لال مسجد تنازع ایک دفعہ پھر خبروں کا مرکز بن چکا ہے اور اس وقت یہ تنازع ایک خطرناک موڑ پر آکھڑا ہوا ہے ۔ عوام کی اکثریت بشمول میڈیا اس وقت تک حالیہ لال مسجد تنازع کے اصل حقائق سے لاعلم ہے ۔ لال مسجد والوں بالخصوص مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ اور ان کی اہلیہ محترمہ ام حسان حفظہا اللہ پر حالیہ تنازع کے تناظر میں کچھ لوگ مفادات حاصل کرنے جیسے گھناءونے اور شرمناک الزامات عائد کررہے ہیں ۔ یہ تاثر بھی دیا جارہا ہے کہ حالیہ تنازع صرف پلاٹ کے حصول کے لئے ہے ۔ مختلف قسم کے تبصرے کئے جارہے ہیں ۔ جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے ۔
لال مسجد تنازع کے پس پردہ عوامل نہ تو ذاتی مفادات حاصل کرنا ہے اور نہ ہی کوئی ذاتی پلاٹ وغیرہ ۔ لال مسجد تنازع کی اصل وجہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونا،نا انصافی اور بدعہدی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ حالیہ لال مسجد تنازع کے مرکزی ذمہ دار سپریم کورٹ میں موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد ،وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ اور اسلام آباد کی مقامی انتظامیہ کے اعلیٰ افسران ہیں ۔ لال مسجد کے حالیہ تنازع کے اصل حقائق جاننے کے لئے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ میں تیرہ سال تک چلنے والے لال مسجد آپریشن کیس کا مختصر پس منظر سامنے ہو ۔ اس لئے کہ لال مسجد کے حالیہ تنازع کا گہرا تعلق لال مسجد آپریشن کیس میں سپریم کورٹ کے 2اکتوبر 2007کے فیصلے سے ہے ۔
[pullquote]*لال مسجد آپریشن کا ازخود نوٹس*[/pullquote]
3جولائی 2007کو لال مسجد آپریشن کا آغاز ہوا ۔ اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری معطل تھے ۔ ان کے خلاف پرویزمشرف حکومت کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کئے گئے ریفرنس کی سماعت چل رہی تھی ۔ رانا بھگوان داس قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان تھے ۔
3جولائی2007سے لال مسجد آپریشن جاری تھا ۔ پورے ;71;-6سیکٹر میں کرفیو نافذ تھا ۔ لال مسجد اور اس سے متصل جامعہ حفصہ میں نہتے اور بے گناہ طلبہ و طالبات کا قتل عام جاری تھا ۔ سیکٹر ;71;-6کے مکینوں کے بنیادی حقوق معطل تھے ۔ دیر آئید درست آئید 9جولائی 2007کی صبح یعنی لال مسجد آپریشن کے ساتویں روز سپریم کورٹ کے اس وقت کے جج جسٹس نواز عباسی کو عوامی حقوق کا خیال آیا اور انہوں نے سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس رانا بھگوان داس کو لال مسجد آپریشن کا ازخود نوٹس لینے کے لئے ایک نوٹ بھیجا ۔ قائم مقام چیف جسٹس رانا بھگوان داس ہندو تھے ۔ اس کے باوجود انہوں نے جسٹس نواز عباسی کا نوٹ ملتے ہی لال مسجد آپریشن کا ازخود نوٹس نمبر 09;47;2007لے لیا اور مذکورہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے لئے جسٹس نواز عباسی اور جسٹس فقیر محمد کھوکھر پر مشتمل بینچ فوری طور پر تشکیل دیتے ہوئے اسی روز کیس کو سماعت کے لئے مقرر کر دیا ۔ 9جولائی 2007کو دن تقریباََ ساڑھے چار بجے مذکورہ بالا دو ججز پر مشتمل سپریم کورٹ کا بینچ لال مسجد آپریشن کیس کی سماعت کے لئے کورٹ نمبر ون میں بیٹھا ۔ کمرہ عدالت وکلاء،سول سوساءٹی اور میڈیا کے نمائندوں سے بھرا ہوا تھا ۔
سماعت کا آغاز ہوا تو صدر شہداء فاءونڈیشن جناب طارق اسد ایڈووکیٹ روسٹرم پر ذاتی حیثیت میں کھڑے ہوئے ۔ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ سپریم کورٹ کے مذکورہ بالا ججز کے سامنے جوڑتے ہوئے کہا کہ ’’خدا را لال مسجد آپریشن کے خلاف حکم امتناعی جاری کر دیں ۔ اب تک جتنی جانیں ضائع ہونی تھیں ،وہ ہوگئیں ۔ مزید جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جائے‘‘ ۔ بینچ کے رکن جسٹس فقیر محمد کھوکھر نے ریمارکس دیئے کہ’’طارق صاحب!جب آرمڈ فورسسز آجاتی ہے تو ہمارا اختیار ختم ہوجاتا ہے ۔ ہم آپریشن کے خلاف حکم امتناعی جاری نہیں کرسکتے‘‘ ۔ جناب طارق اسد نے مذکورہ بینچ کے روبرو عدالتی نظائر پیش کئے ۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ کے بینچ نے لال مسجد آپریشن کے خلاف حکم امتناعی جاری نہ کیا اور حکومت کو مسئلے کے حل کے لئے افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت ملتوی کر دی ۔ چناچنچہ پھر 10جولائی 2007کو لال مسجد آپریشن کا حتمی آغاز ہوا اور اسی شام علامہ عبدالرشید غازی شہید،ان کی والدہ محترمہ اور مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ کے جواں سالہ اکلوتے بیٹے حسان سمیت سینکڑوں طلبہ و طالبات کی شہادت کے ساتھ آپریشن اپنے اختتام کو پہنچ گیا ۔ یوں لال مسجد آپریشن کا ایک سیاہ باب تاریخ میں رقم ہو گیا ۔
[pullquote]ٌٌ*صدر شہداء فاءونڈیشن طارق اسد کی جانب سے لال مسجد آپریشن کے خلاف پٹیشن*[/pullquote]
لال مسجد آپریشن کے اختتام کے فوراََ بعد صدر شہداء فاءونڈیشن جناب طارق اسد نے لال مسجد آپریشن کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے لال مسجد آپریشن کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی پٹیشن نمبر 54;47;2007دائر کی ۔ جس میں انہوں نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ:-
(۱)لال مسجد آپریشن کو غیر آئینی قرار دیا جائے ۔
(۲)وفاقی حکومت کو لال مسجد سے متصل جامعہ حفصہ کی عمارت کو منہدم کرنے سے روکا جائے ۔
(۳)لال مسجد آپریشن کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے ۔
(۴)لال مسجد آپریشن کے ذمہ داروں کے خلاف آپریشن میں شہید والوں کے قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا جائے ۔
(۵)لال مسجد آپریشن میں شہید ہونے والوں کے ورثا کو دیت دینے کا حکم دیا جائے ۔
ابھی سپریم کورٹ میں مذکورہ بالا آئینی پٹیشن دائر ہی ہوئی تھی کہ پرویزمشرف حکومت نے لال مسجد سے متصل جامعہ حفصہ کی عمارت کو منہدم کردیا ۔ جس کے بعد جناب طارق اسد نے مذکورہ بالا پٹیشن میں ہی ایک متفرق درخواست دائر کی ۔ جس میں عدالت عظمیٰ سے یہ استدعا کی گئی کہ عدالت وفاقی حکومت کو لال مسجد سے متصل جگہ پر ہی جامعہ حفصہ کو دوبارہ تعمیر کرنے کا حکم جاری کرے ۔ 29جولائی 2007سے عدالت عظمیٰ کے دو رکنی بینچ نے لال مسجد آپریشن کے متعلق ازخود نوٹس کیس اور جناب طارق اسد کی مذکورہ بالا پٹیشن کو یکجا کرکے مقدمے کی سماعت کا آغاز کیا ۔
[pullquote]*وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی جانب سے لال مسجد آپریشن کیس میں پٹیشن*[/pullquote]
مذکورہ مقدمے کی سماعت جاری تھی کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے بھی 23اگست2007کو سپریم کورٹ میں ایک آئینی پٹیشن نمبر 56;47;2007دائر کردی ۔ مذکورہ پٹیشن میں وفاق المدراس العربیہ پاکستان نے سپریم کورٹ سے یہ استدعا کی کہ:-
(۱)جامعہ فریدیہ کو وفاق المدارس العربیہ کے حوالے کرتے ہوئے جامعہ فریدیہ کو وفاق المدارس العربیہ کے زیر انتظام کھولنے کا حکم دیا جائے ۔
(۲)جامعہ حفصہ کو تعمیر کرکے جامعہ حفصہ کو بھی وفاق المدارس العربیہ کے حوالے کرنے کا حکم دیا جائے ۔
(۳)لال مسجد کو محکمہ اوقاف کے حوالے کرتے ہوئے محکمہ اوقاف کے زیر انتظام ہی کھولنے کا حکم دیا جائے ۔
لال مسجد کے حالیہ تنازع کے متعلق برادرم مولانا عبدالقدوس محمدی نے بھی چند روز قبل ایک آرٹیکل تحریر کیا تھا ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ برادرم مولانا عبدالقدوس محمدی اپنے آرٹیکل میں یہ تحریر کرتے کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان سپریم کورٹ میں اس لئے گئی تھی کہ وہ مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ سے لال مسجد،جامعہ فریدیہ اور جامعہ حفصہ سب چھین لے ۔ مجھے افسوس ہے کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے لال مسجد آپریشن سے قبل بھی لال مسجد و جامعہ حفصہ والوں کا الحاق ختم کرکے انہیں تنہا کردیا تھا اور لال مسجد آپریشن کے بعد بھی بجائے اس کے کہ وفاق المدارس لال مسجد و جامعہ حفصہ کے مظلومین کو انصاف دلانے سپریم کورٹ جاتا ۔
