مصنف اورمشہور آرٹسٹ بانکسے کا کہنا ہے،’’بہت سے والدین بچوں کے لیے سب کچھ کر گزرتے ہیں مگر انہیں اپنے فطری رجحانات کے مطابق جینے میں سہولت فراہم نہیں کرتے۔‘‘
خاندانی زندگی میں والدین کا کردار بہت اہم ہے۔ ماں یا باپ ہونا ایک کل وقتی اور مشکل ذمہ داری ہے۔ والدین کا کردار اولاد کے لیے ایک رہنما قوت کی طرح ہوتا ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ والدین سمجھتے ہیں سیکھنا صرف بچوں کا کام ہے، وہ اب اس مرحلے سے آگے نکل چکے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے متعلق اہم مہارتوں سے آگہی حاصل کرے۔ والدین کو بھی بچوں کی تربیت کے حوالے سے بہت کچھ جاننے اور سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ان سطور میں ایسی ہی کچھ تجاویز کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کو مدنظر رکھ کر والدین بہتر انداز میں بچوں کی تربیت اور نگہداشت کی ذمہ داری نبھا سکتے ہیں۔
٭ اپنے وجدان کو کام میں لائیں
بچے کی تربیت کے معاملے میں آپ کو اپنے وجدان کو کام میں لانا ہو گا۔ بچوں کی تربیت اور نگہداشت کے کوئی مستقل اور لگے بندھے اصول نہیں ہیں۔ یہ اصول آپ اپنی اور بچے کی ضروریات کو سامنے رکھ کر مرتب کر سکتے ہیں۔ ایک شعوری کوشش کے ذریعے آپ ہر وقت مصنوعی دبدبے کا تأثر قائم رکھنے کے رجحان سے جان چھڑانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اگر بچہ ضدی ہے تو اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیجیے۔ ہر وقت بچے کے ساتھ ’’باس‘‘ کا سا معاملہ کرنا اچھا نہیں ہے۔ آپ کو غور وفکر کے بعد وہ طریقہ سوچنا ہو گا جس کے ذریعے آپ کی بات بہتر طریقے سے بچے کو سمجھ میں آ سکے۔ اپنی خواہشات کو ان پر تھوپنے کی بجائے ان کی دلچسپیاں اور میلانات جاننے کی کوشش کریں۔
٭ خود کو بچے کے قابو میں نہ دیں
بہت سے والدین شکوہ کرتے ہیں کہ بچے ان کے کہنے میں نہیں ہیں۔ ایسے والدین ہمیشہ دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ اس مسئلے کا آسان حل یہ ہے کہ بچوں کی تربیت کے حوالے سے جومنصوبے آپ کے ذہن میں ہیں، ان پر عمل درآمد لازمی بنائیں۔ مثال کے طور پر اگر بچہ کسی چیز کے لیے غصے کا اظہار کرتا ہے ، اگر آپ مناسب نہیں سمجھتے تو سختی سے منع کر دیں۔ بچہ تو ہر چیز کو اپنی ضرورت سمجھتا ہے مگر ضرورت کا درست فیصلہ آپ ہی کر سکیں گے۔ بچے کو برداشت کی عادت ڈالیے۔ اگر وہ روتا ،چیختا ہے تو اس وقت اسے رونے دیجیے۔ یہ درست ہے کہ اپنے بچے کو روتے دیکھنا مشکل ہے مگر یہ سب اسی کے بھلے کے لیے ہوتا ہے۔ ممکن ہے آپ کا بچہ یہ محسوس کرے کہ اسے نظر انداز کیا جا رہا ہے لیکن آپ بعد میں محبت اور بے تکلف مکالمے سے اس تأثر کو زائل کر سکتے ہیں۔
٭ دقیانوسی تصورات سے جان چھڑائیے
بچے کو مہذب اور مؤدب بنانا تمام والدین کی ذمہ داری ہے۔ یہ محض اسی صورت میں ممکن ہے کہ آپ کا اپنے بچے سے تعلق انتہائی غیر معمولی ہو۔ ربط اور اعتماد بنیادی عنصر ہے جسے بروئے کار لایا جا سکتا ہے لیکن آپ کے ذہن میں یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ آپ کا بچہ اپنی زندگی کے حوالے سے ایک مستقل اور منفرد فرد کی حیثیت رکھتا ہے۔آپ اس کا موازنہ کبھی اپنے بچپن سے نہ کریں اور نہ وہ تجربات دہرائیں جن سے آپ کا واسطہ رہا ۔ اسے ہر وہ کام کرنے پر مجبور نہ کریں جو آپ نے بچپن میں کیا یا پھر اس کے ہم عمر بچے جو کرتے ہیں۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ ہر زمانے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ ہمیں ان تقاضوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔
٭ خود احتسابی
