ُُپاکستان کی تاریخ میں کسی جمہوری حکومت کے دور میں ملک کی 5اکائیوں میں بلدیاتی انتخابات کا عمل تکمیل کے آخری مرحلے میں ہے۔ اس ضمن میں 5دسمبر 2015ء کی تاریخ انتہائی اہمیت کی حامل ہے،جب سندھ کے 6اور پنجاب کے12اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہونگے۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا کریڈٹ دراصل عدالت عظمیٰ کو جاتاہے کیونکہ سیاسی جماعتیں اس کیلئے تیار نہیں تھی اور ان کے حربوں کی وجہ سے انتخابات کے انعقاد میں 5سال کی تاخیر ہوئی ۔ا مجموعی طور پر ملک کی 8اکائیوں (چاروں صوبے ، اسلام آباد ، فاٹا ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان) میں سے 5اکائیوں(چاروں صوبوں اور اسلام آباد) میں بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل ہوگا اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان دو ہی اکائیاں ہیں جن میں بلدیاتی انتخابی عمل باقی ہے اور امید ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر حکومتیں کسی عدالتی حکم کے انتظار کی بجائے جلد بلدیاتی انتخابات کرائیں گی ۔
سندھ میں5دسمبر کو صوبا ئی دارالحکومت اور ملک کا معاشی حب کراچی کے6اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں آخری مراحل پر ہیں ۔ جہاں تک انتخابی مہم کا تعلق ہے تمام جماعتوں نے اپنی حد تک ہر ممکن کوشش کی ہے ۔متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین اپنی جماعت کے اجتماعات سے ٹلیفونک خطاب کرتے رہے اور مختلف رہنماء انتخابی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف بھی انتخابی کامیابی کیلئے سر توڑ کوشش کررہی ہے ۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 28نومبر کو کراچی میں اپنی بھر پور طاقت کا مظاہرہ کیا۔ عمران خان نے 29نومبر کو بھی شہر کے ایک درجن کے قریب اجتماعات سے خطاب کیا اور اپنے لوگوں کو متحرک کرنے کی کوشش کی ہے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے میٹروپولیٹن کارپوریشن کی 209میں سے بیشتر یونین کمیٹیوں میں انتخابی اتحاد کیا ہے ،تاہم ضلع کونسل کراچی کی 38کونسلوں کیلئے ایسا نہیں کیاگیا ۔کراچی میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے انتخابی کے جہاں کئی فوائد ہیں وہیں نقائس بھی سامنے آرہے ہیں اور بعض مبصرین کا دعویٰ ہے کہ بعض نشستوں کی حد تک اس اتحاد کا فائدہ دونوں جماعتوں کو ضرور ملے گا، لیکن مجموعی طور پر اس کے نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ ایم کیوایم نے اس اتحاد کی بنیاد پر ایک مرتبہ پر اپنے لوگوں کویہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ باہر سے لوگوں کو لاکر کراچی میں مسلط کیاجارہاہے (غالبا ًان کی مراد تحریک انصاف ہے) اور اس تاثر میں کسی حد تک ایم کیوایم کامیاب نظر آرہی ہے، اس لیے بعض مبصرین کا دعویٰ ہے کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے اتحاد کی بازگشت نے جہاں دونوں جماعتوں کو نصف سے کم یونین کمیٹیوں میں فائدہ پہنچایاہے وہیں پر بیشتر حلقوں میں ایم کیوایم کی پوزیشن کو مستحکم کی ہے اور بدقسمتی سے لسانیت کے تعصب کوایک مرتبہ پھر پزیرائی مل رہی ہے۔
کراچی کی حد تک اگر تجزیہ کیاجائے تو یہ بات یقینی نظر آتی ہے کہ ایم کیوایم کو دیگر جماعتوں کے مقابلے میں برتری حاصل ہوگی ،تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ میئر کے انتخاب کیلئے سادہ اکثریت مل جائے ۔میئر کیلئے 209میں سے 105کے قریب نشستوں(یونین کمیٹی ٔچیئرمین) کا ہد ف حاصل کرنا ہوگا، جس کے بعد ہی مخصوص نشستوں پر بھی کامیابی حاصل کرکے 308کے ایوان میں 155کی سادہ اکثریت کا حصول ممکن ہوگا ۔مبصرین کے مطابق ایم کیوایم اگر 80اور 90کے درمیان نشستوں پر کامیابی حاصل کرتی ہے تو 15سے 20ووٹوں کا حصول زیادہ مشکل ہدف نہیں ہوگا، تاہم اس سے کم پر میئر شپ ایم کیوایم کیلئے ایک خواب ثابت ہوسکتی ہے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا اتحاد اور یہ جماعتیں انفرادی طور پر 70اور80 نشستیں(یونین کمیٹیوں کے چیئرمین) جیتنے میں کامیاب ہوتی ہیں تو میئر شپ کا حصول ان کیلئے آسان ہوسکتاہے۔