انسانیت

میں ایک ریسرچ کا مطالعہ کر رہا تھا جس میں چند اعداد و شمار بھی دیئے گئے تھے جس کے مطابق دنیا میں قریباً چار ہزار سے زائد مختلف مزاہب موجود ہیں.

ہم تو چند ایک ادیان سے ہی شناسا ہیں یا ان کے بارے میں پڑھ رکھا ھے. میں نے کوشش کی کہ دین کی تعریف کروں تو سمجھ میں یہی آیا کہ کہ دین اقدار کا مجموعہ ہے اعلیٰ اخلاقی انسانی اقدار …

معروف حدیث نبوی ص ہے انما بعثت لاتمم مقارم الخلاق. یعنی انبیاء کی بعثت کا مقصد اخلاق کی تکمیل تھا یعنی انسان کو شعوری و فکری طور پر اعلیٰ بنانا تھا.

پھر آئیے ہم اپنے معاشرے پہ نظر دوڑاتے ہیں کہ ہم اخلاقی طور پہ کس نہج پر ہیں تو معلوم ھوتا ھے کہ ہم گدھوں کا گوشت کھانے کے عادی ہیں ، غیر معیاری مشروبات بیچتے ہیں اور جعل سازی میں سبقت لے چکے ہیں.

مقصد کسی پر تنقید کرنا ھر گز نہیں مگر محاسبہ کرنا ضروری ھے کہ ہم اخلاقی پستی کا شکار کیوں ہیں؟

میری ناقص رائے میں ہم نے اصل مفاہیم کو چھوڑ کر چھلکے سے چپکے رہنے کو ترجیح دی ہے. ہم نے قرآن کو رٹے ضرور مار لیئے ہیں مگر اسکے آفاقی میسج سے رجوع کرنے کی کوشش ہی نہیں کی. نتیجہ یہ ھے کہ ہم تیسری دنیا میں رہ رہے ہیں.

دنیا اگلے تیس برسوں میں مریخ پہ آبادکاری کا سوچ رہی ھے مگر ہم طوطا فال سے قسمت کا حال معلوم کرنا چاھتے ہیں…

قصور کس کا ھے؟

قصور ان تمام طبقات کا ھے جنہوں نےمعاشرے کی سوچنے کی صلاحیت کو صلب کرنے کی کوشش کی.

زمانے کے ارتقاء کے ساتھ انسانی شعور کو ارتقاء کا موقع فراہم نہی کیا. اور اگر کسی نے معاشرے کے مردہ ضمیر کو جھنجھوڑ کر اس میں طاقت پیدا کرنے کی کوشش کی اسکا حال برا ھی ھوا. ایک شعر زہن میں آدھمکا ھے

یہ ارتقاء کا چلن ھے کہ ہر زمانے میں
پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے ہیں

ہمیں اسی ڈر کا خاتمہ کرنا ھے کہ ہم کسی کی دکان بند کرنے نہی آئے مگر ہم سوسائٹی کو تھوڑی سپیس دینا چاھتے ہیں…

باتوں باتوں میں ہم کہیں اور نکل گئے مگر اس تمام تمہید کا مقصد فقط یہی ھے کہ انسانیت کی خدمت اور بھلائی کو ہی اگر ہدف قرار دیا جائے تو اسی صورت میں ہم ایک بہتر معاشرہ ترتیب دے سکتے ہیں . ایسے تمام کاموں سے اجتناب کریں جس سے بقا انسانیت کو خطرات ھوں.میرے خیال سے اسے اگر معیار قرار دے دیا جائے تو ہم حقیقی معنوں مردِ قلندر و مرد حُر بن سکتے ہیں. لیکن یہ سب ممکن کیسے ھو گا؟ بہت اچھا سوال ھے!!!

جواب یقیناً یہی ھونا چاھیے کہ معاشرے کی علمی سطح کو بلند کیا جائے، ہم اپنی درس گاھوں میں روبوٹ تیار کرنے کے بجائے انسان تیار کریں، اور انکے سوچنے اور فکر کرنے کی صلاحیت کو مفقود نہ ھونے دیں انکے اندر سے ڈر ختم کریں.

ہم سب ایک مہذب اور آئیڈیل معاشرے کا خواب دلوں میں رکھتے ہیں . معلوم نہی کہ یہ خواب ہماری آنکھیں بند ھونے سے پہلے شرمندہِ تعبیر ھو کہ نہی مگر ہم اس کی کوشش جاری رکھیں گے کیونکہ یہی انسان اور انسانیت کی بقا کے لیے ضروری ھے اور یہی انبیاء اور مصلحین کا بھی پیغام تھا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے