طلاق:مردکی غلطی ،سزا عورت کو

ظالم اور مظلوم !

میں جب عائلی معاملات پہ لکھتا ھوں تو اپنے عملی تجربات کی بنیاد پہ لکھتا ھوں ،جس قسم کے کیسوں سے مجھے واسطہ پڑتا رھا ھے ، پاکستان کی عدالتوں میں بھی اور امارات کی عدالتوں میں بھی ، اس کے علاوہ ھر دن کئ کیس آتے ھیں اور مختلف پارٹیوں کی آمد رفت جاری رھتی ھے ،، زیادہ تر کیسز میں مرد حضرات کی غلطی ھوتی ھے اور کئ ایک میں خاتون غلط ھوتی ھے ،، طلاق کو بنیاد بنا کر بلیک میلنگ مرد حضرات کا گھناونا ہتھکنڈہ ھے ،، جو غیر شرعی ھے وہ طلاق دینا چاھتا ھے تو اسے طلاق دینے کا اختیار دیا گیا وہ اس عقد کو توڑ سکتا ھے ،معاہدے کو منسوخ کر سکتا ھے ، اسی طرح عورت بھی دعوی دائر کر سکتی ھے ،،

مگر طلاق کو مشروط کرنا غیر شرعی بھی ھے اور بزدلانہ فعل بھی ھے ، دوسری جانب دین کی مردانہ انٹرپریٹیشن یا ترجمانی کرنے والے علماء ھر لحاظ سے عورت کو ھی ٹارگٹ کرتے ھیں ، سوال یہ ھے کہ اگر کوئی شخص یہ کہتا ھے کہ تم اگر ماں باپ سے ملو گی تو تمہیں طلاق ،، تو کیا یہ اللہ کی معصیت اور دعوئ خدائی نہیں ھے ؟ خدا کے صلہ رحمی کے حکم کو شوھر اپنے حکم سے قطع رحمی میں تبدیل کر رھا ھے ، حکم کس کا نافذ ھو گا ؟ وہ جو نکاح کے صیغے میں ” نال حکم شریعت دے قبول کیتا ” تجوید کے ساتھ نکاح خوان پڑھاتا ھے ، کیا اسے خود بھی یہ معلوم نہیں کہ شوھر شریعت کے خلاف کوئی شرط عورت پر نافذ نہیں کر سکتا ؟ کیونکہ اس کے احکامات کی حد شریعت کے اندر تک ھے کیونکہ وہ اس کو شریعت کی پابندی کے شرط پر ھی سونپی گئ تھی ، جب آپ ذاتی گاڑی کو ٹیکسی کے طور پہ استعمال کرنا شروع کر دیں تو قانون حرکت میں آتا ھے کہ یہ گاڑی آپ کو ذاتی استعمال کے لئے رجسٹر کر کے ، لکھ کے دی گئ تھی ،، کیا گھریلو بجلی کو کمرشل استعمال کرتا پکڑا جائے تو جرم نہیں ھوتا ؟ ھر چیز آپ کو کسی شرط سے مشروط کر کے دی جاتی ھے ، اسی طرح بیوی بھی آپ کے شرعی حکم کو ماننے کی پابند ھے کوئی شخص طلاق کے نام پہ بلیک میل کر کے اس سے غیر شرعی کام نہیں کرا سکتا ،، اس سلسلے میں ایک سماجی پولیس کا ادارہ ھونا چاھئے ،، جو شوھر کو گرفتار کرے اور سزا دے ، دو چار کو سزا ھو گئ تو باقی کے منہ لگام لگ جائے گی ،،

اس فعل پر مرد کو ھمارے علماء ھی ابھارتے ھیں اور ان کی ھمت افزائی کرتے ھیں بلکہ لاڈلے بچے کی طرح خوب بگاڑتے ھیں ،، عورت کو یہ فضائل سنا سنا کر کہ اگر وہ مرد کی ایسی شرطیں مانے گی تو نہ صرف وہ بخشی جائے گی بلکہ باپ کے مرنے پہ بھی نہ جائے تو اس کا باپ بھی بخشا جائے گا ، سوال یہ ھے کہ شوھر کے ماں باپ کو بھی بخشش کی ضرورت ھے یا انہوں نے جھنم کا ون وے ٹکٹ کٹا رکھا ھے ؟ ایسی بخشش کے لئے مرد کو بھی والدین کی میت پہ حاضر ھونے سے روک دیجئے ،، بجائے اس کے کہ مرد کو ” تَوہ لعنت ” کریں کہ یہ تم کس قسم کی غیر شرعی حرکت کر رھے ھو، عورت کو حدیث سنا دی جائے گی کہ فلاں صاحب نے پابندی لگائی تھی تو ان کی بیوی کے والد کی بخشش ھو گئ تھی ،، سوال یہ ھے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اللہ کے حکم کے خلاف اس قسم کی پابندی قبول کیسے فرما لی ؟ جبکہ خود آپ کو شھد نہ پینے کی قسم پر بازپرس کا سامنا کرنا پڑا اور اپنی قسم پوری توڑنی پڑی ،،

