پاکستان کے زیر انتظام آزادکشمیر کے وزیراعظم ایک عرصہ سے آزادکشمیر حکومت کو منقسم ریاست جموں وکشمیر کی نمائندہ حکومت تسلیم کرنے اور بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے نمائندگی کی مانگ کر رہے ہیں۔اگر فاروق حیدرکی طرف سے آزادکشمیر کی مسلمہ نمائندہ حیثیت کے مطالبے کو پذیرائی بخشی جاتی ہے تواس کے خدوخال کیا ہوں گے؟
پاکستان کو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے دست بردار ہونا پڑے گا
معاہدہ کراچی جس کے تحت گلگت بلتستان کا 72971مربع کلومیٹر علاقے کا انتظام عارضی طور پر پاکستان کے حوالے کیا گیا تھا ختم ہو جائے گا جس کے نتیجے میں آزادکشمیر اورگلگت بلتستان پر مشتمل ون یونٹ بحال ہو جائے گا
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ معاہدے بالخصوص شملہ معاہدہ ختم ہو جائے گا جس کے اثرات سندھ طاس معاہدے پر بھی پڑیں گے۔
ایک اہم سوال یہ بھی ہے عالمی سطح پر کس حد تک حمایت مل سکتی ہے امریکہ چین سمیت دیگر عالمی طاقتیں اس کی کس حد تک حمایت کریں گے۔کیا اسلامی ممالک حمایت کریں گے۔
5اگست 2019کے بعد ترکی،ایران اور ملایشیاء کے علاوہ کسی اسلامی ملک کی طرف سے حمایت نہیں ملی۔
منقسم ریاست جموں وکشمیر کے اندر موجود قومیتوں کی نمائندہ لیڈر شپ آل پارٹیز حریت کانفرنس،ہندوستان نواز وادی کی لیڈر شپ،جموں کے ڈوگرے (غیر مسلم کشمیری)،پونچھی،گلگتی،بلتی،کشتواڑی قومیتوں کو اعتماد میں لینے کیلئے کیا حکمت عملی ہوگی؟
اور پھر سب سے بڑھ کر ماضی کی تلخیاں،نفرتیں جو آج بھی مذہبی،علاقائی اور لسانی تقسیم کی شکل میں موجود ہیں سب کو ایک صفحے پر لانا ناممکن نہیں مشکل ضرور ہے۔
ہندوستان جموں میں ہندوانتہا پسندی کو تقویت دے گا۔ہندوستان نواز وادی کے لیڈروں کو بھاری سرمایہ کاری یا طاقت کے زور پر اس کی حمایت سے روکے گا۔
یہ تلخ حقیقت ہے ………………کہ چند آشفتہ سروں کو چھوڑ کر پیسہ ہماری لیڈر شپ کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ بڑے بڑے القاب کے حامل ہمارے سیاستدان 1947سے لے کر آج تک نقد یا اکاموڈیشن کی صوت میں الحاق کے نعرے کی قیمت ہر دو طرف سے وصول کرتے رہے.
موجودہ صورت حال میں واحد دلیل جو آزادکشمیر کی حکومت کو نمائندہ حکومت تسلیم کرنے کے حق میں جاتی ہے وہ ہندوستان کا 5 اگست 2019کا اقدام ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں سے مکمل متصادم ہے۔
ایسی صورت میں پاکستان اگر آزادکشمیر کی حکومت کو نمائندہ حکومت تسلیم کرنے میں پہل کرے تو ہندوستان کیلئے مشکلات ہو سکتی ہیں،لیکن اس کیلئے پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان میں سے گلگتی اوربلتی قومیتوں کی لیڈر شپ کو اعتماد میں لے کر انہیں اس نمائندگی میں شامل کرنا ہوگا،اور ساتھ ساتھ آزادکشمیر کا حریت چیپٹر وادی کی نمائندہ حیثیت سے اس نمائندگی میں شامل ہو۔
نمائندہ حکومت انتہا پسندی کی تمام بندشوں سے آزاد اور فلاحی ریاست کے تصور کے ساتھ ہی قابل قبول ہو سکتی ہے جس میں تمام مذاہب،مسالک اور قومیتوں کی برابری کی بنیاد پر نمائندگی ہو،کسی خود ساختہ بالادست تہذیب کی اجارہ داری یا غلبے کا تاثر سامنے نہ آئے، جس میں ہندو ڈوگروں کو بھی آزادی کا احساس ہو،شیعہ اور اسماعیلی مسالک بھی مطمئن ہوں۔
ان مسائل کا حل ایک دم آزادکشمیر حکومت کو نمائندہ حکومت تسلیم کرنے میں فی الوقت نظرنہیں آتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ لائن آف کنٹرول کو نرم اور منقسم کشمیر کے تمام حصوں کی قومیتوں کو عارضی طور پر ہندوستان اور پاکستان کے آئین کے اندر ایک دوسرے سے ملنے کیلئے جدوجہد کی جائے۔
وزیراعظم آزادکشمیر کی مانگ اپنی جگہ قابل تحسین اور پرکشش،لیکن اسے عملی شکل دینے کیلئے ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔
شہید کشمیر محمد مقبول بٹ سے کسی نے پوچھا کہ کے ایچ خورشید اور آپ کی سوچ میں کیا فرق ہے ان کا جواب تھا کہ کے ایچ خورشید مطالبہ کر رہے ہیں ہمیں کھلاڑی تسلیم کیا جائے جبکہ ہم بطور کھلاڑی میدان میں کھیل رہے ہیں، مطالبہ نہیں کر رہے۔وزیراعظم فاروق حیدر بھی مطالبہ نہ کریں بلکہ میدان میں اتریں۔
5اگست کے بعد کی کارکردگی اگر دیکھی جائے کہ حکمران جماعت ن لیگ،پی پی،مسلم کانفرنس بالخصوص جماعت اسلامی کوئی بھی اقتدار پسند سیاسی جماعت لائن آف کنٹرول پر کوئی بڑا اجتماع تو دور کی بات علامتی طور پر خونی لکیر کی طرف نہیں گئی۔
دعوے اپنی جگہ لیکن ان کا عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ نادیدہ طنابیں انہیں دائرے میں گھما رہی ہیں جب حالت یہ ہو تو کیا نمائندہ اور کیا اس کی نمائندگی،سچ یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم ابھی آزادی کیلئے تیار ہی نہیں ہوئے۔