بچے کی تربیت میں آپ کی شخصیت اور طرز زندگی کو کافی دخل ہے۔ اپنی عادات وافعال پر نگاہ رکھیے اور ان میںبہتری لانے کی کوشش کیجیے۔ اپنی حس مزاح پر کام کیجیے اور اس میں وہ تبدیلیاں لائیے جن سے آپ کے اور بچے کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے۔ یاد رکھیے زندگی کے بارے میں آپ کا رویہ آپ کے بچے کی زندگی پر بہت گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ اچھے والدین کا کردار ادا کرنے کے لئے حوصلے اور صبر کے ساتھ ساتھ حسِ مزاح کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اپنے بچے کی بات کو غور سے سنیے اور اسے مکالمے کے لیے حوصلہ دیجیے لیکن تنقیدی رویے سے حتی الامکان گریز کیجیے۔ اس کا الٹا اثر پڑے گا اور کنفیوژن پیدا ہو گی۔
٭ سرزنش بھی ضروری ہے
یہ بہت اہم تقطہ ہے۔ اپنے بچے کو ایک مکمل انسان سمجھتے ہوئے برتاؤ کریں اور اس کی باتوں پر دھیان دیجیے۔ بچے ہمیشہ بہت بولتے ہیں اور ہر بچے کے اظہار کا پیرایہ بھی منفرد ہوتا ہے۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو جلد ہی اس کے نتائج آپ کے سامنے ہوں گے۔ یہاں یہ خیال رکھیں کہ بچے سے مکالمے کے دوران نہ زیادہ سختی برتیں اور نہ ہی حد درجہ نرمی سے کام لیں۔ بچے سے گفتگو میں توازن کا خاص خیال رکھیں۔ اگر آپ کو بچے کی عادات اور اطوار میںکوئی قابل اصلاح پہلو نظر آتا ہے تو فوراً تنبیہہ کیجیے۔ معاملہ اس وقت بگاڑ کی حددود میں داخل ہو کر بے قابو ہو جاتا ہے جب ہم غلطی کی نشاندہی میں سستی سے کام لیتے ہیں۔ سرزنش بچے کو سوچنے پر مجبور کرے گی۔گاہے بگاہے بچے کو اپنی نصیحتوں کے پس منظر سے بھی آگاہ کیجیے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کا بچہ کھیلنے کے بعد کھلونے اپنی جگہ پر نہیں رکھتا تو اگلی بار جب وہ کھلونے مانگے تو پہلے اسے نرم لہجے میں سمجھائیے کہ کھلونے کھیل کے بعد اپنی جگہ پر رکھے۔
٭ اپنے بچے کو اچھا انسان بنائیے
ایک صحت مند درخت کے لیے اس کی جڑ کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ اپنے بچے کا مستقبل اچھا دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے اندر اپنی روایات کے ساتھ جڑت کا احساس بیدار کیجیے۔ بچے میں شکر گزاری، خوشی، گھل مل جانے والا میلان، جذباتی لحاظ سے متوازن ،روحانی اعتبار سے مطمئن اور معاشی لحاظ سے خود کفیل ہونے کی صفات پیدا کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ اس کے لیے مسلسل ایک رہنما قوت درکار ہو تی ہے۔
٭ بچے کا غیر ضروری دفاع نہ کریں
یہاں یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ ضرورت سے زیادہ تحفظ کا طرز عمل اچھا نہیں۔ کبھی اپنے بچے کی خاطر جھوٹ نہ بولیں۔ اس طرح وہ ایک ذمہ دار فرد نہیں بن سکے گا۔ اسے اپنے افعال کے بارے میں جواب دہ بنائیں۔مثال کے طور پر اگر آپ کے بچے نے اسکول کے ٹیسٹ کی تیاری نہیں کی یا بیماری کی جعلی درخواست بھیجی تو اس کی سفارش ہرگز نہ کریں۔ اگر آپ کا بچہ کسی بات سے انکار کرے تو اسے وہ کام کرنے پر مجبور نہ کریں۔ ممکن ہے اس تجویز سے آپ حیران ہوں مگر یہ ضروری ہے کہ آپ کے بچے میں زندگی میں ضرورت کی جگہ پر ’’نہ‘‘ کہنے کی جرأت بھی ہو۔ آدمی کا صاحب الرائے ہونا بہت اہم ہے اور اس طرح بچے میں قبول نہ کیے جانے کا خوف بھی ختم ہو جائے گا۔
خلاصہ یہ کہ آپ کے بچے کا مستقبل براہ راست آپ کی بطور والدین نگہداشت کی صلاحیتوں سے مربوط ہے۔ اس اہم مقصد کی تکمیل کے لیے خود آپ کو اپنی بہتری کے لیے مسلسل ریاضت کی ضرورت ہو گی۔ یاد رکھیے اس بات کی قطعاً ضرورت نہیں کہ آپ اپنے بچے کے سامنے ایک پرفیکٹ شخصیت ہوں بلکہ اہم یہ ہے کہ آپ ایک اچھے انسان ہوں۔
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)