صدر صاحب کہتے ہیں کہ علماٗ غریب لوگوں کو اجازت دیں کہ وہ سود پر قرضہ لیکر اپنا گھر بنائیں ۔
صدر صاحب کے اس بیان پر بہت زیادہ تنقید ہو رہی ہے ۔
ہم اس بارے میں دو باتیں کہنا چاہتے ہیں ۔
ایک جناب صدر سے
اور دوسری صدر پر تنقید کرنے والوں سے
صدر صاحب : آپ کو اگر غریب لوگوں کی اتنی ہی فکر ہے تو اس مسئلے کا کوئی سنجیدہ حل نکالیے ۔ مجھے آج دنیا نیوز سے وابستہ ایک سینئر صحافی نے بتایا کہ ان کے والد نے چالیس برس قبل گھر بنانے کے لیے 50 ہزار روپے کا قرضہ لیا تھا ۔چالیس سال سود دیتے رہے ۔ دو برس قبل ان کے والد فوت ہو گئے ۔ مکان ان کے حصے میں آیا ۔ انہوں نے مکان فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ۔ چالیس برس بعد بھی انہوں نے پونے دو لاکھ روپے دیے تو ان کی جان چھوٹی ۔ آپ علماٗ سے اجازت لیکر غریب لوگوں اور ان کی اولادوں کو تاحیات ان بینکوں کا غلام بنانا چاہتے ہیں کیا؟
کیا دہی بھلے اور ربڑی دودھ پر گفت گو زیادہ بہتر کام نہیں ۔
اب دوسرے طبقے کی خدمت میں
بھائی صاحب : جس طرح تصویر حرام تھی ، آج حلال ہو گئی
جس طرح بینک حرام تھا ، آج حلال ہو گیا ۔( بلکہ دارالعلوم کراچی میں بینکوں کے اے ٹی ایم بھی نصب ہیں)
جس طرح لاؤڈ اسپیکر حرام تھا ، آج حلال ہو گیا ۔
جس طرح برسی منانا بدعت تھی ، آج جائز ہو گئی ۔
جس طرح بینک میں کام کرنا حرام تھا ، آج جائز ہو گیا بلکہ علماٗ بینکوں میں موجود ہیں
جس طرح چھوٹی داڑھی والے کے پیچھے نماز نہیں ہوتی تھی ، اب ہوتی ہے ۔
جس طرح چہرے کا پردہ کل تک فرض تھا ، آج مباح ہو گیا ۔
جس طرح انگریزی تعلیم کل تک حرام تھی ، آج جائز ہو گئی ۔
جس طرح این جی اوز کل تک حرام تھیں ، آج آپ کی اپنی بن گئی ہیں ۔
جس طرح خون دینا ناجائز تھا ، آج جائز ہو گیا ہے ۔
اسی طرح کسی روز چپکے سے صدر صاحب کی خواہش بھی پوری کر دیجئے گا ۔
آپ کا کیا جاتا ہے ۔
آخر صدر تو ہے نا
اب حدیث شریف سن لیجئے
السلطان ظل اللہ فی الارض
فمن اکرمہ اکرمہ اللہ
ومن اھانہ اھانہ اللہ
الجامع الصغير 4815 صحيح
سلطان زمین پر اللہ کا سایہ ہے ، جس نے اس کی توقیر کی ، اس نے اللہ کی توقیر کی ، جس نے اس کی توہین کی ، اس نے اللہ کی توہین کی ۔
کاش ممنون حسین میری پوسٹ پڑھتے اور خوش ہوتے کہ ان کی شان میں حدیث بھی آئی ہے ۔
چمچہ گیری کی بھی کوئی حد ہو تی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقط آپ کی گالم گلوچ کا محتاج