سوشل ویب سائٹس سے ہماری شکایات

سوشل میڈیا پر بہت سارے لوگ یہ شکایت کرتے پائے گئے ہیں کہ ہم نے نیوزی لینڈ دہشت گردی کے واقعے کی ویڈیو پوسٹ کی تو ہمارا ٹویٹر اکاونٹ لاک کر دیا گیا ۔ ان کے لیے عرض یہ ہے کہ وائیلنس کی ویڈیو سوشل سائٹس کے کمیونٹی اسٹینڈرز کے خلاف ہوتی ہے ۔ اسے لیے وہ اسے ہٹا دیتے ہیں۔

کچھ لوگوں نے کہا کہ اگر یہ حملہ کسی چرچ پر ہوتا تو اس ویڈیو ہٹائی جاتی اور نہ ہی لوگوں کے اکاونٹ بند کیے جاتے ۔ میرا خیال ہے تشدد پر مبنی ویڈیو ہر صورت میں ہٹائی جاتی ہیں ۔ان کے لیے سوشل سائٹس نے جانچ کا خودکار نظام وضع کر رکھا ہے.آپ نے دیکھا ہوگا کہ تشدد زدہ تصاویر کو چُھپایا جاتا ہے یا پھر دیکھنے والے کو وارننگ دی جاتی ہے ۔ وہ اپنی مرضی سے ایسی ویڈیو دیکھنے کا فیصلہ کرتا ہے۔

میں ایک صحافی ہوں ۔ پیشہ ورانہ نقطہ نظر سے یہ میرا نقص ہے کہ میں تشدد کی ویڈیوز نہیں دیکھ سکتا ، کہیں کوئی کسی کو پیٹ رہا ہو ، کاٹ رہا ہوں ، بہت تذلیل کر رہا ہو تو میں دوسرے ہی سیکنڈ میں ویڈیو روک کر آگے نکل جاتا ہوں ۔ ہاں اگر ایسی صورت ہو کہ مجھے ویڈیو دیکھے بنا چارہ نہ ہو تو دل پر پتھر رکھ کر دیکھ لیتا ہوں اور پھر مناسب لفظوں میں تبصرہ کردیتا ہوں ۔ کوشش کرتا ہوں کہ اس واقعے کی اپنے لفظوں میں ایسی منظر کشی کردوں کہ مجھے وہ تصویر یا ویڈیو نہ لگانی پڑے۔

خیراپنی بات چھوڑیے، میں لوگوں کی شکایات کی بات کر رہا تھا ۔ خاص طور پر تیسری دنیا کے صارفین کی ، جو کُلی طور پر ایک صارف سماج ہے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بڑی منڈی ہے. فیس بک ، ٹویٹر ، واٹس ایپ وغیرہ کے مالکان مغربی دنیا کے ہیں۔ ان کے کاروباری مفادات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔اس لیے ان کی غیر جانبداری کی سند بھی نہیں پیش کی جا سکتی۔ سوال میرا ان شکایت کنندگان سے یہ ہے کہ آپ نے کیا بنایا ہے؟ کوئی ایسی سوشل سائٹ؟ کوئی ایسا عالمی سطح کا ادارہ؟ کوئی انوویشن؟ کچھ نہیں ناں؟ تو پھر برداشت کریں ۔ آپ نے صرف اپنے من پسند نظریوں کے دائرے چھوٹے بڑے کیے ہیں، ”عظمت رفتہ” کی کہانیوں کا نشہ کیا ہے بس ۔

مانا کہ صارفین کے حقوق ہوتے ہیں ۔ ہوتے ہوں گے ۔ ان کی بات بھی کی جاتی ہے لیکن مارکیٹ کا مقابلہ مارکیٹ ہی کرسکتی ہے۔ انوویشن کا مقابلہ انوویشن ہی کرتی ہے۔ بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہاں چین کی مثال آ سکتی ہے ۔

مجھے یاد ہے جب تین سال پہلے بھارتی زیر انتظام جموں وکشمیر میں ایک نوجوان برہان وانی کو انڈین فورسز نے مارا تو جن لوگوں نے فیس بک پر برہان کی یا پیلٹ گن کے متاثرین کی فوٹوز لگائیں ، ان کی آئی ڈیز بند کی گئیں ۔ لوگ چیختے رہے ۔ لیکن ہم نے اس وقت بھی عرض کیا تھا کہ بھارت ایک بڑی منڈی ہے ۔ فیس بک کا وہاں بزنس انٹرسٹ وسیع ہے ، وہاں فیس بک نے اپنے دفاتر بھی قائم کیے ہوئے ہیں.وہ تو ان کا خیال تو رکھے گی۔ کاروباری نفسیات میں ضروری نہیں کہ آپ کے سبھی جذبات کا احترام کیا جائے۔ ایسی توقع رکھنا ہی ناقابل فہم ہے۔

چند دن پہلے فیس بک کا پوری دنیا میں بدترین شٹ ڈاون ہوا تو مغرب میں لاکھوں لوگ اس پر سے شفٹ کر گئے۔ امریکا میں ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ برسوں میں فیس بک چھوڑنے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ وہاں کے صارفین کو فیس بک سے یہ شکایت ہے کہ وہ ان کا ڈیٹا چوری کر کے مارکیٹ میں بیچ رہی ہے ۔ اس وقت میرے سامنے نیویارک ٹائمز کی کل کی کاپی پڑی ہے ۔ پہلے صفحے پر بائیں جانب سب سے اوپر جو خبر لگی ہے اس کی سرخی یہ ہے ” Prosecutors investigate Facebook’s data sharing” . یہ وہاں کی صورت حال ہے اور ہم یہاں تھرڈ ورلڈ میں بیٹھے حقوق کے لیے رو رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ہماری ویڈیوز نہ ڈیلیٹ کرو ۔ Quit کرنے کی ہمت نہیں کرتا کوئی ۔ چسکا جو ہے ، کون چھوڑتا ہے۔

وہ علامہ اقبالؔ نے کیا کہا تھا کہ :

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے

پھونک ڈالے یہ زمین و آسمان مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے

جب تک زمین و آسمانِ مستعار ہوگا اس وقت تک دھوپ ، بادل ، بارش ،طوفان ، خزاں اور بہار آپ کی مرضی سے نہیں آئیں گے ۔ اس لیے کچھ کریں نہیں تو Chill کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے