دل جیسے مُٹھی میں جکڑا جا رہا ہے

”آدم بو‘ آدم بو‘‘…

چڑیل نے اپنے بے حد چوڑے نتھنے سکیڑے‘ پھر پھیلائے۔ اُس کے پر چمگادڑ کے پروں کی طرح تھے۔ پھیلے ہوئے اور ڈرائونے۔ آسمانی بلا کی طرح زمین پر اتری! جو سامنے آیا اُسے کھا گئی‘ کھاتی گئی! خلق خدا نے پناہ مانگی۔ لوگ چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دینے لگے۔ مائوں نے بچوں کو گھروں سے باہر بھیجنا بند کر دیا! خاندانوں کے خاندان تہہ خانوں میں جا چھپے!
حسینہ واجد کی پیاس ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے! بلور کے بنے ہوئے ساغر اور ان میں انسانی خون! مگر آہ! پیاس بجھ نہیں رہی! تاریخ نے بڑے بڑے ظالم دیکھے ہیں۔ سولہویں صدی میں ملکہ مَیری نے پروٹسٹنٹ عقیدہ رکھنے والوں کو آگ میں جلانے کا حکم دیا۔ پادریوں کو پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ملکہ کا نام ”خونی مَیری‘‘ پڑ گیا۔ سٹالن خلق خدا کے لیے عذاب بنا۔ آج ملکہ مَیری ہے نہ سٹالن! حسینہ واجد بھی تاریخ کے گمنام صفحے پر خون کے ایک بدنما دھبے کے سوا کچھ نہیں ہو گی! بہت جلد! ہاں! بہت جلد! جب پنڈلی سے پنڈلی جُڑے گی! جھاڑ پھونک کرنے والوں کو بلایا جائے گا! آنکھوں کے سامنے فلم چلے گی! حسینہ واجد کی رحم طلب نگاہوں کے سامنے پروفیسر غلام احمد‘ قمر الزمان‘ عبدالقادر مُلا‘ صلاح الدین چودھری اور علی احسن مجاہد کے چہرے پھریں گے‘ وہ چیخے گی! مگر چہرے بار بار نظر آئیں گے۔ موت کی غشی اس اذیت سے نجات نہیں دے گی! یہ تو محض آغاز ہو گا! آغاز! جس کا کوئی انت‘ کوئی آخر نہیں ہو گا!
1969ء کا اگست تھا جب ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالب علم عبدالمالک کو شہید کیا گیا۔ ٹیچر سٹوڈنٹ سنٹر میں تعزیتی اجتماع تھا۔ یہ کالم نگار بھی سامعین میں موجود تھا۔ عبدالمالک سے ہماری اچھی علیک سلیک اور خوب گپ شپ تھی۔ تمام مغربی پاکستانی طلبہ سے وہ محبت سے ملا کرتا! اجتماع میں پروفیسر غلام اعظم نے تقریر کی اور رُلا کر رکھ دیا۔ پروفیسر صاحب سے جب بھی ملاقات ہوئی‘ انہیں تبسم کے ساتھ ہی پایا! نرم ملائم ہاتھ جن میں ملنے والے کے ہاتھوں کو وہ تھامے رکھتے! پھر وہ خبر پڑھی کہ عمر رسیدہ غلام اعظم کو نوے سال قید کی سزا سنائی گئی۔ پروفیسر نے زنداں کا مرہون احسان ہونا گوارا نہ کیا اور جان‘ جلد ہی جان آفریں کے سپرد کر دی۔ یہی غلام اعظم تھے جنہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی سنٹرل سٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے
وزیراعظم لیاقت علی خان کے سامنے بنگلہ کو اُردو کے شانہ بشانہ قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
ایک دن کے لیے‘ نہیں! ایک دن تو بہت لمبی مدت ہوتی ہے! ایک لمحے کے لیے بھی اس اٹل سچائی میں کبھی شک نہیں کیا کہ 1970ء کے انتخابات کے نتیجہ میں عوامی لیگ جیتی تھی اور وفاق میں حکومت کی تشکیل اس کا حق تھا! کچھ لوگوں نے اُس وقت کہا کہ عوامی لیگ کی نشستیں یہاں نہیں ہیں اور مغربی پاکستان میں جیتنے والوں کی وہاں نہیں ہیں اور یہ تو پولرائزیشن ہو گی! یعنی دو انتہائیں! پولرائزیشن! کون سی پولرائزیشن ع
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا!
آج کے پاکستان میں پولرائزیشن کے سوا کہیں کچھ نظر ہی نہیں آ رہا۔ وسطی پنجاب میں جیتی ہوئی پارٹی وفاق میں حکومت کر رہی ہے۔ سندھ میں اس کی حیثیت صفر ہے! بلوچستان اور کے پی کے میں اس کی موجودگی تبرک سے بڑھ کر نہیں! وفاقی کابینہ میں پشتو بولنے والے کتنے ہیں؟ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے! دفاع‘ خزانہ‘ داخلہ‘ ریلوے‘ بجلی‘ توانائی‘ تجارت‘ اطلاعات‘ ترقی و منصوبہ بندی‘ جہازرانی سب وزارتیں کیسے بانٹی گئی ہیں؟ ایوان اقتدار میں ریٹائرڈ ضعیف بیورو کریٹ کہاں کہاں سے ہیں؟ مشرقی پاکستان علاقہ نہ ہوتا‘ انسان ہوتا تو آج قہقہہ لگا کر کہتا:”دیکھا! کیسی بددعا لگی ہے! اب بتائو کیسی ہے پولرائزیشن!‘‘
مگر جب پاکستان ایک ملک تھا تو اُس وقت سیاسی اختلاف کرنے والوں پر‘ یا فوج کا ساتھ دینے والوں پر‘ آج غداری کا الزام کیسے لگ سکتا ہے؟ کیا یہ آسمانی کتاب میں لکھا ہے کہ عوامی لیگ سے سیاسی اختلاف نہیں ہو سکتا تھا! اگر پاکستان متحد رہ جاتا تو کیا اختلاف کرنے پر عوامی لیگ کو مطعون کیا جا سکتا تھا؟ نہیں! ہرگز نہیں! تو پھر صلاح الدین چودھری‘ علی احسن مجاہد اور دوسرے سیاست دانوں کو کس طرح قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ اُس وقت بنگلہ دیش کا وجود کہیں نہ تھا۔ ملک ایک تھا‘ سیاسی رائے کچھ بھی ہو سکتی تھی! حسینہ واجد غداری کے عذر لنگ پر سیاست دانوں کو قتل کرا رہی ہیں بلکہ کر رہی ہیں! یہ ایک بھیانک روایت ہے جس کا آغاز اس عورت نے کیا ہے! یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوگا! یہ خون اپنا حساب لے گا! مجیب الرحمن آخری آدمی نہیں ہیں جو گھر کی سیڑھیوں پر قتل ہوئے!!
رہا بہت سے اُن دوستوں کا شکوہ جو ایک مذہبی سیاسی جماعت کی اس معاملے میں خاموشی کا رونا رو رہے ہیں! ان حضرات کا شکوہ ناروا ہے! وہ کس سے شکوہ کر رہے ہیں؟ امید ہی کیوں رکھی تھی؟ کچھ جماعتوں کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے کہ ہمیشہ صحیح وقت پر غلط فیصلہ اور صحیح فیصلہ غلط وقت پر کریں! اُس وقت عوامی امنگوں کے سامنے بندھ باندھنا بھی سیاسی کم نظری (Political Myopia) تھا اور اس وقت شور محشر بپا نہ کرنا بھی افسوسناک ہے! فارسی کے شاعر نے انہی کا ماتم کیا ہو گا ع
زین ہمرہان سست عناصر دلم گرفت
کم کوشی ان ہمراہیوں کے خمیر میں گوندھ دی گئی ہے! دل جیسے مُٹھی میں جکڑا جا رہا ہے!!
بشکریہ:روزنامہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے