کینیڈا اور میڈرڈ انٹرنیشنل فلم فیسٹول کے ایوارڈزشامل ہیں۔ یہ سال سمیع خان کے فلموں میں واپسی کا سال بھی ہے کیونکہ شاید ہی لوگوں کو یاد ہو کہ سمیع خان نے اداکاری کا آغاز 2004 میں بننے والی فلم سلاخیں سے کیا تھا۔ شامین خان کی یہ پہلی فلم ہے۔ وہ اس سے قبل ٹیلیویژن ڈراموں میں کام کرتی رہی ہیں۔ شمعون عباسی ایک منفی کردار ہی میں تھے لیکن اداکاری میں انہیں بھی ملکہ ہے اور اپنے مختصر مگر طاقت ور کردار میں ناظرین کے لیے ہیرو کا ایک مضبوط ولن سے دلچسپ مقابلہ پیش کرنے میں کامیاب رہے۔

پروڈکشن کے معیار کی بات کریں تو فلم میں بے تحاشہ کلوزاپس ہیں جبکہ سین کو کٹ کرنے کے بجائے کیمرے کو ہی گھما دیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس طرح کے کلوزاپس اور مستقل گھومتا ہوا کیمرہ فیسٹول کی فلموں کے لحاظ سے قابل قبول ہو مگر سینما کی بڑی اسکرین پر اس طرح کی عکسبندی نہ صرف نظر پر گراں گزررہی ہے بلکہ کہیں کہیں تو اکتاہٹ کا احساس بھی ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ ایڈیٹنگ پر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی اور مناظر کو آگے پیچھے کرنے میں وقت اورکرداروں کے حلیے کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ اب معلوم نہیں کہ فلم شوٹ ہی اتنی عجلت میں گی گئی تھی یا پھر ایڈیٹنگ کے دوران مانظر کے ربط کا خیال نہیں رکھا گیا۔

عام طور پر ایک فلم پردہ سیمیں پر آنے سے پہلے تین مراحل سے گزرتی ہے جن میں پہلا پوسٹ پروڈکشن جس میں کہانی لکھنے کا عمل، اسکرین پلے، اسکرپٹ اور ڈائیلاگ شامل ہوتے ہیں، دوسرا مرحلہ پروڈکشن کا ہوتا ہے جس میں کیمرہ لائٹنگ، اداکاری یا ڈائیلاگ ڈلیوری آتے ہیں اور آخری مرحلہ پوسٹ پروڈکشن کا ہے جس میں ایڈیٹنگ، ڈبنگ اور کلر گریڈنگ کی جاتی ہے۔ گم کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اس پر پہلے مرحلے میں یقینا محنت کی گئی ہے لیکن باقی دونوں مرحلوں پر اتنا وقت اور توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ کاغذ پر ایک بہترین فلم اسکرین پر اپنی اصل شکل میں سامنے نہ آسکی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے