قطرہ قطرہ قلزم….!!!!

انسان نے شعوری ارتقاء کے مراحل سینکڑوں برس میں طے کیئے ہیں. قدیم دور کا انسان آج کے دور کے انسان جیسا بالکل نہ تھا جنگلوں غاروں میں رہتا تھا گھاس پھوس پہ بسر کرتا تھا اور یہی اسکی زندگی کا مقصد و ہدف بھی تھا، دو چیزیں اسکی جبلت میں شروع سے پیوستہ تھیں ایک بھوک اور دوسرا خوف ، اسکی وجہ یہ ہے کہ چونکہ بھوک انسان کی جسمانی ضرورت ھے اور خوف اسکی فطرت کا حصہ ھے لہٰذا وہ اپنی بقا حیات کو لاحق کسی بھی قسم کے خطرے سے خوف زدہ رہتا ہے ،

اگر انسانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو "بھوک اور خوف” دو ایسے عوامل ہیں جنہوں نے انسان کو ترقی کی جانب گامزن کیا اور یہی دو عوامل انسان کی تنزلی کا سبب بھی بنے، آپ بھی کہیں گے کہ جناب !!! کیسی بات کر رہے ہیں ایک ہی چیز بیک وقت نفع و نقصان کا سبب کیسے بن سکتی ہے ؟؟؟

جی با لکل بن سکتی ہے اسی بھوک اور خوف نے انسان کو مجبور کیا ھے کہ وہ غاروں اور جنگلوں سے نکلے اور اپنے لئے بہتر خوراک اور سہولیات کا بندوبست کرے چناچہ اس نے سوچنا شروع کیا آگ جلانا سیکھا ، شکار کو پکا کر کھانا سیکھا اور اپنے لئے محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش شروع کردی ، اس تمام پراسس میں جو جو اسے کامیابی ملتی گئی اسکی جستجو بڑھتی گئی اور انسان کا شعور بھی زمانے کے ساتھ بالغ ہوتا چلا گیا یعنی بد تہذیبی سے تہذیب یافتہ ہونے کا سفر شروع ہوگیا ،،،،
وقت کے بے لگام گھوڑے کے ساتھ انسانی شعور نے بھی اپنی دوڑ جاری رکھی اور ارتقائی منازل طے کرتا رہا ، بیچ میں بیش بہا مصلحین ، فطین افراد اور انبیاء نے انسان کو مزید تہذیب یافتہ کرنے کا عمل جاری رکھا اور ہم اخلاق و ادب جیسی اصطلاحات سے مانوس ہوتے چلے گئے اور یہ ہماری ” اقدار ” قرار پائیں ، اس تمام عمل میں فکری ترقی نے نمایاں کردار ادا کیا ،

اب سوال یہ بنتا ھے کہ یہ بھوک اور خوف تنزلی کا باعث کیسے بنا…؟

جب انسان نے چند "اقدار” ترتیب دے دیں تو یہی بھوک اور ہوس تھی جس نے انسان کو جبر کرنے پر مجبور کیا اور اپنے حصے سے زائد کو بھی اپنی دسترس میں رکھنے کی جستجو نے اسے وہ تمام غیر اخلاقی کام کرنے پر اکسایا جن کو معاشرہ غیر اخلاقی اقدار قرار دے چکا تھا اور اس بات کے خوف نے کہ اس کی دسترس میں موجود وسائل پر کوئی دوسرا قابض نہ ھوجائے اسے عدم تحفظ کا شکار کیا،،،

یہ تمام کہانی لکھنے کا مقصد "بشریات” پر کوئی مضمون لکھنا ہر گز نہیں تھا بلکے رائج زمانے کے موجودہ مسائل میں سے اہم ترین مسئلے یعنی کہ اخلاقیات کا نہ ھونا اور فکری ترقی کے جمود کے بارے میں چند گزارشات کرنا تھا جس کے لیے انسانی سوچ کے ارتقائی مراحل پر روشنی ڈالنا ضروری تھا، ہمارے معاشرے کی تنزلی کے بنیادی عوامل میں سے یہ دو بہت اہم ہیں اسکی چند مذہبی وجوہات ضرور رہیں مگر اس وقت وہ موضوع گفتگو نہیں،

اخلاقیات سے مراد کیا لیا جائے؟ میری ناقص رائے میں دوسرے کی رائے کا احترام، ہر فرد کو بحثیت "انسان” پیش آنا اور دوسرے کے حق کا احترام ہی اخلاقیات ہے یہ موضوع خاصا طویل ہے مگر اختصار کے ساتھ آگے بڑھتا چلوں گا، آج کے گھٹن زدہ معاشرے میں ترقی پسند اور اصلاح پسند افراد نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو چند ہیں وہ انہیں دو عوامل میں سے کسی ایک کا شکار ہیں جو میں نے اپنی تحریر کے ابتداء میں بیان کیے تھے یعنی کہ بھوک اور خوف ،،،

ہمارے ہاں اخلاقی اقدار اس قدر پامال ھوچکی ہیں کہ ہم کسی دوسرے کے وجود کو برداشت کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں اور عدم برداشت کا یہ عالم ہے اگر کوئی ہمیں سوچنے اور فکر کرنے کی طرف مائل کرے تو ہم سب سے پہلے تو اسکی زات کو ہی ھدف بنا لیتے ہیں ، ہم ھرگز یہ نہیں دیکھتے کہ کیا کہہ رھا ھے بلکے کون کہہ رھا ھے کو ہی مطمئہ نظر سمجھتے ہیں.

ہمیں جرات گفتار پیدا کرنا ھوگی، اس معاشرے کے مردہ جسم میں روح پھونکنا ھو گی وہ تب ہی ممکن ہے جب فکری ترقی اور آزادی کو ہر ایک کا حق تسلیم کر لیا جائے اور اس جمود میں ارتعاش پیدا کر دیا جائے مگر یہ سب کرنے کے لیے خوف کا خاتمہ ضروری ھے اور اخلاقیات کا پرچار کرنے کی ضرورت ھے اور بھوک کے مارے قلم بیچنے والوں کے ھاتھوں سے قلم چھین کر اخلاقیات کی کتاب انکے ھاتھوں میں دینے کی ضرورت ھے ۔

وقت تیزی سے انجان منزل کی طرف گامزن ھے جانے کب سے ہے اور کب تک رہے گا لیکن اگر ہماری فکر کی گاڑی اخلاق کے انجن کے بغیر بھوک اور خوف کے اسٹیشن پہ کھڑی رہی تو آنے والی منزلوں کے مسافر شائد منزل مقصود پر نہ پہنچ سکیں, جو کہ اس معاشرے اور سب سے بڑھ کر انسان اور انسانیت کے لیے کسی حادثے اور المیے سے کم نہ ھو گا.

بڑی معروف کہاوت ھے کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ھے؟

مگر یہ بھی تو سن رکھا ھے کہ قطرے قطرے سے قلزم بنتا ھے!!!!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے