پیرس حملوں میں 130 افراد کی ہلاکت کا واقعہ دس دن گزرنے کے باوجود ابھی تک میڈیا کی سرخیوں میں ہے اور دنیا بھر میں سوشل میڈیا کی توجہ کا مرکز بھی بنا ہوا ہے۔ اس واقعے سے چند دن قبل بیروت کے نواح میں ایک خودکش بمبار نے دھماکے میں 40 افراد کو ہلاک کر دیا تھا اور صحرائے سیناء میں روسی طیارہ مار گرایا گیا تھا جس میں 224 مسافر ہلاک ہوئے تھے۔ان دونوں واقعات کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
فرانس حملوں کے بعد متعدد مغربی صحافیوں نے مجھے فون کر کے اس واقعہ پر سعودی موقف معلوم کیا۔ میرا جواب یہی تھا کہ ہم سب اس غیر انسانی اور ظالمانہ فعل کی شدید مذمت کرتے ہیں جس سے ہمارے مذہب اور معاشرے کی بدنامی کے سوا اور کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ فون کرنے والے ایک صحافی نے پوچھا کہ کیا ہم اس پر معذرت کریں گے؟ اس لغو سوال پر میں بہ مشکل اپنے غصے کو قابو میں رکھ سکا۔ ہم کس گناہ کی معافی مانگیں؟ کیا مشکوک اور پراسرار گروپوں کی قتل و غارت گری کے ذمے دار ہم ہیں؟ کیا ہم ان تمام مشکوک اور مذموم حملوں کے ذمہ دار ہیں جن کو بلا جواز اسلام کے سر تھوپ دیا جاتا ہے؟ میرا جواب تھا کہ میں اس پر معذرت نہیں کروں گا۔
ایسے واقعات کی بین الاقوامی تحقیقات کیوں نہیں کرائی جاتی ہیں اور ان کے نتائج کو دنیا کے سامنے پیش کیوں نہیں کیا جاتا؟ میں سازشی افسانوں میں یقین نہیں رکھتا مگر نائن الیون سے آج تک میرے تمام سوالات کا جواب کوئی نہیں دے سکا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ مشکوک دھماکوں اور آتش زدگی کے واقعات کے بعد ہمیشہ ملزمان کے پاسپورٹ صحیح سلامت رہتے ہیں؟ کیا دہشت گرد پاسپورٹ جیب میں رکھ کر حملے کرتے ہیں یا پھر ان کے پاسپورٹ آگ لگنے اور بم دھاکوں سے محفوظ رکھنے والی دھاتوں سے بنائے جاتے ہیں؟ نیویارک حملوں کے بعد سعودی پاسپورٹ صحیح سلامت برآمد ہوئے، اور فرانس حملوں میں شامی پاسپورٹ تباہی سے محفوظ رہے جو جعلی نکلے بلکہ ایک ہی نام اور نمبر کے گیارہ پاسپورٹ نکل آئے۔
نام نہاد لیڈروں اور متعصب سیاستدانوں کو مشکوک اور پراسرار حملوں کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا سلسلہ اب بند کر دینا چاہیے۔ ایسے کم علم لوگوں کو بلا جواز اسلام دشمنی کا راگ الاپنا بند کر دینا چاہیے جنھوں نے اپنی حکومتوں کے ان جرائم کی طرف سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں جو وہ القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کے قیام، دوسرے ممالک میں آمریتوں کی پرورش اور بدامنی کے فروغ اور مسلم ممالک میں سیاسی انتشار پھیلانے کے لیے کرتی رہی ہیں تاکہ ان ممالک کے وسائل کو لوٹا جا سکے۔
میں بھی معصوم لوگوں کے قتل عام کی مذمت کے لیے ساری دنیا کے ساتھ کھڑا ہوں مگر براہِ مہربانی مجھ سے اس جرم کی معافی مانگنے کا مطالبہ نہ کیجیے جس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہے۔ نیتن یاہو روزانہ بنیاد پر فلسطینیوں کا قتل عام کرتا ہے مگر کیا یہودیوں اور صہیونیوں نے کبھی اس پر معذرت کی ہے؟ کیا دلائی لامہ اور آنگ سانگ سوچی نے میانمار میں بدھوں کے ہاتھوں ہولوکاسٹ کی طرز پر ہزاروں نہتے مسلمانوں کے قتل عام پر معذرت کی ہے؟ کیا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ریاست گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کو زندہ جلانے اور گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کرنے پر معذرت کی ہے؟ کیا بش، بلیئر، رمز فیلڈ، چینی، وولفووٹز، بریمر، شیراک اور ہاورڈ نے لاکھوں افغانوں اور عراقیوں کے بے رحمانہ قتل عام پر معذرت کی ہے؟
پیرس حملوں میں مرنے والوں کا بدلہ بے گناہ شامی مسلمانوں سے لینے کے لیے پوری دنیا اٹھ کھڑی ہوئی ہے مگر اس سے کچھ دن قبل داعش نے انقرہ میں ایک سو سے زیادہ بے گناہ لوگوں کہ بم دھماکے میں قتل کیا تھا تو کسی نے احتجاج نہیں کیا تھا۔ ایسا متعصبانہ غم وغصہ مجھے اور دنیا میں بے شمار دوسرے لوگوں کو قبول نہیں۔ ایسے مشکوک حملوں کی ذمہ داری جن پراسرار اور مشکوک مسلمان گروپوں سے منسوب کی جاتی ہے ان کو مغربی خفیہ ایجنسیاں کنٹرول کرتی ہیں۔ ایسے گروپ مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتے۔ ان کی کسی کارروائی کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہے لہٰذا میں معذرت نہیں کروں گا۔