اس وقت امت مسلمہ میں بڑا عجیب ٹرینڈ اور رجحان بن گیا
سعوی عرب کی تعریف کرو تو وھابی، دقیانوسی سمیت طرح طرح کے خطابات والزامات۔۔!!
جبکہ سعوی عرب پر تنقید اور مخالفت روشن خیالی تصور کی جائیگی۔
ایران کی تعریف بھائی چارے اور ہم آھنگی کی کوشش۔۔۔۔!!
مگر ایران پر تنقید اور مخالفت فرقہ واریت کو ہوا دینا اور امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا۔۔۔!!
عراق میں صدام حسین قتل عام کریں تو ’’ظلم‘‘ لیکن شام کا قصائی اگر ’’بشار‘‘ بن جائے تو ’’امن کاپیامبر‘‘
عراق ، شام میں مداخلت ہو۔۔۔۔ فوجی دستے بیجھے جائے تو وہاں کی حکومتوں کی درخواست اور مدد کی درخواست پر عمل دار آمد
لیکن جب یمن میں مداخلت ہو تو اسرائیلی و یہودی آلہ کاروں کی خوشنودی کا صلہ۔۔۔!!
ظلم بالآخر ظلم ہی ہے چاہے وہ صدام نے کیا ہو یا اب بشار کررہا ہو۔
گزشتہ دنوں اوسلو یونیورسٹی کے ایک کورس میں شریک تھا جس میں مختلف مذاھب کی مذھبی قیادت موجود تھیں۔۔۔ مسلمان بھی تھے اور ماشاءاللہ پاکستان سمیت اسلامی دنیا کی طرح یہاں بھی مختلف مسالک بشمول اھل سنت و اھل تشیع کے ساتھی موجود تھے۔۔
مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی تھی۔ لیکن جب کسی قانون کا ذکر ہوتا ہوتا تھا تو ایک ’’بھائی‘‘ ایک ’’اسلامی ملک‘‘ کو نشانہ بناتا اور کہتا کہ یہ ’’قانون‘‘ ان کااپنا بنایا ہوا قانون ہے ’’اسلام‘‘ کا نہیں، یہ ان کا اپنا مفاد ہے اسلام کا نہین ۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
گروپ ڈسکشن میں بھی ایسی ہی عجیب وغریب باتیں بس ویسے ہی سامنے لاتا جس کی ضرورت ہی نہ تھی لیکن اگرمیں جواب دیتا تو بس باقی مذاھب والے تماشہ دیکھتے اور ہم ایک دوسرے پر اعتراضات، سوالات وجوابات کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیتے۔۔۔
اپنے کورس میٹ دوست سے کہا کہ اگر یہ لوگ باتیں کرتے ہیں تو درست اور اتحاد امت کی سعی۔۔۔ لیکن اگرھم جواب دے یا بات آگے بڑھائے تو امت مسلمہ کا شیرازہ بکھیرنے کا الزام ضرور لگے لگے گا، کم از کم وہ رویہ مایوس کن اور ایسا لگ رہا تھا کہ انہیں پوری دنیا میں یہ ’’اسائنٹمنٹ‘‘ ملی ہے کہ جس فورم اور جہاں بھی ہو تو اس ’’ملک‘‘ کی مخالفت اور تنقید ضرور کیا جائے۔۔ (واللہ اعلم)
یہ ایسا ہی ہے کہ ’’نیشنل ایکشن پلان کے تحت مساجد کے لاوڈ سپیکرز کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا جائے گا لیکن محرم الحرام میں اسی قانون کے تحت لاوڈ سپیکرز کے استعمال پر پابندی کی مخالفت بھی کی جائیگی اوراگر اشتعال انگیزی نفرت و فرقہ واریت کے خوف کیوجہ سے حفظ ماتقدم کے طور پر کوئی کاروائی کریں
تو الامان والحفیظ
ھنگامی پریس کانفرنسز۔۔۔۔ مظاہرے اور مذھبی آزادی سلب کرنے کا الزام۔۔۔۔ اھل بیت و نواسہ رسول کی عزادری کو محدود کرنے کی سازش قرار دیکر مجالس کو احتجاجی دھرنا تحریک بنانے کی دھمکی پر اتر آنا کہاں کی ’’اتحاد واتفاق امت‘‘ کی کوشش کہلائی گی؟
کیا ایک طرف ایک رویہ اوردوسری طرف معاملہ الٹ نہیں؟
کبھی ’’یوم وفات فاروق اعظمؓ‘‘ کی تقریب اسلامی تحریک ، مجلس وحدت المسلمین اور جامعۃ المنتظر منعقد ہوسکے گی؟؟
یوم فاروق منانے کے موقع پر علامہ ساجد نقوی، علامہ امین شہیدی اور علامہ افتخار نقوی سمیت قاضی نیاز نقوی صاحبان خود اپنے اداروں میں تقریبات منقعد کرنے کی جرات کرنے قابل ہوجائیں گے؟
عاشورہ کے موقع پر نواسہ رسولﷺ جنت کے نوجوانوں کے سردار حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی مناسبت سے مجالس کا انعقاد پاکستان کے اہل سنت فکر کے بڑے بڑے اداروں میں منعقد ہوجائی گی (یقیناً شہادت حسینؓ کانفرنسز ضرور منعقد ہوتی ہیں) جس میں ’’اہل تشیع‘‘ کے عام افراد سے لیکر قیادت بھی شرکت کریگی؟؟ مفتی تقی عثمانی ، مولانا اللہ وسایا ، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحبان خود اپنے اداروں میں پروگرامات کی میزبانی کرکے اہل تشیع قیادت کو موعو کرین گے۔۔۔
امت کی فکر وغم کسی کو بھی نہیں ہے یہ اتحاد و اتفاق کی باتیں اور درس اپنی ذات یا مسلک کے لیے نہیں بلکہ ’’دوسروں‘‘ کے لیے پسند کئے جاتے ہیں۔
امت تو امت نہ رہی وحدت پارہ پارہ ہوگئی۔۔۔ کوئی اہل بیت کا غدار سمجھا جانے لگا تو کوئی صحابہ کا دشمن۔۔۔
قدیم عرب و فارس کے جھگڑے ، نفرت ، جسد کی آگ ایک لاوا بن کر اسلام کی چھتری حاصل کرنے کےلیے ڈھیروں سارے دلائل کیساتھ نبرد آزما ہیں اور خس وخاشاک بن رہے ہیں معصوم اور بے گناہ افراد۔۔۔
وقت ہی بتائے گا کہ کون کس کے لیے لڑ رہا تھا امت مسلمہ کا ایک ایک ملک دھیمک کی طرح کون چاٹ رہا تھا اور کس ’’عظیم سلطنت‘‘ کے قیام کے لیے راہ ہموار کرنے کا ذریعہ بن رہا تھا۔۔۔
آیا آل سعود بمثل یہود ہے یا ایران یہود کے لئے ممدومعاون، یہ فیصلہ وقت پر چھوڑتے ہیں اب اپنا خیر منانے کی فکر کرنی چاہیے!!