ایک سعودی اپیل عدالت نے مذہبی گمراہی پھیلانے اور اخلاقی بے راہروی کے الزام میں گذشتہ ہفتے پینتیس سالہ فلسطینی نژاد سعودی شاعر اشرف فیاض کاسر قلم کرنے کا حکم دیا ہے حالانکہ اس سے پچھلی عدالت نے اسی فردِ جرم میں اشرف فیاض کو چار برس قید اور آٹھ سو کوڑوں کی سزا سنائی تھی اور جب اشرف نے اس سزا پر نظرِ ثانی کی درخواست دائر کی تو اپیل عدالت نے چار سالہ سزا ناکافی قرار دیتے ہوئے اسے سزائے موت میں بدل دیا۔
اشرف فیاض فردِ جرم نہیں مانتے۔ان کی بیوی کا کہنا ہے کہ اشرف نے سماجی گھٹن کو ضرور شاعری کا موضوع بنایا تاہم مذہبی گمراہی اور بے راہ روی کے الزامات میں کوئی حقیقت نہیں۔ انھیں مقدمہ لڑنے کے لیے وکیل بھی کرنے نہیں دیا گیا اور اپیل عدالت نے اشرف کا موقف سنے بغیر ایک ہی سماعت میں سزاِ قید کو سزاِ موت سے بدل دیا۔
ہم سعودی قوانین اور عدالتی ڈھانچے سے واقف نہیں۔ بس یہ دکھ ہے کہ جس زمین نے امرالقیس ، النبیغہ ، زہیر ابی سلمہ ، الخنسہ ، اروا ، امر ابنِ خلتوم ، حارث ابنِ حلیزہ ، المحلل جیسے عربی ساز شاعروں کو جنم دیا ، جس ریگزار سے قصیدے اور ہجو کی اصناف بگولے کی طرح اٹھیں ، جہاں قبائلی منافقتوں اور فرسودہ روایات سے شاکی خانہ بدوش ملنگ شعرا گروہِ سلوک کے نام سے جانے جاتے تھے ، جہاں راویوں کا باقاعدہ طبقہ پیدا ہوا کہ جس کا کام ہی یہ تھا کہ وہ اعلیٰ شاعری حفظ کرکے قریہ قریہ عام لوگوں تک شرح کے ساتھ پہنچائے ( بعد از فروغِ اسلام یہی روایت حفظِِ قرآن میں ڈھلی )۔
وہ سرزمین جہاں شاعر قبیلے کی پہچان اور اس کا فخر ہوا کرتا تھا ، وہ شعرا جو سال بھر عکاظ کے میلے کا انتظار کرتے تاکہ بھرے جلسے میں تیغِ مصرعہ سے زجال برپا کرکے معاصر کا خیالقلم کردیں اور پھر افضل کلام کعبے میں معلق ہوتا اور اگلے میلے تک کلامِ معلقات کے نام سے صحرائی قافلوں کے ساتھ ساتھ منزل بہ منزل گونجتا رہتا۔جب ہزاروں برس کی ادبی و وضعی روایات سینے میں چھپائے ایسے فصیح و بلیغ مردم خیز رومانی خطے سے خبر آئے کہ دو ہزار پندرہ میں کسی شاعر کا سر قلم کرنے کا حکم اس کا موقف پوری طرح سنے بغیر دیا گیا تو صدمہ تو ہوتا ہے۔
شاعری کی اپنی مملکت اور اس مملکت کے اپنے قوانین و رسوم و رواج چلے آ رہے ہیں۔
ہمیں ہرگز ہرگز اعتراض نہ ہوتا اگر فاضل جج اشرف فیاض کو لایعنی مصرعہ کہنے پر ایک لاکھ ریال جرمانہ کر دیتا۔جیسا مصرعہ ہمارے ایک بریڈ فورڈین شاعر سے سرزد ہوا اور اس پر وہ آج بھی داد سمیٹتے ہیں ،
ہم اہلِ ہجر سے کرنے لگے ہیں دار و رسن
یا پھر عدالت ایسا شعر لکھنے پر جائیداد کی قرقی کا ڈھول پٹوا دیتی جس کے معنی کنوؤں میں بانس ڈلوانے پر بھی نہ ملیں ،
ہم تو سورج کے انتظار میں تھے
نیند کیا مانگتے کبوتر سے
یا پھر عدالت انسدادِ تخلیقی دہشت گردی کی دفعات کے تحت اس قماش کے اشعار کالعدم قرار دے دیتی تو کوئی بات بھی تھی جیسے،
کھڑکی سے بھاگتی تھی دلہن حادثات کی
گھوڑا لیے کھڑا تھا پتیلی حیات کی
یا ایسی نظم لکھنے والے کو ڈنڈہ بیڑی لگوا کے کالے پانی روانہ کردیتی۔
کل میرے شوق کا طوطا انتظار کی سبز مرچیں کھا گیا
رقابت کی غلیل بھی آخر نیم کی شاخ سے بنتی ہے
مگر مچھ نے درخت پے چڑھ کے خودکشی کرلی
مچھلی پانی پیتے پیتے مر گئی
خانقاہوں کے کبوتر آخر وٹس ایپکیوں استعمال نہیں کرتے
محبت کی روٹی جل جائے گی
تو
ہنی مون کے نوالے کیسے کھاؤ گے
چلو جھینگر کی ناؤ پر بیٹھ کے وہاں چلتے ہیں
جہاں دھوپ مینڈکوں پے وارنش کر رہی ہے۔
خیال کو اپاہج بنانے کے جرم میں شاعر کی انگلیوں کے درمیان قلم رکھوا کے کسی قلمی جلاد سے بھنچوا کر ہاتھ لنجا کرنے کی سزا بھلے فوجی عدالت ہی کیوں نہ دے ہمیں کوئی خوشی ہوگی۔
تین بار وارننگ کے باوجود بھی خراب شاعری کے ذریعے روشنائی اور کاغذ ضایع کر کے ماحولیات کی ابتری میں حصہ دار بننے والے شاعر پر تاحیات شعر نہ لکھنے کی پابندی عائد کر دی جائے تو کون سخن شناس حمایت نہ کرے گا۔
جو عناصر ردیف قافئے اور وزن کا بنیادی امتحان پاس کیے بغیر نثری شاعری پر اتریں اور پھراترائیں بھی۔ انھیں دنیا کی کسی عدالت سے پانچ برس گھریلو نظربندی کی سزا پر بھی شائد ہی کوئی ابروِ سخنورخم ہو۔
ہم تو یہ سفارش بھی کریں گے کہ پبلک ریلشننگ کی سیڑھی کاندھے پر اٹھائے اٹھائے اہلِ زر و اختیار و سفارش شاعر نماؤں کو فلیپ کے قالین اور تمہید کے اڑن کھٹولے پر بٹھا کر پرستان ِ شہرت کی سیر کرانے والے پیشہ ور نقادیوں کو بھی وہی سزا ملے جو پیشہ ور قاتلوں کے لیے مخصوص ہے۔
مجھے اچھے سے معلوم ہے کہ کچھ نیم قلم باز راہِ انصاف میں روڑے اٹکانے کے لیے ایسے سوالیہ کانٹے ضرور بکھیریں گے کہ یہ فیصلہ کیسے ہو کہ اچھی شاعری کیا ہوتی ہے اور بری شاعری کی کیا تعریف ہے ؟ کونسی شعری صنف کس صنف کے مقابلے میں کس کسوٹی کے تحت افضل یا گھٹیا قرار دی جا سکتی ہے ؟ تخلیقی عمل کو کسی ایک یا چندسانچوں میں قانوناً کیسے ڈھالایا مقید کیا جاسکتا ہے ؟ برے اور اچھے خیال کی عدالتی تشریح کیونکر ممکن ہے ؟ فاضل عدالت نے خود کس قدر شاعری پڑھی ہے اور فاضل جج یا ان کے والد ، ساس ، اہلیہ یا اولاد میں سے کوئی ایک بھی شاعر ہو تو انصاف کے تقاضوں میں غیرجانبداری کیسے جھلکے گی ؟
میری استدعا ہے کہ عدالت دورانِ سماعت ایسے توجہ ہٹاؤ اعتراضات سنی ان سنی کرتی رہے اور عدالتی وارننگ کے باوجود بھی اس طرح کے کج بحثیے ٹر ٹر سے باز نہ آئیں تو ان پر بھی توہینِ عدالت کی فردِ جرم عائد کی جائے کہ جس کی سزا چھ ماہ ہے۔
ایسے بے جا اعتراضات کے غبارے خراب شاعروں کے ہوتے سوتے اس واسطے چھوڑتے رہتے ہیں تاکہ اصل مسئلے کو کنفیوز کر کے عدالت کا قیمتی وقت فضولیات سلٹانے میں ہی ضایع ہو جائے اور ناقص شعریت کی بیساکھیوں کے بل پر عزت کمانے کا خرخشہ اور من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو کا دھندہ یونہی چلتا رہے۔
جو عناصر چیلنج کرتے ہیں کہ خراب شاعری و شاعر کا تعین اور درجہ بندی دنیا کے کس قانون کے تحت کون سی عدالت کر سکتی ہے۔ان سے بس اتنا سوال ہے کہ آپ کے ہی ایک گروہ نے کس قانون کے تحت میر ، غالب ، انیس ، اقبال اور فیض کو اردو کے پنج شعری قرار دے رکھا ہے اور دوسرا گروہ کس قانونی برتے پر فیصلہ کرتا ہے کہ اردو میں غالب کے بعد اگر کوئی ہے تو بس ن م راشد ۔اور تیسرا گروہ کس دیوانی یا فوجداری ضابطے کی کس دفعہ کے تحت مسلسل بتبتا رہا ہے کہ جدید اردو شاعری فیض سے شروع ہو کر فراز پر ختم ہوجاتی ہے۔
اگر دھڑلے سے دن دہاڑے ایسے ادبی فتوے جاری ہو سکتے ہیں تو پھر کوئی بھی عدالت انسدادِ دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت خراب شاعری کرنے والوں کو قید، جلاوطنی یا جرمانے کی سزا کیوں نہیں دے سکتی۔اپنی ذات میں قانون بننے والے کسی ٹھیکیدار نے سوچا کہ نام نہاد ریٹنگ چارٹ میں غالب ، میر ، انیس ، اقبال ، فیض ، ناصر اور فراز وغیرہ ہی مسلسل چھائے رہیں گے تو پھر ہمارے مشفقین از قسمِ شفیق عاجز ، قیصر کلا بتوی ، خالد بے بہرہ ، توفیق وزنی ، طفیل گنجائشی وغیرہ اس چارٹ میں کب اور کیسے شامل ہوں گے کہ جو سوتے ہی شاعری کے گدیلے پر ہیں اور بیٹھتے بھی اسی پر ہیں تاکہ مصرعے کا وزن ان کے وزن تلے باوزن رہے۔
بخدا اس مضمون سے کسی ہما شما کی دل آزاری یا دلداری مقصود نہیں۔مقصد بس اتنا ہے کہ کسی طرح اشرف فیاض جیسے شاعر کو سزائے موت دینے والی عدالت تک یہ معروضات پہنچ جائیں۔اس کی خاطر ہم ایمس کیوری ( فرینڈ آف کورٹ ) بننے کو بھی تیار ہیں۔ ہوسکتا ہے فاضل عدالت اس درد مندانہ مضمون کی روشنی میں اشرف فیاض کی شاعری پر مجموعی نگاہ ڈالے تو انصاف کے دل میں نرم گوشہ پیدا ہوجائے اور سیاسی و نظریاتی وجوہات کی بنا پر سنائی جانے والی سزا میں تخفیف یا پھر بریت ہو جائے۔
بشکریہ :روزنامہ ایکسپریس