اس سے کم نشستوں کے حصول کی صورت میں کراچی کے اقتدار تک رسائی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔ مختلف سروے کے مطابق یہ بات یقینی ہے کہ سب سے زیادہ نشستیں ایم کیوایم کو ہی ملیں گی لیکن اصل مقابلہ نمبر دو اور تین کیلئے ہے ،جس میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں مقابلہ ہے۔زیادہ امکان یہی ہیکہ جماعت اسلامی دوسرے اورتحریک انصاف تیسرے نمبر پر رہے گی جبکہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) ، جمعیت علماء اسلام(ف)، عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان رائے حق پارٹی ، پاکستان سنی تحریک ، مہاجر قومی موومنٹ اور دیگر جماعتیں بھی خاطر خواہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گی اور میئر شپ کیلئے یہ جماعتیں انتہائی اہم ثابت ہوسکتی ہیں۔
کراچی میں مجموعی طور پر 1520نشستوں کیلئے 5دسمبر کو پولنگ ہونی تھی جن میں سے 46نشستوں پر امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہوئے اور دو نشستیں خالی ہیں ۔ اب 1472نشستوں کیلئے مجموعی طور پر 6607امیدواروں کے مابین مقابلہ ہوگا،ضلع کونسل کی 38نشستوں کو مدنظررکھا جائے تو وہاں پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں پر مشتمل اتحاد کے مابین سخت مقابلہ ہے، کراچی کے حالات کشیدہ ہونے کی وجہ سے تقریبا 94فیصد پولنگ اسٹیشنوں کو حساس اور انتہائی حساس قرار دیکر9400فوجی اور36ہزر پولیس اہلکار تعینات کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے جبکہ 6فیصد پولنگ اسٹیشن نارمل ہیں۔ کراچی میں 70لاکھ 83ہزار سے زائد ووٹرز حق رائے دہی استعمال کریں گے اب دیکھنا یہ ہے کہ کس کو کتنی کامیابی ملتی ہے۔
کراچی کے بلدیاتی انتخاب میں (ن) لیگ ،پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام(ف) کی مرکزی قیادت تقریبا ًلاتعلق رہی ہے تاہم جمعیت علماء اسلام(ف) نے 29نومبر کولاڑکانہ میں ایک مرتبہ پھر اپنی بھرپور قوت کا شاندار مظاہرہ کیا۔ لاڑکانہ میں جمعیت علماء اسلام(ف) کے رہنماء ڈاکٹر خالد محمود سومرو کی نسبت سے ہونے والی شہید اسلام کانفرنس کو تاریخی قرار دیا جارہاہے ۔اس بات کا اعتراف نہ صرف میڈیا بلکہ پیپلزپارٹی کی قیادت بھی کررہی ہے کہ یہ لاڑکانہ کی تاریخ کی سب سے بڑی کانفرنس تھی ،تاہم جمعیت علماء اسلام (ف)کو کانفرنس کے حوالے سے میڈیا سے شکایات ہیں اور جو کسی حد تک درست بھی ہے کہ الیکٹرونک اورپرنٹ میڈیا نے وہ کوریج نہیں دی جو اتنے بڑے اجتماع کا حق بنتا ہے ۔ جمعیت علماء اسلام کا دعویٰ ہے کہ 10لاکھ سے زائد لوگ شریک تھے تاہم آزاد ذرائع اور مبصرین کا کہناہے کہ یہ تعداد3سے 4لاکھ تھی اور اس بات پر سب متفق ہیں ہیں کہ یہ لاڑکانہ کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نے 30نومبر کو کراچی مین مفتی محمود اکیڈمی کے زیر اہتمام معروف دانشور فاروق قریشی کی تصنیف اقوال محمود کی تقریب رونمائی سے خطاب میں اگر چہ اپنی تقریر میں میڈیا سے خود شکوہ نہیں کیا لیکن اسٹیج سے شکوہ ضرور ہوا کہ لاڑکانہ میں اتنے بڑے اجتماع کو صرف اس لیے نظر انداز کیاگیاکہ اس دن کراچی میں تحریک انصاف کے قائد عمران خان موجود تھے ۔بعض مبصرین کا کہناہے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے دانستہ طور پر عمران خان کی سرگرمیوں کے لئے یہ دن مخصوص کیا۔
کراچی میں بلدیاتی انتخابی مہم کے دوران الیکشن کمیشن کی کمزوری اور سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی جانب سے ضابطہ اخلاق کی کھلی خلاف ورزی نمایا دیکھنے میں آئی اور سب سے بڑا المیہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزیوں کے خلاف الیکشن کمیشن کی مجرمانہ غفلت اور خاموشی ہے۔عوامی سطح پر یہ سوال اٹھایاجارہاہے کہ الیکشن کمیشن اگر ضابطہ اخلاق پر عمل کرانے کی اہلیت نہیں رکھتاہے تو ضابطہ اخلاق میں ایسے نکات شامل ہی کیوں کرتاہے جو ناقابل عمل ہو ں، یہی سوال راقم نے سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب فتح محمد سے بھی کیامگر جواب نہیں ملا۔