ریاست میں مذہب مداخلت کیوں ؟

کیا ریاست اور مذہب الگ اکائیاں تسلیم کی جائیں.؟

آپ کی یہ بات بالکل بجا ہے. اس وقت تمام مذاہب کے پیروکار اپنے اپنے مذاہبِ کی اصل سے پھر چکے ہیں.

اگر ہر مذہب کے ماننے والے اس مذہب کی اساسی تعلیمات پر ہی عمل کرلیتے تو امن کوئی قفقاف کے پہاڑوں میں دیوہیکل درندے کے پھن میں رکھا ہوا موتی نہیں جس کا حصول مشکل ہو.

یہ بھی درست ہے کہ ہم ریاست کو چھ کلمے پڑھوانا چاہتے ہیں اور بس کلمے ہی پڑھوانا چاہتے ہیں.ہمارا زوال جانئے کہ ہم نے لفظیاتی ہیر پھیر کو معیارِ ایمان بنالیا. یہ بھی تسلیم کہ رواداری کا نام لینا بھی ہماری زبانوں کو آلودہ کردیتا ہے.

یہ الزام بھی اپنی پوری صداقت کے ساتھ مان لیا گیا کہ مسلمان اسلام میں عملی تحریف کے مرتکب ہوچکے. ہم نے رسالت مآب علیہ السلام کی رواداری، وسیع المشربی اور غیر مسلموں کے ساتھ ان کے رحیمانہ برتاؤ کو عملا دین میں منسوخ مان لیا.

یہ دلیل بھی مضبوط مانتے ہیں کہ تثلیث کا عقیدہ، ختمِ نبوت کے نا ماننے عقیدے سے زیادہ اہم اور زیادہ خطرناک ہے. تو پھر ختم نبوت کے منکرین پر زمین تنگ کیوں.؟

عیسائیت پر بھی تمام اعتراضات حرف بہ حرف تسلیم، مانتے ہیں کہ عیسائیت اپنی تعلیمات پر عمل نہیں کررہی… واقعی دنیائے عیسائیت دوسرا گال پیش نہیں کررہی ہے. بلکہ مقابل کے مقابلے پر آمادگی سے قبل ہی اس کی زمینیں چھیننا اہل غرب کا شیوہ اور شعار بن چکا.

ہندو ازم پر اب ہم کیا کہیں. متین اور متفکر ہندو بھی ہندو مت کے موجودہ روییے پر نالاں ہیں. ہندوستان کے طول و عرض میں آئے دن (ہندو) ریاست کی چیرہ دستیوں پر سراپا احتجاج ہیں. ادیب کسی سماج کا حساس طبقہ ہوتا ہے. اور ان کا اظہار عدم اطمینان ہم اور آپ بھی دیکھ چکیں.

یہودیت پر تو آپ کے مقدمے کو ہماری گواہی کی تقویت کی بھی ضرورت نہیں. موجودہ شکل میں موجود یہودیت کے انسانیت پر استبداد کی تاریخ سب مانتے ہیں.

یہ سب تسلیم.

لیکن محترمی کیا آپ کا پیش کردہ مقدمہ ہمیں صرف اسی نتیجے تک پہنچاتا ہے جو آپ نے اخذ کیا؟
آپ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہر مذہب کو ماننے والے کو تحفظ فراہم کرے. لیکن خود ریاست کا کوئی مذہب نہ ہو.

کیا واحد حل یہی ہے کہ اب تمام آسمانی مذاہب کو ہم پسِ پشت ڈال دیں. کیا تمام تر الہامی تعلیمات کو آپکے پیش رؤوں کے دو ایک صدیاں قبل وضع کردہ نظام کے مقابلے میں ٹھکرادیا جائے.

کیا آپ کو یہ قرینِ قیاس اور قرینِ انصاف لگتا ہے. کہ چودہ سو، دوہزار اور چار ہزار سالہ مجموعی انسانیت کی دانش کا اعتماد رکھنے والے مذاہب فقط کچھ سو سال پہلے والے نظام کے مقابلے میں مکمل مسترد کئے جائیں.

خصوصا اس حال میں کہ جب ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اچھا آپ کے تجویز کردہ نظام کی افادیت تو مسلم ہے. لیکن کیا آپ ہمیں اس کی کوئی عملی مثال مہیا کرسکتے ہیں. کوئی ایک ایسی ریاست جہاں آپ کا تجویز کردہ نظام لاگو ہو اور وہاں وہی ثمرات حاصل ہوئے ہوں جو آپ باور کرواتے ہیں.

ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ آپ کسی بھی نظام سے منسوب افراد کی زندگی پر نظر کو اس نظام پر نظر سے علیحدہ رکھیں.

اسلام کیا تعلیم دے رہا ہے. یہ اس بات سے بالکل ایک الگ بات ہے کہ مسلمان کیا کررہے ہیں
عیسائیوں نے دنیا کو کتنا آرام دیا اس کا اس بات سے کوئی ربط نہیں کہ سیدنا عیسی علیہ السلام کی تلقین کردہ تعلمات کیا تھی.

ہندو آج جو مذہب کے نام پر کررہا ہے. بھگوت گیتا اور وید کے اشلوک اس کا بالکل ساتھ نہیں دے سکتے ہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے