گئے وقتوں کی بات ھے جب سوشل میڈیا پر تحریر وقت کا ضیاع سمجھا جاتا تھا ۔ یہ صرف تصویریں یا بے معنی چیزیں پوسٹ کرنے تک محدود تھا ۔ مجھے طعنے دیئے جاتے تھے کہ کیوں لکھتے ھو یہاں کوئی تعمیری کام کرو ۔ اس وقت بھی کہتا تھا کہ یہ مستقبل کا فورم ھے جو اپنی اہمیت تسلیم کروائے گا اور ایک دن سب یہاں لکھنے پر مجبور ھو جائیں گے ۔ یہ معلومات پر الیکٹرک اور پرنٹ میڈیا کی اجارہ داری توڑ دے گا ۔ ہر ایک کو اپنی بات کہنے کی آزادی میسر ھوگی ۔ اس کے اثرات معاشرے کے سب طبقات پر پڑیں گے کیوں کہ یہاں سب ایک ھو جاتے ھیں ۔ سنجیدہ موضوعات پر بحثیں ھوا کریں گی اور علمی پیچیدگیاں حل ھوں گی ۔ اس کی اہمیت رسائل سے بھی بڑھ جائے گی کیوں کہ یہاں علم کا انتقال اور اس کے مختلف پہلو فورا ظاہر ھو جاتے ھیں بحث کے دوران جب کہ دوسری جگہ تحریر پر ردعمل پتہ لگنے میں کئی دن لگ جاتے ھیں ۔ یہ اس دور کی بات ھے جب آپ کے سارے مشہور لکھاریوں میں سے بہت کم موجود تھے ۔ اور جو موجود تھے بھی تو وہ اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے ۔ گویا اس معاملہ میں سابقون الاولون ( pioneers ) میں شامل ھوں ۔
اب دیکھیں وہ مشہور قلم کار بھی جو باقاعدہ کسی اخبار یا رسالے سے وابستہ ھیں یہاں اپنی تحریریں منتقل کرنے میں استقامت کا مظاہرہ کرتے ھیں ۔ علمی مباحث کے لئے فورمز تشکیل پا چکے ھیں ۔ بڑے بڑے اہل علم کا تعارف یہیں سے ھوتا ھے ۔ ہزاروں لوگوں تک بات فورا پہنچ جاتی ھے ۔ تحقیقی منہج طے کئے جاتے ھیں ۔ سیاسی ، مذھبی ، فلسفیانہ ، دعوتی اور معاشرتی سب موضوعات پر مکالمہ ھوتا ھے ۔ سنجیدہ سے سنجیدہ ترین بات ھوتی ھے ۔ حتی کہ مدارس کے مولوی تک اس میں شامل ھو چکے ھیں ۔ ان کے ذہنی و فکری سانچے میں وسعت اسی کے باعث ممکن ھوئی ۔ فرقہ پرستی میں کمی ھوئی ۔ اختلافات کو سننے کا حوصلہ پیدا ھوا ۔ بحیثیت مجموعی ھمارے رویوں میں برداشت میں اضافہ ھوا ۔ مخصوص فکری ڈھانچوں سے پرے کے امکانات معلوم ھوئے ۔ خبر کی حقیقت نظر آئی ۔ علم کا تنوع عیاں ھوا ۔ احساس کی ھم آھنگی نمایاں ھوئی ۔ سوچ کی ھمہ گیری لاحق ھوئی ۔ خبریت اور حقیقت لفافہ صحافیوں اور میڈیا ھاوسز کی مرھون منت نہیں رھی ۔ لفظ کو آزادی ملی ۔ قلم کو وقار نصیب ھوا ۔ خوف کا خاتمہ ھوا کیوں کہ جہالت خوف کی بانی ھے ۔ تخلیقی صلاحیت کو میرٹ پر پہچان ملی ۔ ورنہ یہاں تحریر شائع کرانے کی واحد قابلیت تعلقات تھے ۔