لڑکی کو پہلا اور آخری اِشارہ

حماقتیں : ’کسی لڑکی کو پہلا اور آخری اِشارہ‘

ہم نے مرنا بھی نہیں تھا اور ہماری اتنی بے عزتی بھی کبھی نہیں ہونی تھی لیکن ہمیں ہمارے ’شریکوں‘ نے مروایا۔۔ سیکنڈ ایئر کی بات ہے، آوارہ گردی اپنے عروج پر تھی۔ عامر، وکی اور میں تینوں ایک دوسرے کے ساتھ تقریباﹰ سارا سارا دن فائلوں کی طرح نتھی رہتے تھے۔ ہمارا سب سے محبوب مشغلہ پانی والی ٹینکی پر چڑھ کے چائے پینا ہوتا، عامر گھر والوں سے چھپ چھپا کر سگریٹ پی لیتا اور ہم اس وقت ٹینکی کے قریب زیر تعمیر گرلز کالج کو دیکھ کر خوش ہوتے رہتے۔۔

ہم تینوں اپنے سجنوں کی ’لوّ اسٹوریاں‘ سن سن کر تنگ آ چکے تھے اور حیرانی اس بات پر ہوتی کہ یار ’وہ لڑکی‘ تو بہت ہی شریف ہے وہ اس جیسے ’جاہل بندے‘ سے بات کیسے کر لیتی ہے۔۔ ہمیں سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہوتا کہ ہمارا گاؤں کے پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہوتا ہے اور لیکن پھر بھی کوئی لڑکی ہمیں گھاس تک نہیں ڈالتی تھی۔۔ وکی اس وقت ’اعلیٰ تعلیم‘ کے حصول کے لیے لاہور کے کسی تھرڈ کلاس کالج تک جا چکا تھا ( جو نوشہرہ میں آکسفورڈ سے کم نہیں تھا)۔ میں بھی اپنی دھاک بٹھانے لاہور کے خواب پورے کرنے کے لیے پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے قریبی فلیٹوں میں رہ رہا تھا اور عامر کی پراوزیں گوجرانوالہ تک جاتی تھیں۔۔

لیکن اصل مسئلہ پھر وہی ، کہ یار یہ ’بکواس قسم‘ کے لڑکے کیا کرتے ہیں کہ ’با پردہ حسینائیں‘ ان کی دیوانی ہو جاتی ہیں۔۔

سب سے زیادہ ہم بوٹے (نام بدل دیا گیا ہے) سے جیلس ہوتے تھے۔۔ یقین کریں ظاہری لحاظ سے اس میں ہر وہ خامی موجود تھی جو لڑکیوں کو ناپسند ہوتی ہے۔۔ رنگ فل ٹائم پکّا تھا۔ ایک آنکھ ہمیشہ تقریباﹰ بند رہتی تھی اور قد کاٹھ بھی چھوٹا تھا۔۔ لیکن اس کے پاس پتہ نہیں کون سی گیدڑ سنگھی تھی کہ ہر تیسری لڑکی کا اس کے ساتھ افئیر نکلتا۔۔ ہم ثبوت مانگتے تو وہ تصویریں تک لا کر پیش کر دیتا۔۔ ہم اس کے سامنے تو اسے کچھ نہیں کہتے تھے لیکن اندر ہی اندر سے بڑا ’وٹ‘ تھا۔۔۔ کہ یار یہ چکر کیا چلاتا ہے۔۔ لیکن کئی سال بعد ہم پر یہ راز بھی کھلا کہ وہ بہت سے محبت نامے خود ہی اپنے نام لکھ کر پوسٹ کر دیا کرتا تھا اور اپنے یار بیلیوں کو مفت میں جلایا کرتا تھا۔۔ بوٹا لاہور میں کلاس فیلو لڑکیوں کو سو سو روپے کے کالنگ کارڈ خرید کر دے آیا کرتا تھا کہ میں گاؤں پہنچوں تو فون کرنا، جب کبھی ٹیلی فون کی لائنیں خراب ہوتیں تو اسے سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہوتا کہ یار انہوں نے اب کسی اور کو فون کر لینا ہے۔۔ بوٹا بذات خود ایک ایسی شخصیت ہے، جس کی حرکتوں پر کئی مضمون لکھے جا سکتے ہیں۔

لیکن خیر اس طرح کی کئی دیگر کریکٹر بھی تھے جو روزانہ ہمارا دل اور خون جلایا کرتے تھے ۔۔ ایک دن ہم تینوں ذیشان کے ساتھ اس کی پھوپو کے زیر تعمیر گھر کی طرف جا رہے تھے۔۔ ہم راستے میں تھے کی ایک جالی والی کھڑکی سے ایک دم کسی لڑکی نے ہمیں دیکھ کر زور سے کہا، ’’انسان ایک معاشرتی حیوان ہے۔۔‘‘ ہم نے ادھر ادھر دیکھا۔۔ جالی والی کھڑکی کے پیچھے سے دبی دبی ہنسی کی آوازیں آئیں اور کھڑکی ایک دم سے بند ہو گئی۔ ہم آج بھی جب اس گلی سے گزرتے ہیں تو ایک دم یہ فقرہ کانوں میں گھونجتا ہے، ’’انسان ایک معاشرتی حیوان ہے۔‘‘ اور لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔

خیر اس دن ہم میں ایک عجیب قسم کا اعتماد آیا کہ کسی نے ہمیں چھیڑا ہے۔۔ ہم ذیشان کی پھوپو کے گھر کی چھت پر چلے گئے اور فیصلہ کیا کہ جو کچھ بھی ہو اب ہم بھی اس میدان میں قسمت آزمائی کریں گے۔۔

مسلسل بحث کے بعد فیصلہ ہوا کہ چھت پر ہی کسی لڑکی کو اشارہ کیا جائے گا۔۔ ہم نے اپنی ریڈار نما نظریں گھومائیں تو ساتھ والی حویلی میں ایک ’جیمز بانڈ حسینہ‘ بھینس کے گوبر سے اوپلے بنا کر دیوار سے چپکانے میں مصروف تھی۔۔ ہم نے فیصلہ کیا یہاں سے آغاز کرتے ہیں۔ ہمیں کوئی پانچ سو فیصد یقین تھا کہ ’’یہ تو ہم سے متاثر ہو ہی جائے گی۔‘‘ رنگ اس کا بھی بوٹے جیسا تھا لیکن ماشااللہ اس کے اوپلے بنانے اور انہیں دیوار سے ٹھاہ کر کے لگانے کی سپیڈ بہت اچھی تھی۔۔ ہم نے نوٹ کیا کہ دونوں ہاتھ بھینس کے گوبر میں بھرے ہونے کی وجہ سے وہ کبھی کبھار اپنا ناک بھی کندھا اچکا کر اسی کے ساتھ رگڑ کر صاف کر رہی ہے۔ یہ بات اب بھی یاد ہے کہ اس نے کم ازکم دس دنوں سے تو بال بھی نہیں دھوئے ہوں گے، لیکن خیر ہمارے لیے پھر بھی وہ ’حسینہ‘ ہی تھی۔۔۔

ذیشان پتنگ اُڑانے میں مصروف تھا اور ہم تینوں ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑے تھے۔ خوف کی وجہ سے دل اتنے زور سے دھڑک رہے تھے کہ لگتا تھا ابھی سینے سے چھلانگ لگا کر باہر آ جائیں گے۔کچھ دیر دائیں بائیں دیکھنے کے بعد کہ کوئی ہمیں دیکھ تو نہیں رہا، ہم نے اوپلے لگاتی ہوئی دنیا سے بے نیاز حسینہ کو ہاتھ ہلایا۔۔ لیکن ’حسن بے نیاز‘ نے کوئی جواب نہ دیا۔۔ ہم نے سوچا کہ شاید ’حسینہ‘ نے دیکھا نہیں۔۔ ہم نے دوبارہ ہاتھ ہلایا۔۔ تو ’حسن کی دیوی‘ نے اوپلے بنانا بند کر دیے اور ہماری طرف دیکھنا شروع کر دیا، شاید وہ تصدیق کرنا چاہ رہی تھی کہ ہم اسی سے مخاطب ہیں۔۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ یہ ’تینوں مشٹنڈے اور خوبرو جوان‘ اسی کے ’حسن‘ کے پیچھے پاگل ہوئے جا رہے ہیں تو ’چھمو‘ ناز بھرے انداز میں تھوڑی سی جھکی اور پاؤں کی ٹوٹی ہوئی پلاسٹک کی چپل ہاتھ میں پکڑ کر اس کا منہ ہماری طرف کر دیا۔۔ ہم کسی دوسرے ری ایکشن کے انتظار میں تھے لیکن ’اوپلوں کی ملکہ‘ کی اس جوابی کارروائی نے ہمارے پاؤں تلے سے زمین تو نہیں لیکن چھت ضرور نکال دی۔۔
ہم تینوں نے ایک دم اپنے منہ پیچھے کی طرف موڑ لیے جیسے کہ کچھ دیکھا ہی نہ ہو۔۔۔ وکی کے منہ سے ایک دم نکلا کچھ نہیں ہوا ، کچھ نہیں ہوا، کسی نے نہیں دیکھا، کسی نے نہیں دیکھا۔۔ میری ہنسی بند نہیں ہو رہی تھی، عامر اس دن کافی دیر تک گالیاں دیتا رہا کہ تم دونوں نے مروایا ہے۔۔’’اتنی بے عزتی تو آج تک نہیں ہوئی تھی‘‘۔۔۔

یقین جانیے ہمارے لیے یہ چھمو ہی ’جنرل راحیل‘ ثابت ہوئی وہ دن اور آج کا دن ہمیں ایسے لڑکے انتہائی برے لگتے ہیں جو اشارہ بازی جیسی گھٹیا حرکتیں کرتے ہیں۔

اب ہم آج تک اپنے دوستوں کو یہی سمجھاتے ہیں کہ دیکھو اشارہ کرنا بہت ہی بری بات ہوتی ہے، ’’کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے‘‘۔

’’اس ایک واقعے کا نفسیاتی اثر اتنا گہرا ہوا ہے کہ اس کے بعد سے ہم نے جس جرمن حسینہ سے بھی بات کرنے کی کوشش کی تو یہی پوچھا، مارٹینا باجی یہ مسجد کو راستہ کونسا جاتا ہے؟‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے