حکم ہے کہ گواہی مت چھپاﺅ۔تو میں کیا اس خوف سے گواہی چھپا لوں کہ یہ ایسے گروہ کے حق میں ہے جس پر تبرا کرناسکہ رائج الوقت ہے۔
ریٹنگ یا پاپولر جرنلزم کبھی میری ترجیح نہیں رہے۔اس بات سے بھی اللہ نے بے نیاز ہی رکھا ہے کہ یہ سوچ کر قلم بھاری ہو جائے ” لوگ کیا کہیں گے“۔ایک گواہی میرے پاس ہے وقت کی عدالت میں پیش کیے دیتا ہوں۔
بنگلہ دیش میں دی گئی پھانسیوں کے بعد البدر زیر بحث ہے ۔اب ہو یہ رہا ہے کہ جس کو جماعت یا جمعیت سے کوئی پرخاش ہے وہ البدر کو بھی اسی تناظر میں دیکھ رہا ہے۔زمانہ طالب علمی میں،جمعیت کے بارے میں بھی بہت خوشگوار نہیں رہا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب میں ہر اس چیز کی نفی کر دوں جسے جمعیت سے کوئی نسبت ہے۔ یہ فکری بد دیانتی ہو گی۔ مجھے اس سے معذور سمجھا جائے۔
کیا ہم جانتے ہیں کہ البدر کیا تھی؟ یہ تنظیم میجر ریاض حسین ملک نے بنائی۔اور میجر ریاض سے میرا تعلق دو عشروں پر محیط ہے۔میجر ریاض بتاتے ہیں کہ راجشاہی میں فوج کی نفری کم تھی اور ہمارے لیے ممکن نہیں رہا تھا کہ ہم پلوں اور رستوں کی نگرانی کر سکیں۔انتہائی پریشانی کا عالم تھا۔ایک روز کچھ بنگالی نوجوان ان کے پاس آئے اور کہا کہ دفاع وطن کے لیے آپ کے کچھ کام آ سکیں تو حاضر ہیں۔ان جوانوں کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا۔میجر ریاض نے انہیں کہا ٹھیک ہے آپ فلاں فلاں پلوں پر پہرا دیجیے۔ایک نوجوان نے کہا: ’میجر صاحب ہمیں اپنی حفاظت کے لئے بھی کچھ دیں‘۔یہ وہ دن تھے جب ہائی کمان کی طرف سے حکم آ چکا تھا کہ تمام بنگالیوں کو غیر مسلح کر دو۔میجر ریاض کی آج بھی آہیں نکل جاتی ہیں جب وہ بتاتے ہیں کہ یہ سن کر وہ اندر گئے اور سورہ یسین کا ایک نسخہ اس جوان کو پکڑا دیا کہ اپنی حفاظت کے لیے میں تمہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتا۔وہ نوجوان چلے گئے، گھر نہیں بلکہ میجر کے دیے مشن پر۔
بانس کے ڈنڈے انہوں نے بنا لیے اور ندی نالوں اور پلوں پر جہاں سے مکتی باہنی اسلحہ لاتی تھی پہرے شروع کر دیے۔میجر ریاض بتاتے ہیں کہ اس کے بعد انہوں نے اسلحہ نہیں مانگا۔لیکن میجر کے من کی دنیا اجڑ چکی تھی۔فوجی ضابطے انہیں عذاب لگ رہے تھے۔ایک روز تیس کے قریب نوجوان ان کے پاس آئے کہ انہیں بھی اس رضاکار دستے میں شامل کر لیں۔ان میں ایک بچہ بھی تھا۔ میجر نے اسے کہا بیٹا آپ بہت چھوٹے ہو واپس چلے جاﺅ۔وہ بچہ اپنی ایڑیوں پر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا:” میجر شاب ہُن تو بڑا ہوئے گاشے“( میجر صاحب اب تو بڑا ہو گیا ہوں)۔میجر تڑپ اٹھے، انہیں معوذ اور معاذ یاد آ گئے جن میں ایک نے نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں ایسے ہی ایڑیاں اٹھا کر ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اتنے چھوٹے بھی نہیں کہ جہاد میں حصہ نہ لے سکیں۔
میجر نے اس بچے کو سینے سے لگا لیا۔ہائی کمان کا حکم پامال کرتے ہوئے ان جوانوں کو مسلح کر دیا اور جنگ بدر کی نسبت سے اس رضاکار دستے کو ” البدر“ کا نام دے دیا۔کئی ہفتے بعد ہائی کمان نے ان سے پوچھا کہ ان کے علاقے میں اتنا امن کیسے ممکن ہوا تو میجر نے یہ راز فاش کیا کہ میں نے آپ کی حکم عدولی کی اور میں نے تمام بنگالیوں پر عدم اعتماد نہیں کیا۔میں نے بنگالیوں کو مسلح کر کے بھارت اور مکتی باہنی کے مقابلے میں کھڑا کر دیا ہے۔تب یہ رضاکار تنظیم پورے بنگال میں قائم کر دی گئی۔
ایک روز میں نے میجر سے پوچھا ،کہ ہم میں عمروں کے فرق کے باوجود تکلف باقی نہیں ہے،’ البدر نے ظلم تو بہت کیے ہوں گے اپنے سیاسی مخالفین پر؟‘یہ سوال پوچھتے ہوئے میرے ذہن میں موجودہ اسلامی جمعیت طلبہ کا کردار تھا جو اختلاف رائے برداشت نہیں کر سکتی اور گاہے تشدد پر مائل ہو جاتی ہے۔یہ سوال سن کر میجر کو ایک چپ سی لگ گئی۔کہنے لگے: ’آصف تم میری بات کا یقین کرو گے؟‘ میں نے کہا میجر صاحب آپ سے پچیس سال کا تعلق ہے۔ میرا نہیں خیال کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔
میجر نے کہا: ’ میں اپنے اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں میں نے البدر کے لوگوں سے زیادہ قیمتی اور نیک لڑکے نہیں دیکھے ، یہ لڑکے اللہ کا معجزہ تھے، میرے علم میں کوئی ایک واقعہ بھی نہیں کہ انہوں نے کسی سے ذاتی انتقام لیا ہو۔مجھے تو جب یہ پتا چلا کہ ان کی فکری تربیت مودودی نام کے ایک آدمی نے کی ہے تو اشتیاق پیدا ہوا کہ دیکھوں یہ مودودی کون ہے۔برسوں بعد جب میں بھارت کی قید سے رہا ہوا تو میں اپنے گھر نہیں گیا ، میں سیدھا اچھرہ گیا، مودودی صاحب کے گھر، میں دیکھنا چاہتا ہے وہ شخص کیسا ہے جس نے ایسے باکردار اور عظیم نوجوان تیار کیے‘۔
کوئی میجر ریاض کی گواہی سے اتفاق کرے یا نہ کرے،مجھے اتفاق ہے۔میجر کی زندگی کے پچیس سال میرے سامنے ہیں۔ان کو جھوٹا کہوں تو اپنی ہی نظروں میں گر جاﺅں۔ایک گواہی تھی سو بیان کر دی۔
وما علینا الا البلاغ