میں یہ بات تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھا کہ یہاں کوئی خدا بھی ہے. اور اگر ہے بھی تو ہوتا ہوگا. مجھے اس سے اور یقینا اس کو بھی مجھ سے کوئی لینا دینا نہیں. پھر مجھے خدا کا ایک نمائندہ ملا.
مجھے خدا سے کوئی تعلق نہیں. نہ نفرت کا نہ محبت کا… مگر خدا کے نمائندوں سے مجھے شدید نفرت ہے. مگر وہ ایسا تھا کہ مجھے اپنی نفرت پر پھر سے سوچنا پڑا.
اس نے کبھی مجھے یہ احساس نہیں دلایا کہ میں اس کے یا کسی کے بھی خدا کو نہیں مانتا. وہ میرے ساتھ پب بھی جاتا. بار بھی جاتا. اس کی حکمت عملی عجیب تھی..پھر مجھے نہیں معلوم کب اس کے کبھی کبھار کے ایک معمولی نشتر سے گھائل ہوکر میں خدا کا وجود اور اس کی کارِ جہاں میں ہیر ھیر کا قائل ہوگیا.
اس دن اس نے میرے لئے پنک شیمپئین کی پارٹی رکھی تھی. میرے خدا کے قائل ہونے کا جشن اگلے دن بھی جاری رہا. اگلے دن شام کو وہ میرے گھر میں بلو لیبل وہسکی سے میری خاطر کررہا تھا.
میں پریشان تھا یہ کیسا خدا کا نمائندہ ہے. میرے ساتھ شراب پی رہا ہے. خیر رفتہ رفتہ وہ مجھے سمجھاتا رہا کہ خدا کے وجود کا قائل ہونا ہی کافی نہیں. خدا نے انسانوں کیلئے کچھ ضابطے مقرر کئے ہیں. ان پر عمل درآمد بھی ضروری ہے. میرے فلیٹ کے قریب ہی سینا گاگ تھا. میں نے وہاں جانا شروع کیا. ہفتے میں ایک بار ضرور جاتا. مجھے لگا کہ میں پرسکون ہوگیا ہوں.
وہ پھر میرے پاس آیا اور اس مرحلے پر اس نے میری رہنمائی اسلام کی طرف کی. اسلام کا مطالعہ میری زندگی کا دلچسپ تجربہ تھا. میں بلا تامل مسلمان ہوگیا. مجھے یہ توقع تھی کہ آج پھر پنک شیمپئین کا دور چلے گا.مگر وہ مجھے اسلامک سینٹر لے گیا. نمازیں پڑھوائی. عقیدہ سمجھایا.
مجھے لگنے لگا کہ میں زندگی برباد کرچکا ہوں. اب مجھے سدھار کا موقع ملا. میں نے اس سے کہا مجھے اپنے آس پاس کے ماحول سے گھٹن ہورہی ہے. مجھے کسی ایسے ملک کا پتہ دو جہاں میرے آس پاس اچھے مسلمان بستے ہوں. اور میں دین کا علم حاصل کرسکوں.
اس نے مجھے پاکستان کے ایک مدرسے میں بھیج دیا. یہاں آکر مجھے علم ہوا کہ میں ابھی مکمل مسلمان نہیں ہوں. مجھے ایک خاص رنگ میں رنگنا پڑے گا. مجھے لاء آف شریعہ کی کسی ایک تشریح کو اختیار کرنا ہوگا. سبز اور کالے رنگ سے پرہیز کرنا ہوگا.
میں نے یہ بھی کرلیا. اب میں مکمل مسلمان تھا اور مطمئن تھا. مدرسے میں کچھ سال گزارنے کے بعد میں نے یہیں پاکستان میں ایک ایسے صوبے میں رہائش اختیار کرلی. جہاں کےلوگوں کیلئے مذہبی تعلیمات پر عمل ان کی عادت بن چکی تھی.
پھر ایک دن میرے پاس ایک معروف عالم دین آئے دن اور انہوں نے مجھے سمجھایا کہ اگر میں مُردوں کے بارے میں سننے اور نہ سننے کے عقیدے سے واقف نہیں ہوں تب میں ادھورا مسلمان ہوں. اس نے تو ادھورا بھی نہیں کہا تھا. کافر کہا تھا. لیکن اتنے لمبے سفر کے بعد میں خود کو کافر کہتے ہوئے ہچکچارہا تھا. خیر میں نے اس کی بات بھی مان لی. اب میں حقیقی معنوں میں پورا کا پورا اسلام میں داخل ہوچکا تھا.
پہلے میں ملحد تھا. خدا کو نہیں مانتا تھا
اب میں مسلم ہوں. اور جو "میرے” خدا کو نہیں مانتا. وہ کافر ہے