اصل مرض یہ ھے کہ قرآن وسنت کی مردانہ تشریح میں رشتے دار صرف مرد کے پائے جاتے ھیں اور ساری آیتیں اور حدیثیں مرد کے رشتے داروں سے تعلق جوڑ کر رکھنے کے احکامات پر مبنی ھیں ، جب عورت کے والدین تک ملنے پر پابندی کو برضا و رغبت قبول کر لیا جاتا ھے اور عورت کو شوھر کی اطاعت کے فضائل بتا کر صبر کی تلقین کی جاتی ھے تو یہ سیدھا سیدھا مرد کے مظالم میں شریک ھونے والی بات ھے ، جس طرح ھر مارشل لاء کے دائیں طرف کوئی شریف الدین پیر زادہ ھوتا ھے ، اسی طرح مرد کے ھر ظلم کے دائیں طرف کوئی مولوی صاحب ضرور ھوتے ھیں جو اس کے مظالم کو شرعی سند عطا فرماتے ھیں ،، قرآن میں والدین سے مراد مرد کے والدین ھیں ، حدیث میں والدین سے مراد مرد کے والدین ھیں ،، قرآن کی وہ جتنی آیتیں ھیں جو بتاتی ھیں کہ کس طرح ایک ماں بچے کو مشقت سے اٹھا کر رکھتی ھے اور کس طرح مشقت سے جنتی ھے اور تیس ماہ تک وہ جونک بن کر اس کو چوستا رھتا ھے وہ ساری آیتیں مرد کی ماں کی تکلیف بیان کرتی ھیں ،البتہ عورت کو اس کی ماں نے گوگل سے ڈاؤن لؤڈ کیا ھے ، نہ مشقت سے پیٹ میں اٹھایا ھے اور نہ دودھ پلایا ھے ،، وہ والدین سے کوئی رابطہ نہ رکھے ،،،،،،

دوسری بات یہ کہ عورت کی کفالت عاقلہ کی ذمہ داری ھے ، اور یہ اخلاقی نہیں بلکہ قانونی ذمہ داری ھے ،اگر عورت کو اس کا شوھر گھر سے نکال دیتا ھے تو اس کے بھائی کی ذمہ داری ھے کہ وہ اس کی کفالت کرے اور جو دال ساگ اس کو میسر ھے اس میں بہن کو شریک کرے ،، جب بھاوج رانی کو پتہ ھو گا کہ قانوناً میرا شوھر پابند ھے کہ بہن کی کفالت کرے تو وہ یکطرفہ زور اپنی نند کو نکالنے پر لگانے کی بجائے اس کے شوھر کو بھی سمجھائے گی ،، اب تو عورت پر ھی دباؤ ھوتا ھے کہ وہ بھائی کے گھر سے نکلے اور جہاں چاھے چلی جائے یوں اس کی خودکشی یا دارالامان میں بربادی کا سامان کیا جاتا ھے ،،

اصولا مرد کی یہ مشروط طلاق غیر شرعی قرار دے کر اسے یمین اللغو کے تابع کرنا چاھئے ،، ورنہ عورت عدالت سے رجوع کرے جو اس شرط کو غیر قانونی قرار دے کر Null &Void ڈکلیئر کرے ،،
اگر ااس کو لاگو بھی مانا جائے تو عورت اپنے والدین سے ضرور ملے اور پھر واپس نہ آئے یوں 90 دن کے بعد وہ طلاق اپنے انجام کو پہنچ جائے گی اور اب عورت آزاد ھے کہ چاھے تو اسی شوھر سے نیا نکاح کر لے ،، اس طرح نئے نکاح پہ سابقہ شرط لاگو نہیں ھو گی ،، مرد عورت کو طلاق دے کر بھی یہ 90 دن کے بعد نئے نکاح کا طریقہ اختیار کر سکتا ھے ،، مگر بعض لوگ یہاں بھی رکاوٹ ڈالتے ھیں کہ نہیں جناب اگر درمیان میں کوئی اور نکاح نہ کیا گیا تو سابقہ شوھر سے نکاح ھوتے ھی سابقہ شرط پھر بحال ھو جائے گی ، اور یہ بات غیر منطقی ھے ، سابقہ نکاح دفن ھو چکا ھے اور نئے حق مہر کے ساتھ نیا نکاح ھوا ھے اور تین طلاقیں بھی نہیں ھوئی ھیں ،اور آیت ” إذا طﻟﻘﺗم اﻟﻧﺳﺎء ﻓﺑﻟﻐن أﺟﻟﮭن ﻓﻼ ﺗﻌﺿﻟوھن أن ﯾﻧﮐﺣن أزواﺟﮭن إذا ﺗراﺿوا ﺑﯾﻧﮭم ﺑﺎﻟﻣﻌروف،، اس کی نص ھے،،

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے