کافی عرصہ ہوا ایک بڑے چینل کے معروف انٹرٹینمنت پروگرام کی پروڈکشن ٹیم کے لئے انٹرویو میں شامل تھا ۔ میرے ساتھ دو بہن بھائی بھی تھے ۔
لڑکی نے باقاعدہ ماس کمیونیکیشن(صحافت) میں ماسٹرز کیا ہوا تھا جبکہ اس کے بھائی کی تعلیم انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تھی ۔انٹرویو غیر رسمی سا تھا ۔بس جنرل سی پوچھ تاچھ ۔آخر میں بہن نے بھائی کے حوالے سے انٹرویو لینے والے کو کہا کہ یہ بھی میڈیا میں آنا چاہتا ہے ۔ اسے بہت شوق ہے ۔اگر ممکن ہو تو اس کا بھی انٹرویو کر لیجیے۔
کچھ خصوصیات بھی گنوائیں بھائی کی۔ ان (پروڈیوسر)صاحب نے بڑی ہمدرری سے جواب دیا کہ ’’بھائی! آپ کی ڈگری آئی ٹی کی ہے ،بہتر ہے آپ اسی میدان میں طبع آزمائی کریں ۔ یہاں میڈیا میں ملازمت کا پہلا حق تو ان نوجوانوں کا ہے جو ماس کمیونیکشن (صحافت) کی ڈگری کے حامل ہیں ۔‘‘ میری سیلیکشن نہ ہوئی کیونکہ تقاضے کچھ ایسے تھے جو میں نبھا نہ سکا لیکن اچھا لگا ان پروڈیوسر صاحب سے مل کر ۔
میرے خیال میں وہ خود بھی کہیں سے ماس کمیونیکشن میں گریجوئیٹ تھے۔ یہ سوچنے کا ایک انداز ہے ۔ ایک اور رائے بھی سننے کو ملتی ہے کہ پروفینشل صحافی بننے کے لئے ماس کمیونیکشن یا میڈیا اسٹیڈیز میں گریجوئیشن ناگزیر ہے ۔میرے خیال میں ایسا نہیں ہے ۔صحافت کا تعلق اکڈیمکس سے زیادہ پریکٹس سے ہے ۔
یہی وجہ ہے ہماری برصغیر کی تاریخ میں کئی ایسے صحافی گزرے جو ماس کمیونیکیشن نامی چیز سے کبھی واقف نہ تھے ۔ سو جس عامل صحافی نے مذکورہ ڈگری حاصل نہیں کی، آپ اسے بیک جنبشِ لب ’’نان پروفیشنل‘‘ نہیں کہ سکتے۔
شرط یہ ہے کہ اسے خبر تلاشنے اور بنانے کا ڈھنگ آتا ہو ۔ یہ بات بالکل درست ہے بعض گھس بیٹھئے بھی کوچۂ صحافت میں دندنا رہے ہیں ۔ ان کا عملی صحافت کا کوئی پس منظر نہیں ۔ ان کا کریئر بس کسی مہربان لمحے میں ملنے والے شارٹ کٹ کا مرہون منت ہے ۔
ان کی وجہ سے جنویئین صحافیوں کی عزت کو کوئی خطرہ نہیں ۔ یہ لوگ مخصوص موسموں میں آتے ہیں بالکل برساتی کھمبیوں کے جیسے اور پھرجلد ہی حالات کی گرد ہو جاتے ہیں ۔جہاں تک ماس کمیونیکشن میں آنرز یا ماسٹرز ڈگری کا تعلق ہے ،میں اسے پاکستانی صحافت کے تناظر میں ایک اضافی خوبی سمجھتا ہوں ۔
اس سے ایک صحافی کو ابلاغیات اور سوشل سائنسز سے جڑے نظریات اور ابحاث کا علم ہوتا ہے ۔ وہ فیلڈ میں ایک بااعتماد اپروچ کے ساتھ اترتا ہے ۔ اپنی اسائنمنٹس کو تکنیکی مہارت کے ساتھ مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ یوں کہہ لیجیے کہ اس کا صحافتی ٹریک ذرا سسٹیمیٹک سا ہو جاتا ہے ۔ یہ بہت اچھی بات ہے ۔
بس سمجھ میں یہ آتا ہے کہ ہرماس کمیونیکشن گریجوئیٹ صحافی نہیں ہوتا اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر اچھا صحافی ماس کمیونیکیشن میں گریجوئیٹ ہی ہو ۔ اور اگر یہ دونوں خوبیاں جمع ہو جائیں تو کون ”کافر” اس کے اچھا صحافی ہونے سے انکار کرتا ہے ۔