بنی اسرائیل ایک ایسی قوم ہے جس پر اللہ نے بار بار ذلت و مسکنت مسلط کی اور بار بار اپنے عذاب کا مزا چکھایا۔ قرآن پاک کے ایک چوتھائی حصے سے بھی زیادہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہودیوں کی حیلہ سازیوں‘ مکرو فریب‘ دجل و مکاری اور احکامات الٰہی کے انکار کے بارے میں بتایا ہے۔ اس میں علماء یہود کے قصور اس قدر گھناؤنے تھے کہ اللہ کو ان پر لعنت بھیجنا پڑی۔ فرمایا: جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں۔ حالانکہ ہم انھیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں، یقین جانو اللہ بھی ان پر لعنت بھیجتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھتیجے ہیں۔ (البقرہ160)
یہ لوگ کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے تھے اور دوسرے حصے سے دنیاوی مفادات کی بنیاد پر انکار کرتے تھے‘ فرمایا: تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو‘ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں گے‘ ان کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں۔ (البقرہ 85) یہودیوں پر ایک عذاب ایسا بھی آیا کہ وہ بندر بنا دیے گئے۔ یہ عذاب اس وجہ سے آیا کہ انھیں ہفتے کے دن شرعی حیلہ کرنے سے منع کیا گیا تھا، لیکن وہ حیلے تراشتے اور طرح طرح کے طریقے ڈھونڈتے تا کہ اللہ کے اس حکم کا نکار بھی ہو جائے اور شرعی طور پر ان پر کوئی حرف نہ آئے۔ ہفتے کو دریا میں مچھلی پکڑنے پر ممانعت تھی۔
یہود نے بڑے بڑے تالاب بنائے تھے جن کی طرف پانی کا رخ موڑ دیتے۔ وہاں مچھلی آ کر پھنس جاتی اور یوں وہ اسے اگلے دن پکڑے لیتے اور باقی اضافی مچھلی کا شکار بھی ہوتا رہتا۔ ’’پھر تمہیں اپنی قوم کے ان لوگوں کا قصہ تو معلوم ہی ہے جنہوں نے ہفتے کے دن کاروبار نہ کرنے کا قانون توڑا ہم نے انھیں کہہ دیا کہ ہو جاؤ بندر اور اس حال میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر پھٹکار پڑے‘‘۔ (البقر 66) حیلہ سازی و بہانہ بازی اور مختلف طریقوں سے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات سے روگردانی کا راستہ نکالنا علمائے یہود کا خاصا تھا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے اپنی امت کے بارے میں ایسے ہی ایک خطرے سے آگاہ فرمایا ’’تم پہلی امتوں کی اسی طرح پیروی کرو گے جس طرح بالشت بالشت کے برابر اور گز گز کے برابر ہوتاہے۔ حتیٰ کہ اگر وہ لوگ گوہ کے سورا خ میں گئے ہوں گے تو تم ان کی پیروی کرو گے۔ ہم لوگوں نے عرض کیا‘ یارسول اللہ ؐ کیا یہود و انصاریٰ کی پیروی کریں گے‘ آپؐ نے فرمایا کہ اور کون ہو سکتا ہے۔ (متفق علیہ)۔ یہی ہماری روش ہے کہ ہمارے بعض علماء بھی ویسے ہی حیلہ سازی کے ذریعے اللہ کے احکامات سے روگردانی کا راستہ نکالتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کے آئین میں سود کو ختم کرنے کی ذمے داری حکومت کی ہے اس کے صدر ممنون حسین کو یہ جرأت ہوتی ہے کہ وہ علماء سے کہتے ہیں کہ ہاؤس بلڈنگ کے قرضے پر سود کی ادائیگی کے لیے راستہ نکالیں۔ ہاؤس بلڈنگ کے قرضے حکومت کے زیر انتظام دیے جاتے ہیں اور صدر محترم اپنے ماتحت محکمے کو سود سے منع نہیں کر سکتے لیکن علماء سے کہتے ہیں کہ کوئی راستہ نکالیں۔ یعنی حکومت تو یہ حرام کھاتی رہے گی، آپ دینے والوں کی تسلی کے لیے کوئی راستہ نکالو۔ یہ توقع علماء سے کیوں لگائی گئی۔ اس لیے کہ اس مملکت خداداد پاکستان کے کچھ علماء نے ایک ایسے بینکاری نظام کو حیلوں کے ذریعے اسلامی بنا کر پیش کیا جس کی ساری کی ساری اساس ہی سودی نظام پر ہے۔ جب سپریم کورٹ نے اپنے تاریخ ساز فیصلے مورخہ 23 دسمبر 1999ء میں بینکاری سود کو حرام قرار دیا تو اقتدار کے ایوانوں میں ہل چل مچ گئی۔ فوری طور پر جو پالیسی ترتیب دی گئی اس کے اہم ستون یہ تھے۔ 1- عدالتوں کے ذریعے سود کے حرام ہونے کو متنازعہ رکھا جائے تا کہ پوری قوم کنفیوژن کا شکار رہے۔2 – حکومت عدالت میں یہ مؤقف اختیار کرے کہ اسلام نے تو اصل میں رباء کو حرام قراردیا جب کہ بینکاری سود تو رباء ہے ہی نہیں۔ -3 موجودہ جدید بینکاری کی طرز پر ایک اسلامی بینکاری نظام قائم کیا جائے جو سودی نظام کے شانہ بشانہ چلتا رہے اور جسے اسلامی قرار دینے کے لیے شریعہ ایڈوائز مقرر کیے جائیں۔
یوں ایک ہی بینک لوگوں کو یہ سہولت دے کہ اگر وہ چاہیں تو اسلامی بینکاری کے تحت اکاؤنٹ کھولیں یا عام بینکاری کے تحت۔ یعنی چاہے تو اس بینک کی دکان سے حرام کاروبار کریں یا حلال۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک قصاب کی دکان پر خنزیر اور بکری کا گوشت بیک وقت دستیاب ہو۔ اس وقت 22 اسلامی بینک بیک وقت یہ سہولت فراہم کر رہے ہیں اور ان بینکوں میں بیٹھے شریعہ ایڈوائزر اور مفتیان کرام خاموش ہیں بلکہ اسٹیٹ بینک کا شریعہ ایڈوائزی بورڈ بھی خاموش ہے۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک قصاب کی دکان پر خنزیر کا گوشت بھی بک رہا ہو اور آپ کہیں کہ میں تو اس بات کی تنخواہ لیتا ہوں کہ یہاں بکری کا گوشت خالص ہے یا نہیں۔ اگر اسلامی بینکاری واقعی حلال ہے تو مروجہ بینکاری کو بند کیوں نہیں کرتے۔ سب کچھ تو ویسا ہی ہے‘ عمارت‘ چیک بک‘ اے ٹی ایم کارڈ‘ قرضہ اسکیمیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہم نے ہی تو حیلہ سازی سے انھیں قائم رکھا ہوا ہے۔ صرف ایک شرعی حیلہ بیان کر دوں۔ اجارہ سکوک‘ یہ ایک طرح کے بانڈ کی قسم ہے۔ مثلاً واپڈا اگر ایک ڈیم بنانا چاہتا ہے تو وہ اپنے ڈائریکٹروں کی ایک کمپنی بنائے گا جسے SPV یعنی Siecial Purpose Vehicle کہتے ہیں۔
یہ کمپنی اس ڈیم کی عالمی کنسلٹیسٹ سے قیمت لگوائے گی جسے Valuation کہتے ہیں۔ یہ قیمت اسلامی بینک اجارہ سکوک کی انوسٹمنٹ کے ذریعے ادا کر دیں گے جس سے وہ ڈیم بنے گا۔ اب یہ کمپنی جو اسی ادارہ کے ڈائریکٹروں پر مشتمل ہو گی‘ ڈیم کو واپڈا کو استعمال کرنے کے لیے دے گی۔ اب واپڈا سے جو رقم کمپنی حاصل کرے گی اسے سود نہیں کرایہ کہا جائے گا۔ اس پر سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ہر صبح اس ڈیم کا کرایہ سودی بینکوں کے سود کی شرح ناپنے کے نظام KIBOR یا LIBOR کے ذریعے ادا ہو گا۔ یعنی جس دن شرح کم اس دن کرایہ کم اور جس دن شرح زیادہ اس دن کا کرایہ زیادہ۔ کیا خوبصورت نفع اور نقصان کی حصہ داری نکالی ہے۔ کیا کسی عالم دین نے اپنا مکان کرائے پر دیا ہے اور ہر روز اس کا کرایہ KIBOR یا LIBOR کے ریٹ دیکھ کر وصول کرتا ہو۔ پوری کی پوری اسلامی بینکاری حیلہ سازی پر مبنی ہے جسے اسلامی بینکاری تو نہیں حیلہ بینکاری کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اس حیلے کے بعد جو سب سے بڑا فریب اب ہونے جا رہا ہے وہ ایسا ہے جو پورے کے پورے اسلامی بینکاری کے نظام کو سودی مال سے تر کر دے گا اور اس کی منظوری اسٹیٹ بینک کے شریعہ ایڈوائزی بورڈ نے دے دی ہے۔ شاہد حسن صدیقی صاحب نے اس خطرناک فیصلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کچھ دن پہلے تحریر کیا تھا ’’اسٹیٹ بینک اسلامی بینکوں سے سکوک کی مدت ختم ہونے کے قریب انھیں خرید کر مارکیٹ سے اربوں روپے وصول کرتا ہے پھر یہ رقم اوپن مارکیٹ میں سودی بینکوں کو فراہم کر دی جاتی ہے:‘‘ اسٹیٹ بینک اسے بیع مؤجل کہتا ہے۔ اس طرح کھاتے دار جو رقوم اسلامی بینکوں میں پہنچاتے ہیں وہ خود بخود سودی بینکوں میں پہنچ جاتی ہے اور اس کی سود کی آمدنی سے جو منافع اسلامی بینک حاصل کرتے ہیں اسے خالصتاً اسلامی کہہ کر کھاتے داروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اب تو خنزیر اور بکری کا گوشت بھی ایک کر دیا گیا ہے۔ حرام و حلال ایک جگہ ایسے گڈ مڈ کر دیے کہ پہچاننا مشکل ہے لیکن میرے لیے حیرت کی بات یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کے شریعہ ایڈوائزی بورڈ جس میں ہر مسلک کے علماء شامل ہیں اس نے اس کی منظوری دے دی اور پوری امت کے علماء اس پر چپ ہیں‘ خاموش ہیں‘ مہر بہ لب ہیں۔
شاید انھیں اس بات کی سنگینی کا احساس نہیں یا پھر انھوں نے سورہ بقرہ کی ان آیات کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سود اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ کا اعلان ہے۔ مکمل انکار کرنے والوں‘ اللہ اور اس کے رسولؐ کے منکروں کا معاملہ تو اللہ روز قیامت پر چھوڑتا ہے لیکن جو اسے مانتے ہیں اور پھر حیلہ سازی‘ مکرو فریب‘ دجل و ریا کاری اور منافقت کے ذریعے اس کے احکامات میں دنیا داری کی گنجائش نکالتے ہیں تو ان پر آنے والے درد ناک عذابوں سے قرآن کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ شاید ہم کسی بڑے عذاب کو آواز دے رہے ہیں۔ جو اللہ ایک شدت والے زلزلے سے ہمیں خوفزدہ کر سکتا ہے، وہ زمین کو مزید جنبش بھی دے سکتا ہے تا کہ ہم عبرت کے نشان بنا دیے جائیں۔
بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس