جب میڈیا ہاوسز میں بندے سیاسی لیڈروں اور ”دیگر” کی سفارش پر بھرتی کیے جائیں تو شفاف صحافت کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے؟ ۔ ۔ ۔یہ کوئی 6 ماہ ادھر کا قصہ ہے ۔نیول وار کا لج لاہور میں پاکستان نیوی اور دیگر ممالک کے افسران کے ساتھ ایک میڈیا ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا ۔ ایک سیشن میں ”نیو ٹی وی” کے سی ای او شہزاد نواز کا لیکچر سنا ۔پرکشش سراپے اور مسحور کن گفتگو کرنے والے شہزاد نواز نے کچھ دیر کے لیے تو حیران ہی کر دیا ۔
انہوں نے کہا کہ
”ہم پی ٹی وی کے سنہری دور کا احیاء کریں گے”
”ہم کوئی پرانا چہرہ نہیں لیں گے”
”ہم پاکستانی صحافت میں ایک نئی اور مثبت تبدیلی لائیں گے” وغیرہ وغیرہ
تقریر اچھی تھی ۔ میرے برابر میں بیٹھی صحافت کی جواں سال طالبات کی سرگوشیاں بھی مجھے یاد ہیں ۔وہ لیکچر سے زیادہ شہزاد نواز کے سراپےسے متاثر تھیں ۔ جذبات کے رو میں کیے گیے کچھ اظہارے بھی مجھے یاد ہیں ۔ وہ یہاں نہیں لکھ رہا ۔
بات یہ ہے کہ
بول چینل کی آمد کے غلغلے نے بڑے میڈیا ہاوسز کو بہت خوف ذدہ کر دیا تھا ۔ چینل 92 نے دو درجن کے قریب فریش میڈیا گریجوئیٹس کو مناسب تنخواہوں پر بھرتی کیا ۔ ایک بڑا چینل اس وقت عتاب کا شکار تھا ۔اس چینل نے کسی ممکنہ سخت فیصلے کے خوف سے ایک اور دوسرے چینل میں پنیری اگانا شروع کی ۔ یہ میڈیا مارکیٹ میں ایک متبادل کی تیاری تھی ۔
پھر بول پر آڑھے دن آئے
شعیب شیخ سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیے گئے ۔ صحافیوں کے دن بدلنے کی امیدیں دم توڑ گئیں ۔ جو ٹائیکون تھے وہ اچھی قیمت پر پھر سے پرانے پیڑوں پر جا بیٹھے ۔ مار پڑی تو ان عام کارکنوں کو جو صحافتی اداروں میں شودر سمجھے جاتے ہیں۔ بول کارکنان کو چھ ماہ سے تن خواہیں نہیں مل سکیں ۔ ان کے پاس بس ایک چیز تھی اور وہ تھی امید ۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ بھی اب نہیں رہی ۔
اچھا 92 نے جو لڑکے لڑکیاں بھرتی کیے تھے انہیں ایک دن اچانک یہ پیغام ملا کہ اب ادارے کو ان کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں رہی ۔ جب متاثرین نے سوال کیا کہ "جناب ! معائدہ تو دو سال کا تھا” تو ہیومن ریسورس ڈیپاٹمنٹ نے سیدھا سا جواب دیا کہ ”ادارے کی پالیسی بدل گئی ہے۔”
بات دراصل یہ ہے کہ یہاں کسی سیٹھ کو صحافت سے دلچسپی نہیں ۔ سیٹھ اپنے دیگر کئی ایک کاروباروں کو محفوظ بنانے کے لیے چینل کھول لیتا ہے ۔ اس کے ذریعے دباو ڈال کر وہ اپنے ٹیکس معاف کراتا ہے ۔ڈیلز میں سہولتیں لیتا ہے ۔ رپورٹرز کو مستقل کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی مشکلات حل کرنے میں اپنے ذاتی تعلقات بروئے کار لاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے بہت سے رپورٹرز ادارے سے محض شناخت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ باقی مالی معاملات میں وہ خود کفیل ہوتے ہیں ۔
آخری بات یہ ہے کہ
یہاں جب کوئی صحافی عام صحافی سے میڈیا ٹائیکوں بنتا ہے تو وہ سیٹھوں کے ساتھ بیٹھ کر خود کو سیٹھ سیٹھ سا فیل کرنے لگتا ہے ۔ پھر اسے باقی جونیئر صحافی عجیب عجیب سے لگتے ہیں۔ وہ پھر انہیں یہ بھاشن دینے لگتا ہے کہ بھائی ! محنت کرو ۔ہم محنت سے یہاں تک پہنچے ہیں ۔ پھروہ جونیئر صحافی گدھا بن کر محنت کرتا ہے ۔ سب ایڈیٹر بھرتی ہونے والایہ جونیئر صحافی 50 برس بعد بھی سب ایڈیٹر ہی رہتا ہے ۔ اسے اگر کچھ ملتا ہے تو بس پریس کی کلب کی ممبر شپ اور بس ۔ ۔