الٹا وہ جامعہ فریدیہ اور جامعہ حفصہ کو مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ سے چھیننے سپریم کورٹ گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ 24اپریل 2012کو اس وقت کتئے چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری نے لال مسجد آپریشن کیس کی سماعت کے دوران وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے وکیل سید افتخار گیلانی کی اوپن کورٹ میں سخت سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ’’آپ کے مءوکل کو شرم نہیں آتی کہ آپ نے جامعہ حفصہ کا الحاق ختم کرکے جامعہ حفصہ کی بچیوں کو ناصرف تنہا کیا بلکہ ان کا تعلیمی کیریئر بھی تباہ کیا ۔ جامعہ حفصہ کا الحاق ختم کرکے آپ کے مءوکل نے آپریشن کی ایک طرح سے حمایت کی تھی ۔ اب آپ کے مءوکل جامعہ فریدیہ اور جامعہ حفصہ کا قبضہ لینے سپریم کورٹ آگئے‘‘ ۔ ان ریمارکس کے ساتھ ہی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی آئینی پٹیشن نمبر 56;47;2007مسترد کر دی ۔
[pullquote]*لال مسجد آپریشن کیس میں سپریم کورٹ کا تاریخ ساز فیصلہ اور جامعہ حفصہ کی پرانی جگہ تعمیر کا حکم*[/pullquote]
خیر لال مسجد آپریشن کیس کی سماعت جاری رہی ۔ اسی دوران معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل نے پرویزمشرف حکومت کی جانب سے دائر کیا گیا ریفرنس خارج کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا ۔ یوں ’’آزاد عدلیہ‘‘کے سنہرے دور کا آغاز ہوا ۔ چنانچہ 2اکتوبر 2007کو سپریم کورٹ کے جسٹس نواز عباسی اور جسٹس فقیر محمد کھوکھر پر مشتمل بینچ نے لال مسجد آپریشن کے متعلق ازخود نوٹس کیس نمبر 09;47;2007اور جناب طارق اسد کی پٹیشن نمبر 54;47;2007 کی استدعا کی روشنی میں 12صفحات پر مشتمل لال مسجد آپریشن کیس کا فیصلہ جاری کیا ۔
[pullquote]جس میں درج ذیل احکامات وفاقی حکومت کو صادر کئے گئے ۔[/pullquote]
(۱)لال مسجد آپریشن کے دوران شعائر اسلام کی توہین کا مقدمہ ذمہ داروں کے خلاف درج کیا جائے
(۲)لال مسجد آپریشن میں مارے جانے والوں کے قتل کا مقدمہ ذمہ دار افراد کے خلاف درج کیا جائے ۔
(۳)لال مسجد آپریشن میں مارےء جانے والوں کے ورثا کو تین ماہ کے اندر سیشن جج اسلام آباد کی نگرانی میں دیت کی ادائیگی کی جائے
(۴)جامعہ حفصہ کو لال مسجد سے متصل جگہ پر ہی ریسرچ سینٹر اور ہاسٹل کے ساتھ ایک سال کے اندر سرکاری خرچ پر تعمیر کیا جائے ۔
(۵)جب تک جامعہ حفصہ کی پرانی جگہ تعمیر مکمل نہ ہو اس وقت تک حکومت جامعہ حفصہ کی انتظامیہ کو تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کے لئے متبادل جگہ فراہم کرے ۔
(۶)جامعہ حفصہ کی تمام طالبات، معلمات اور دیگر عملے کے تمام اخراجات بشمول یوٹیلٹی بلز اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ سرکاری فنڈ میں سے ادا کرے ۔
(۷)لال مسجد میں مولانا عبدالعزیز کی غیر موجودگی میں مولانا عبدالغفار کو خطیب اور مولانا عامر صدیق کو نائب خطیب عارضی طور پر مقرر کیا جائے ۔
سپریم کورٹ کا مذکورہ بالا فیصلہ ہر اعتبار سے تاریخ ساز تھا ۔ سپریم کورٹ نے اپنے 2اکتوبر 2007کے فیصلے میں جہاں مذکورہ بالا احکامات صادر کئے ،وہیں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو لال مسجد سے متصل پرانی جگہ پر ہی ایک سال کے اندر جامعہ حفصہ کی سرکاری خرچ پرتعمیر مکمل کرنے کا حکم صادر کرکے قانونی طور پر یہ ثابت کردیا کہ ’’لال مسجد سے متصل جگہ پر موجود جامعہ حفصہ قانونی تھا اور پرویزمشرف حکومت نے جامعہ حفصہ کو شہید کرکے زیادتی کی ہے‘‘ ۔ بہرحال سپریم کورٹ نے مذکورہ بالا فیصلہ جاری کرنے کے بعد لال مسجد آپریشن کیس کی سماعت ایک ماہ کے لئے ملتوی کردی ۔
4نومبر 2007کو لال مسجد آپریشن آپریشن کیس دوبارہ سماعت کے لئے مقرر تھا مگر تین نومبر 2007کو پرویزمشرف نے آئین کو معطل کرتے ہوئے ملک میں ناصرف ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا بلکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے 60سے زائد ججز کو معطل کرکے گھروں میں نظربند کردیا ۔ پرویزمشرف کی جانب سے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کی بنیادی وجہ جہاں اپنے صدارتی انتخاب کے متعلق سپریم کورٹ کے متوقع فیصلہ کو اپنی مرضی کے مطابق جاری کروانا تھا وہیں تین نومبر 2007کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کی ایک بڑی وجہ لال مسجد آپریشن کیس میں سپریم کورٹ کا مذکورہ بالا فیصلہ بھی تھا ۔ بہرحال پرویزمشرف کی جانب سے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد لال مسجد آپریشن کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی گئی ۔
چونکہ 2اکتوبر 2007کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق وفاقی حکومت ایک سال کے اندر یعنی دو اکتوبر 2008تک لال مسجد سے متصل پرانی جگہ پر ہی جامعہ حفصہ کی سرکاری خرچ پر تعمیر مکمل کرنے کے پابند تھی ۔ مگر مذکورہ بالا فیصلے کے کسی بھی نکتے بشمول جامعہ حفصہ کی تعمیر کے متعلق حکم پر بھی عملدرآمد نہ ہوا تو جناب طارق اسد نے اکتوبر 2008 میں وفاقی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ کے دو اکتوبر 2007کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کے خلاف توہین عدالت کی پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کردی ۔ لیکن چونکہ اس وقت افتخار محمد چوہدری سمیت سپریم کورٹ کے کئی ججز معطل تھے اور لال مسجد آپریشن کیس بھی زیر التوا تھا ۔ اس لئے لال مسجد آپریشن کیس میں سپریم کورٹ کے مذکورہ بالا فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کے خلاف توہین عدالت کی پٹیشن بھی سماعت کے لئے مقرر نہ ہوسکی ۔ بہرحال دو اکتوبر 2007کے بعد سنہ 2012تک لال مسجد آپریشن کیس سپریم کورٹ میں التوا کا شکار رہا ۔ 8فروری 2012کو راقم نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو آٹھ صفحات پر مشتمل ایک خط تحریر کیا ۔ جس میں ان سے لال مسجد آپریشن کیس کو سماعت کے لئے مقرر کرنے کی استدعا کی گئی ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے راقم کی درخواست پر تقریباََ پانچ سال سے زیر التوا لال مسجد آپریشن کیس کو 27مارچ 2012سے دوبارہ سماعت کے لئے مقرر کردیا ۔
[pullquote]*سیکٹر ایچ الیون میں جامعہ حفصہ کے لئے متبادل پلاٹ کا معاہدہ*[/pullquote]
سپریم کورٹ میں لال مسجد آپریشن کیس سماعت کے لئے مقرر ہونے سے چند ہفتوں قبل اس وقت کی وفاقی حکومت جو کہ پیپلزپارٹی کی تھی،اس کے وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک اور ریاستی اداروں کے کچھ اعلیٰ افسران نے براہ راست بھی اور بحریہ ٹاءون کے مالک ملک ریاض حسین کے ذریعے بھی مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ اور محترمہ ام حسان حفظہا اللہ پر دباءو ڈالا کہ وہ ملک کے وسیع تر مفاد اور ملک میں امن و امان کے قیام کے لئے لال مسجد سے متصل پرانی جگہ پر جامعہ سیدہ حفصہ کی تعمیر کے مطالبے سے دستبرادار ہو کر اسلام آباد کے سیکٹر ایچ الیون میں واقع بیس کنال کا پلاٹ جامعہ حفصہ کے لئے لے لیں ۔ مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ کسی بھی صورت لال مسجد سے متصل پرانی جگہ پر جامعہ حفصہ کی تعمیر کے مطالبے سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں تھے مگر محترمہ ام حسان حفظہا اللہ نے ملک کے وسیع تر مفاد اور ملک کے امن و امان کو سامنے رکھتے ہوئے مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ کو اس بات پر قائل کیا کہ’’ہ میں لال مسجد سے مستصل جامعہ حفصہ کی پرانی جگہ تعمیر سے دستبرادار ہوکر ایچ الیون میں جامعہ حفصہ کے لئے بیس کنال کا پلاٹ لے لینا چاہئیے‘‘ ۔
بالآخر جامعہ حفصہ انتظامیہ اور وفاقی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ ہوا ۔ جس کے مطابق مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ اور محترمہ ام حسان حفظہا اللہ کو اسلام آباد کے سیکٹر ایچ الیون میں جامعہ حفصہ کے لئے پلاٹ دیا گیا ۔ مذکورہ معاہدے کے مطابق’’ مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ اور محترمہ ام حسان حفظہا اللہ لال مسجد سے متصل جگہ پر جامعہ حفصہ کی تعمیر سے دستبردار ہوگئے ۔ اس کے بدلے انہیں جامعہ حفصہ کی تعمیر کے لئے بیس کنال کا متبادل پلاٹ سیکٹر ایچ الیون میں دیا گیا ہے ۔ لال مسجد سے متصل جو جامعہ حفصہ کی پرانی جگہ ہے اس پر کوئی تعمیرات نہیں ہوگی بلکہ وہ جگہ لال مسجد کے صحن کے طور پر لال مسجد میں شامل کیا جائے گا‘‘ ۔ مذکورہ معاہدہ 2دسمبر 2012کو ہوا ۔ مذکورہ معاہدے پر اس وقت کے چیف کمشنر اسلام آباد طارق محمود پیرزادہ نے بطور فریق اول وفاقی حکومت کی جانب سے جبکہ محترمہ ام حسان حفظہا اللہ اور مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ نے بطور فریق دوم ستخط کئے ۔ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عامر علی احمد،مولانا ظہور احمد علوی،اسسٹنٹ کمشنر رانا اکبر حیات،مولانا محمد نذیر فاروقی اور مولانا عبدالغفار نے بطور عینی شاہد مذکورہ معاہدے پر دستخط کئے ۔
مذکورہ معاہدے کے بعد اسلام آباد کے سیکٹر ایچ الیون میں بیس کنال کا پلاٹ جامعہ حفصہ کے لئے مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ اور محترمہ ام حسان حفظہا اللہ کے نام سی ڈی اے نے الاٹ کر دیا مگر مذکورہ معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے وفاقی انتظامیہ کا کردار میرے نزدیک اسی وقت مشکوک ہو گیا تھا جب مذکورہ معاہدے کے مطابق وفاقی انتظامیہ نے جامعہ حفصہ کی لال مسجد سے متصل پرانی جگہ کو لال مسجد میں شامل کرنے کے حوالے سے لیت و لعل سے کام لیا اور جب سنہ 2013 میں مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ اور محترمہ ام حسان حفظہا اللہ نے جامعہ حفصہ کی لال مسجد سے متصل پرانی جگہ کو معاہدے کے مطابق لال مسجد کا حصہ بنانے کے لئے چار دیواری کی تعمیر شروع کی اور ایک رات اچانک اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس کے اعلیٰ افسران بڑی تعداد میں پولیس اہلکاروں اور ایمبولنس وغیرہ کے ہمراہ جامعہ حفصہ کی پرانی جگہ کے گرد تعمیر کی گئی چار دیواری کو گرانے پہنچ گئے اور انہوں نے جامعہ حفصہ کی پرانی جگہ کے گرد تعمیر کی گئی دیوار مسمار کر دی ۔ میں نے اور جناب طارق اسد نے اس وقت بھی اور اس کے بعد بھی کئی مواقعوں پر مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اور محترمہ ام حسان حفظہا اللہ کی توجہ اس جانب مبذول کروائی تھی کہ جامعہ حفصہ کے لئے ایچ الیون میں متبادل پلاٹ کا معاہدہ اس لئے قانونی طور پر کمزور ہے کہ سرکاری زمین قانون کے مطابق پرائیویٹ پرسن کو الاٹ نہیں کی جاسکتی ۔ ہم نے انہیں تجویذ دی تھی کہ ایچ الیون کا پلاٹ کوئی ٹرسٹ بناکر اس کے نام منتقل کر دیا جائے مگر اس وقت انہوں نے ہماری بات پر کوئی خاص توجہ نہ دی ۔
بہرحال سپریم کورٹ میں لال مسجد آپریشن کیس کی سماعت چلتی رہی ۔ 8اپریل 2012کو اس وقت کے اٹارنی جنرل نے جامعہ حفصہ کی پرانی جگہ تعمیر سے دستبردار ہونے کے بدلے سیکٹر ایچ الیون میں بیس کنال کے پلاٹ کا معاہدہ سپریم کورٹ میں پیش کیا تو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مذکورہ معاہدے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ’’سپریم کورٹ کا فیصلہ جامعہ حفصہ کی پرانی جگہ تعمیر کا تھا ۔ اس فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے بجائے حکومت اور جامعہ حفصہ کی انتظامیہ نے out of court settlementکیسے کیا؟؟؟اس پر دونوں فریقین کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی ہو سکتی ہے ۔ ہمیں اس معاہدے سے کوئی مطلب نہیں ۔ جائیں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کریں اور اس کی رپورٹ عدالت میں جمع کروائیں ‘‘ ۔ لال مسجد آپریشن کیس کی سماعت کے دوران چار دسمبر 2012کو سپریم کورٹ نے لال مسجد آپریشن کی تحقیقات کے لئے وفاقی شرعی عدالت کے جج جسٹس شہزاد و الشیخ پر مشتمل عدالتی کمیشن قائم کیا ۔
مذکورہ کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ میں لال مسجد آپریشن کیس میں سپریم کورٹ کے دو اکتوبر 2007کے مکمل فیصلے پر عملدرآمد کروانے بالخصوص جامعہ حفصہ کی پرانی جگہ تعمیر کو یقینی بنانے کی سفارش کی ۔ جس کے بعد سپریم کورٹ میں کئی کئی ماہ کے التوا کے بعد لال مسجد آپریشن کیس سماعت کے لئے مقرر ہوتا اور دو اکتوبر 2007کے فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے کاروائی ہوتی ۔ 12مئی 2016کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے لال مسجد آپریشن کیس کی سماعت کی اور وفاقی حکومت پر لال مسجد آپریشن کیس میں سپریم کورٹ کے دو اکتوبر 2007کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے بالخصوص جامعہ حفصہ کی پرانی جگہ تعمیر نہ ہونے پر سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے اپنے حکم نامے میں وفاقی حکومت کو ایک ماہ کے اندر سپریم کورٹ کے دو اکتوبر 2007کے فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے جامع رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی ۔ جس کے بعد 12مارچ 2019تک لال مسجد آپریشن کیس کی کوئی سماعت نہ ہوئی،
[pullquote]*سیکٹر ایچ الیون میں جامعہ حفصہ کی تعمیر کے لئے الاٹ کئے گئے معاہدے کی منسوخی *[/pullquote]
گزشتہ سال یعنی 12مارچ2019کو تقریباََ ڈھائی سال بعد لال مسجد آپریشن کیس کو سپریم کورٹ میں اچانک سماعت کے لئے مقرر کر دیا گیا ۔ موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 12مارچ کو لال مسجد آپریشن کیس کی سماعت کی ۔ آئینی و قانونی طور پر چاہئیے تھا کہ 12مارچ 2019کو موجودہ چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ لال مسجد آپریشن کیس کی سماعت کی کاروائی وہاں سے شروع کرتا جہاں 12مئی 2016کو کاروائی رکی تھی مگر حیرت انگیز طور پر موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد نے سماعت کے آغاز پر ہی شہدائے لال مسجد و جامعہ حفصہ کے ورثا کے وکیل و صدر شہداء فاءونڈیشن جناب طارق اسد سے فضول نوعیت کے سوالات شروع کر دیئے ۔ ان سوالات کا تعلق قطعی طور پر لال مسجد آپریشن کیس سے نہ تھا ۔
جناب طارق اسد نے موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد کے غیر متعلقہ سوالات کے جوابات دینے سے انکار کیا تو انہوں نے چیف کمشنر اسلام آباد،جن کے پاس چیئرمین سی ڈی اے کا بھی اضافی چارج ہے ،کو شارٹ نوٹس پر عدالت میں طلب کرلیا اور ان سے لال مسجد کی زمین اور جامعہ حفصہ کی زمین کے متعلق سوالات شروع کر دیئے ۔ چیف کمشنر اسلام آباد عامر احمد علی نے سپریم کورٹ کے بینچ کو لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی زمین اور ایچ الیون میں الاٹ کئے گئے پلاٹ کے متعلق تفصیلات بتائیں ۔ اسی دوران موجودہ چیف جسٹس گلزار احمد نے ایچ الیون میں جامعہ حفصہ کی تعمیر کے لئے دئے گئے بیس کنال کے پلاٹ کے معاہدے کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ’’بیس کنال کا سرکاری پلاٹ پرائیویٹ پرسنز کو کس قانون کے تحت الاٹ کیا گیا؟؟؟‘‘
۔ اس سوال کے ساتھ ہی جسٹس گلزار احمد نے لال مسجد آپریشن کیس کی سماعت ایک ماہ کے لئے ملتوی کرتے ہوئے چیف کمشنر اسلام آباد کو حکم دیا کہ ’’سیکٹر ایچ الیون میں بیس کنال کے پلاٹ کے متعلق معاہدے کی قانونی حیثیت کے متعلق جامع رپورٹ آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش کی جائے‘‘ ۔ واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ نے 12مارچ 2019کو لال مسجد آپریشن کیس کی سماعت کے بعد اپنے حکم نامے میں چیف کمشنر اسلام آباد کو ایچ الیون والے پلاٹ کے متعلق ہونے والے معاہدے کی قانونی حیثیت کے متعلق عپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا ۔
سپریم کورٹ نے ایچ الیون والے پلاٹ کے متعلق معاہدے کو منسوخ کرنے کا کوئی حکم نہیں دیا تھا ۔ سپریم کورٹ کی مذکورہ بالا کاروائی کے بعد اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے 23مارچ کی پریڈ کا بہانہ کرکے ایچ الیون میں جامعہ حفصہ کی تعمیر کے لئے الاٹ کیا گیا پلاٹ خالی کروایا کہ سیکیورٹی کے پیش نظر طلبہ و طالبات کو ایک ہفتے کے لئے یہاں سے منتقل کیا جائے ۔ اس کے بعد مذکورہ پلاٹ کو اسلام آباد انتظامیہ نے سیل کر دیا اور دو مئی 2019کو لال مسجد آپریشن کیس کی حتمی سماعت کے موقع پر چیف کمشنر اسلام آباد عامر علی احمد نے رپورٹ عدالت میں پیش کی کہ’’ہم نے ایچ الیون کے پلاٹ کے متعلق معاہدے پر نظر ثانی کرتے ہوئے یہ محسوس کیا کہ مذکورہ معاہدہ غیر قانونی تھا ۔ لہٰذا ہم نے اس معاہدے کو منسوخ کرتے ہوئے مولانا عبدالعزیز اور ام حسان سے مذکورہ بیس کنال کا پلاٹ واپس لے لیا ہے‘‘ ۔
جس کے بعد سپریم کورٹ کے موجود ہ چیف جسٹس نے انصاف کے تقاضے پورے کئے بغیر لال مسجد آپریشن کیس کو اس حکم نامے کے ساتھ نمٹا دیا کہ’’حکومت دس مرلہ جگہ پر جامعہ حفصہ تعمیر کرے اور وہ مدرسہ سرکاری پراپرٹی ہی رہے گی اور مدرسے کی انتظامیہ بھی وفاقی انتظامیہ کے ماتحت ہو گی‘‘ ۔ نہ تو حتمی فیصلے سے قبل سپریم کورٹ نے ہمارے وکیل کے دلائل سنے اور نہ ہی لال مسجد آپریشن کیس میں ہونے والی پچھلی سماعت یعنی 12مئی 2016کو ہونے والی سماعت کے تسلسل کو برقرار رکھا ۔ سپریم کورٹ کا لال مسجد آپریشن کیس میں دو مئی 2019کا فیصلہ سراسر غیر آئینی،غیر قانونی اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے ۔ مذکورہ فیصلے کے خلاف ہم نے نظر ثانی کی اپیل سپریم کورٹ میں دائر کررکھی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
[pullquote]اس موقع پر تین امور کی وضاحت ضروری ہے ۔[/pullquote]
(۱)12مارچ2019کو لال مسجد آپریشن کیس کو سپریم کورٹ نے خود سماعت کے لئے مقرر کیا تھا ۔ کسی نے کسی بھی قسم کی کوئی درخواست دائر نہیں کی تھی ۔
(۲)جامعہ حفصہ کی تعمیر کے لئے ایچ الیون میں الاٹ کئے گئے بیس کنال کے پلاٹ کے متعلق معاہدے کو سپریم کورٹ نے منسوخ نہیں کیا ۔ وفاقی انتظامیہ نے از خود مذکورہ معاہدے کو منسوخ کیا ہے ۔ وفاقی انتظامیہ کا یہ کہنا کہ’’معاہدے کو سپریم کورٹ نے منسوخ کیا ہے،بالکل حقائق کے برعکس ہے ۔
ّ(۳)لال مسجد آپریشن کیس میں سپریم کورٹ کا دو اکتوبر 2007کا فیصلہ قانونی طور پر اب بھی برقرار ہے ۔ اس فیصلے کو سپریم کورٹ نے منسوخ نہیں کیا ہے ۔
[pullquote]*لال مسجد کا موجودہ تنازع*[/pullquote]
آئینی،قانونی اور اصولی طور پر وفاقی حکومت پابند تھی کہ وہ سپریم کورٹ کے دو اکتوبر 2007کے فیصلے کے مطابق ءجامعہ حفصہ کو لال مسجد سے متصلپرانی جگہ پر تعمیر کرتی مگر حکومت نے ایسا کرنے کے بجائے مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ اور محترمہ ام حسان حفظہا اللہ کو مجبور کرکے پرانی جگہ پر جامعہ حفصہ کی تعمیر کے مطالبے سے دستبردار کروا کر انہیں منت سماجت کرکے سئیکٹر ائیچ الیون میں جامعہ حفصہ کی تعمیر کےلئے متبادل پلاٹ دیا تھا ۔ نہ حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے جامعہ حفصہ کو پرانی جگہ تعمیر کیا اور نہ ہی ایچ الیون میں جامعہ حفصہ کی تعمیر کے لئے دیئے گئے پلاٹ کے متعلق معاہدے کی پاسداری کی ۔ وفاقی انتظامیہ نے بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ازخود ایچ الیون کے پلاٹ کے متعلق معاہدے کو منسوخ کرکے مذکورہ پلاٹ پر قبضہ کر لیا ۔ ایچ الیون میں جامعہ حفصہ کی تعمیر کے لئے پلاٹ قانونی طریقے سے مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ اور محترمہ ام حسان حفظہا اللہ کو الاٹ ہوا تھا ۔ پلاٹ کی الاٹمنٹ کے بعد مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ نے مذکورہ پلاٹ پر جامعہ حفصہ کی تعمیر کے سلسلے میں تقریباََ ساڑھے تین کروڑ روپے کی تعمیرات کروائیں ۔
جب وفاقی انتظامیہ نے اچانک مذکورہ پلاٹ واپس لے لیا تو اس کی وجہ سے تقریباََ ایک سال پہلے جامعہ حفصہ کی انتظامیہ اور وفاقی انتظامیہ کے مابین اختلافات شروع ہوئے ۔ تنازع شروع ہوا ۔ گزشتہ تقریباََ ایک سال سے وفاقی انتظامیہ نے کئی بار مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ سے جامعہ حفصہ کے لئے متبادل پلاٹ اور تعمیرات کے حوالے سے کئی دفعہ وعدہ کرکے وعدے کی خلاف ورزی کی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ حکومت اور وفاقی انتظامیہ کی عہد شکنی اور غیر مناسب روئیے سے تنگ آکر اپنے مطالبات کے حق میں احتجاجاََ 26جنوری 2020کی تہجد کے وقت کچھ طالبات کے ہمراہ الال مسجد آگئے ۔ 26جنوری 2020سے لیکر آج تک مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ،ا ن کی اہلیہ محترمہ ام حسان حفظہا اللہ اور جامعہ حفصہ کی ڈھائی سو سے زیادہ طالبات و معلمات لال مسجد میں موجود ہیں ۔ 26جنوری سے لیکر آج تک پیش آنے والے واقعات کے متعلق ایک الگ آرٹیکل لکھا جاسکتا ہے ۔ بہرحال اس وقت مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ کے چار بنیادی مطالبات ہیں ۔
(۱)عدالتوں میں قرآن و سنت کے قوانین کا نفاذ ۔
(۲)جہاد کشمیر کے لئے مجاہدین کو کشمیر جانے کی اجازت
(۳)سپریم کورٹ کے دو اکتوبر 2007کے فیصلے کے مطابق جامعہ حفصہ کی پرانی جگہ تعمیر یا ایچ الیون میں دیئے گئے بیس کنال کے متبادل پلاٹ کے متعلق معاہدے کی بحالی یا ایچ الیون والے پلاٹ کے بدلے جامعہ حفصہ کی تعمیر کے لئے متبادل پلاٹ کی الاٹمنٹ اور ایچ الیون والے پلاٹ پر جامعہ حفصہ کی تعمیرات پر خرچ کئے گئے ساڑھے تین کروڑ روپے کی ادائیگی ۔
(۴)(مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ کے)لال مسجد آنے جانے پر پابندی کا خاتمہ ۔
مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ کے مذکورہ بالا چاروں مطالبات آئینی،قانونی اور اخلاقی طور پر درست ہیں ۔ مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ کے مذکورہ بالا چار مطالبات میں سے اگر پہلے دو مطالبات کو فوری طور پر ماننا حکومت کے لئے ممکن نہیں ہے تو اس پر مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ اور ان کے رفقاء بھی زیادہ سختی نہیں کریں گے ۔ مگر آخری دو مطالبات کو تسلیم کرنا حکومت کے لئے کسی طور پر بھی کوئی مشکل نہیں ہے ۔ اگر حکومت مسئلے کے حل کے لئے سنجیدہ ہے تو مسئلہ چند گھنٹوں میں حل ہو سکتا ہے ۔ مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ کے مطالبات ایسے نہیں ہیں جو ناقابل قبول ہوں ۔ میرے خیال میں حکومت اگر ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کرے تو لال مسجد کا موجودہ تنازع چند گھنٹوں میں حل ہو سکتا ہے ۔
حکومت کے لئے کوئی مشکل نہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے دو اکتوبر 2007کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے جامعہ حفصہ کو لال مسجد سے متصل پرانی جگہ پر تعمیر کردے ۔ اگر لال مسجد سے متصل پرانی جگہ پر جامعہ حفصہ کو تعمیر کرنے کو حکومت یا کوئی اور اپنی شکست سمجھتی ہے یا جامعہ حفصہ کی پرانی جگہ تعمیر کسی کی طبیعت پر ناگوار گزارتی ہے تو پھر حکومت ایچ الیون والے پلاٹ کے معاہدے کو قانونی سقم دور کرکے بحال کرسکتی ہے ۔ اس لئے کہ ایچ الیون کے پلاٹ کے متعلق معاہدے کو سپریم کورٹ نے منسوخ نہیں کیا ۔ معاہدے کی منسوخی انتظامیہ اور حکومت کا اپنا فیصلہ ہے ۔ معاہدے میں قانونی سقم کی بنیاد پر اگر مذکورہ معاہدے کو منسوخ کیا گیا ہے تو قانونی سقم کو با آسانی ختم کیا جاسکتا ہے ۔ اگر حکومت اور انتظامیہ ایسا بھی نہیں کرنا چاہتی تو جامعہ حفصہ کے لئے متبادل پلاٹ الاٹ کرکے اور ایچ الیون والے پلاٹ پر ہونے والے خرچے کی ادائیگی کرکے موجودہ تنازع کا ڈراپ سین کرنا ممکن ہے ۔
مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ اور محترمہ ام حسان حفظہا اللہ کا موقف اصولی ہے ۔ ان کے مطالبات آئین،قانون اور قرآن و سنت کی روشنی میں جائز ہیں ۔ ان کے جائز مطالبات بہرصورت تسلیم ہونے چاہئیے ۔ مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ اور ان کی اہلیہ کا مقصد کوئی ذاتی نہیں ہے ۔ وہ کوئی ذاتی مفادات کی جنگ نہیں لڑرہے ۔ ان کی جدوجہد اپنے آئینی،قانونی،شرعی اور اخلاقی حق کی وصولی کے لئے ہے ۔ وہ کوئی ذاتی جائداد و ذاتی بینک بیلنس نہیں بنانا چاہتے ۔ روز اول سے میرا موقف یہی ہے کہ مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ کے جائز مطالبات حکومت تسلیم کرے ۔ روز اول سے میرا موقف ہے کہ ناجائز مطالبہ کسی کا بھی تسلیم نہیں ہونا چاہئیے ۔
ہاں مجھے مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ اور محترمہ ام حسان حفظہا اللہ سے صرف ایک چھوٹا سا اختلاف تھا ۔ وہ یہ کہ مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ اور محترمہ ام حسان حفظہا اللہ ملک کے مفاد میں اور ملک میں امن و امان کی خاطر جامعہ حفصہ کی پرانی جگہ پر تعمیر سے دستبردار ہوئے تھے ۔ میری ذاتی رائے میں اب بھی ملک کے مفاد میں اور ملک میں امن و امان برقرار رکھنے کے لئے انہیں ہر صورت تصادم سے بچنا چاہئیے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے اسباب پیدا فرما دے کہ لال مسجد کے موجودہ تنازع کے حل افہام و تفہیم سے نکل آئے ۔ اللہ تعالیٰ حکومت کو فہم و فراست نصیب کرے کہ وہ موجودہ تنازع کے حل کے لئے کوئی بہتر راستہ نکالے ۔ اللہ تعالیٰ لال مسجد میں موجود میری تمام بہنوں بالخصوص مولانا عبدالعزیز غازی حفظہ اللہ اور محترمہ ام حسان حفظہا اللہ کی حفاظت فرمائے ۔ آمین ۔